پاکستان میں آبادی کی شرح میں اضافے کی ایک بڑی وجہ اولاد نرینہ کی خواہش ہے ۔بیٹے کی خواہش میں ماں باپ کئی بیٹیاں پیدا کر چکے ہیں ۔

پاکستان میں آبادی کی شرح میں اضافے کی ایک بڑی وجہ اولاد نرینہ کی خواہش ہے ۔بیٹے کی خواہش میں ماں باپ کئی بیٹیاں پیدا کر چکے ہیں ۔ملکی اور بین الاقوامی ماہرین کے حوالے سے اپنی ریسرچ پیش کر چکے ہیں پاکستان جیسے معاشرے میں جہاں خاندان کی کفالت مدد کرتے ہیں مرد کماتے ہیں اور پورا گھرانہ اس آمدنی پر گزارہ کرتا ہے یہاں پر عام سوچ بھی یہی ہے کہ گھر میں بیٹا پیدا ہونا چاہیے جب تک گھر میں بیٹا پیدا نہ ہو یا وارث جنم نہ لے لے تب تک اولاد پیدا کرنے کی دوڑ جاری رہتی ہے اس دور میں کئی خاندانوں نے متعدد بیٹیاں پیدا کی ہیں یقینی طور پر بیٹی بھی اللہ کی رحمت ہے اور اتنی ہی اہمیت کی حامل ہے جتنا بیٹا ۔لیکن کمال گھرانوں میں اور پرانی سوچ رکھنے والے خاندانوں میں بیٹے اور بیٹی کی پیدائش میں فرق سمجھا جاتا ہے اور جائیداد زمین و جاگیر کی وراثت میں بھی بیٹے کو اہمیت دی جاتی ہے اور بیٹے کی پیدائش کی خواہش رکھی جاتی ہے ۔پاکستان کے مختلف علاقوں میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بیٹے کی خواہش میں نہ صرف متعدد بیٹیاں پیدا ہوئی بلکہ دوسری اور تیسری شادی بھی اس لیے کی گئی تاکہ بیٹے کی پیدائش ممکن ہو سکے لیکن ہر کیس میں ایسا نہیں ہوسکا اور بعض مواقع پر دوسری اور تیسری بیوی بھی اولاد نرینہ نہیں دے سکیں اور مزید بیٹیاں پیدا ہوئی ۔پاکستان جیسے معاشرے میں ایسے خاندانوں کو یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ وہ بیٹے کی خواہش میں زیادہ اولاد پیدا کرنے کی بجائے جو بیٹی اللہ کی رحمت بن کر آئی ہے اس کی اچھی صحت اور پرورش پر توجہ دیں بیٹیوں کو بھی اعلی تعلیم یافتہ بنائیں انہیں بھی اچھے ہونے تعلیم اور تربیت سے آراستہ کریں آج کے ترقی یافتہ دور میں لڑکیاں بھی تعلیم اور ہنر کے ہر شعبے میں زبردست خدمات انجام دے رہی ہیں اور کامیابیاں حاصل کر رہی ہیں اور اپنی قابلیت صلاحیت اور ذہانت سے اپنے خاندان اور علاقے اور ملک و قوم کا نام روشن کر رہی ہیں لہذا خواتین کو بھی معاشرے میں آگے بڑھنے کے مواقع میسر ہیں ماں باپ کو صرف بیٹی کی خواہش میں مزید اولاد پیدا کرنے کی دوڑ جاری رکھنے کی بجائے اس بات پر اکتفا کرنا چاہیے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ قدرت نے انہیں بیٹی کی صورت میں اولاد سے نوازا اور بیٹی کو ایک رحمت سمجھ کر اس کی تعلیم و تربیت پرورش اور زندگی میں آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرنے کے لیے ماں باپ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے معاشرے میں بھی اس قسم کا رجحان پرورش پانا چاہیے کی لڑکیوں کو بھی برابری کے اور یکساں مواقع فراہم کئے جائیں اور آگے بڑھنے سے نہ روکا جائے ان کا اعتماد دیا جائے ان پر کسی قسم کا طنز تفریق اور امتیازی رویہ اختیار نہ کیا جائے لڑکیوں کو بھی لڑکوں کی طرح اپنی صلاحیت و قابلیت و ذہانت ثابت کرنے کے مواقع ملنے چاہیے ۔
پاکستان میں فیملی پلاننگ اور پاپولیشن کنٹرول کے حوالے سے کام کرنے والی سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر مختلف شخصیات اور تنظیموں نے اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا شروع کر رکھا ہے یہ بات قابل تعریف اور لائق تحسین ہے کے شہروں اور دیہاتوں میں لوگوں کو اس بات کا شعور دیا جارہا ہے کہ وہ بیٹے کی خواہش میں اولاد پیدا کرنے کی دوڑ میں زیادہ آگے نہ بڑھیں کم بچے خوشحال گھرانہ ایک معروف اور مشہور سلوگن ہے اس کے علاوہ پیدائش میں وقفہ لازم ہے اولاد کی پیدائش میں مناسب وقفے سے ماں اور بچے کی صحت پر توجہ دینے میں مدد ملتی ہے پاکستان میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی سطح پر فیملی پلاننگ اور پاپولیشن کنٹرول کے لیے مختلف اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں ملکی اور غیر ملکی ادارے شخصیات تنظیمیں اس سلسلے میں فعال موثر کردار ادا کر رہے ہیں لیکن ماہرین کا ماننا ہے کہ پاکستان میں ازدواجی زندگی گزارنے کے ساتھ ساتھ ری پروڈکٹو ہیلتھ سروسز کی فراہمی اور ان تک ہر شخص کی رسائی یقینی بنانے کے لیے ابھی بہت سے مزید اقدامات کی ضرورت ہے یہ بات باعث مسرت ہے کہ پاکستان میں سپریم کورٹ نے پاپولیشن کنٹرول کے معاملے پر سوموٹو ایکشن لیا تھا چیف جسٹس کے حرکت میں آنے کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اس سلسلے میں ٹاسک فورس اور ضروری اقدامات اٹھانے میں تیزی دکھائی ٹاسک فورس کی سفارشات پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہر حکومت اور سرکاری شخصیت کی ذمہ داری ہے عالمی ادارے بھی اس معاملے میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں غیر ملکی فنڈنگ بھی اس سلسلے میں اپنا کام کر رہی ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ غلط تاثر اور غلط سوچ کی نفی کی جائے اور مثبت خیالات کو اجاگر کیا جائے فیملی پلاننگ کوئی بری بات نہیں ہے اس کے فوائد کو سامنے رکھا جائے اس سلسلے میں مذہبی رجحانات اور علماء کی خدمات بھی اہم کردار ادا کر رہی ہیں کالج یونیورسٹی کی سطح پر بھی بالخصوص نوجوانوں کو اپنی شادی شدہ زندگی شروع کرنے سے پہلے چھوٹی فیملی کے فوائد سے روشناس کرنا ان کے آنے والے دنوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتا ہے ۔پاکستان میں صوبائی سطح پر پاپولیشن ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ اس حوالے سے اہم کردار ادا کر رہے ہیں جبکہ فیملی پلاننگ ایسوسی ایشن آف پاکستان ۔ماری اٹاپس سوسائٹی ۔گرین اسٹار ۔سمیت متعدد این جی اوز اور ادارے اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں جن کے کام کو ملکی اور عالمی سطح پر سراہا گیا ہے ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ پاکستان جیسے ملکوں میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ری پروڈکٹو ہیلتھ کے پروڈکٹس کی باآسانی دستیابی یقینی بنائی جائے اور ہر شخص کی باآسانی رسائی کے لیے اقدامات کیے جائیں اس حوالے سے دعوے بہت کیے جاتے ہیں لیکن زمینی حقائق ان دعوؤں کے برعکس ہیں کیونکہ ریپروڈکٹو ہیلتھ کیئر سروسز دور دراز علاقوں میں دستیاب نہیں ہیں گنجان آباد علاقوں گلی محلوں میں خواتین کے لیے ان سروسز کا حصول اور ان تک رسائی سماجی رکاوٹوں کی وجہ سے مشکل ہے اس سلسلے میں میڈیا کو بھی اپنا کردار زیادہ جارحانہ انداز سے موثر بنانا ہوگا ۔سرکار اکیلی اس سلسلے میں مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کر سکتی اسے سول سوسائٹی معاشرے کے بااثر اور ذمہ دار حلقوں اور میڈیا ۔سیاسی و مذہبی جماعتوں اور علماء کے تعاون کی ضرورت ہے ۔خواتین کو اس سلسلے میں زیادہ متحرک اور فعال کردار ادا کرنا ہوگا اور اپنی بہنوں اور دیگر خواتین کو گائیڈ کرنا ہوگا ۔لیکن ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ پاکستان جیسے معاشرے میں جہاں اولاد پیدا کرنے کے معاملے میں مرد کی مرضی کا عمل دخل زیادہ ہوتا ہے یہاں پر خواتین کو فیملی پلاننگ پر آمادہ کرنے سے زیادہ مردوں کی ایجوکیشن ضروری ہے مردوں کو اولاد میں وقفہ کی اہمیت اور طریقہ کار اور محفوظ ری پروڈکٹو ہیلتھ کیئر سروسز کی تعلیم اور تربیت دینا ضروری ہے ۔
(جاری ہے )

رپورٹ سالک مجید۔
jeeveypakistan@yahoo.com