ڈنگہ( نعمان اعجاز سے ) رہنما تحریک لبیک پاکستان امیدوار پی پی 34 چوہدری عمران سيال نے کہا بھوک اور بے روزگاری کی وجہ سے خودکشی کی شرح میں اضافہ اور لوگ اپنے ہاتھ سے اپنے پیاروں کی جان لینے پر مجبور ہوچکے ہیں نسل در نسل اس ملک پر مسلط حکمران طبقے نے اس ملک کے عوام کا جینا حرام کردیا ہے ہر طرف مایوسی کا سماں ہے بھوک بے روزگاری مہنگائی نے عوام کی خوشیاں تک چھین لیں ہے اس ملک کا رہنے والا ہر باسی شدید پریشانی میں مبتلا ہے بے رحم مہنگائی سے ہر طبقہ شدید متاثر ہے عوام کی پریشانی میں ہر روز حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے مزید اضافہ ہورہا ہے موجودہ بجٹ نے عوام سے جینے کا حق بھی چھین لیا ہے ملک کا دیہاڑی دار طبقہ بےرحم مہنگائی سے اکتا چکا ہے حکومت کی کسان دشمن پالیسیوں نے بھی پہلے سے جاری بحران میں مزید اضافہ کیا ہے بجلی کے جھٹکوں نے بھی عوام کا جوس نکال دیا ہے
پالیسی ساز کاش کبھی مارکیٹ میں خریداری کرتے تو انہیں عام آدمی کے دکھ درد کا احساس ہوتا عوام کا دکھ درد محسوس کرنے والا کوئی نہیں ہے عوام کیساتھ پاکستان میں ہر جگہ ناانصافی عام ہے سرکاری دفاتر میں عوام کے ساتھ ایسے پیش آتے ہیں عوام کو بھیڑ بکریاں سمجھ رکھا ہو جب تک عوام کی تضحیک نہیں کریں تب تک شاید انہیں سکون نہیں ملتا راحت نہیں ملتی اپوزیشن اور حکومت دونوں کو صرف اپنی اپنی بقا کی پڑی ہوئی ہے انہوں نے کہا عوام کی کوئی فکر نہیں اسمبلی کے فورم پر بدتہذیبی اور بدتمیزی کا طوفان کھڑا ہے آئے روز کوئی نا کوئی بدتمیزی کا وقوعہ اور اس پر قہقوں کا طوفان بتارہا ہوتا ہے یہ لوگ عوام سے کتنا مخلص ہیں ثنااللہ مستی خیل اور اس جیسی درجنوں مثالیں موجود ہیں جب اسمبلی کے فورم پر ہمارا اخلاقی معیار دنیا دیکھ رہی ہوتی ہے ہم اپنے نوجوانوں کو اپنی قوم کو کیا سیکھا رہے ہیں کیا عوام کے نمائندے اس طرح کے ہوتے ہیں کیا عوام کو اپنے نمائندوں سے اب یہی توقع ہوسکتی ہے کہ ہمارے منتخب نمائندے اسمبلی کے فورم پر عوامی حقوق کی حفاظت کرنے کے بجائے اسمبلی کے فورم کو سٹیج ڈرامے میں تبدیل کریں گے کیا یہ درست عمل ہے درست انداز گفتگو ہے اور پھر ایسے لوگوں کو جو سپورٹ کرتے ہیں ان پر بھی آفرین ہے کہ جو بدتمیزی برپا کرے وہ ہمارا ہیرو ہے عوام کو بھی سوچنا ہوگا کہ ایسے تربیت سے عاری لوگوں کو اسمبلی میں بھیج کر ان سے اچھائی کی امید کیسے کی جاسکتی ہے اگر پاکستان کے عوام چاہتے ہیں کہ پاکستان میں حقیقی تبدیلی ہو تو 76 سال سے مسلط جاگیر دار اور سرمایہ دار طبقے سے جان چھڑائیں اور عام آدمی کو موقع فراہم کریں جو حقیقی معنوں میں آپکی ترجمانی کرے اور پیارے ملک پاکستان کو ترقی اور خوشحالی کے راستے پر گامزن کریں جب تک اس ملک پر پرانی خاندانی جماعتوں کا راج ہے کبھی بھی یہ پاکستان کی بہتری کے طرف گامزن نہیں کرسکتے کیونکہ انہیں پاکستان کے عوام سے کوئی غرض نہیں انکے ٹھکانے انکی جائیدادیں انکے علاج دبئی سوئزر لینڈ لندن اور امریکہ میں ہوں انکے اولادیں لندن میں ہوں یہ اقتدار میں ہوں تو انکا مسکن پاکستان ہوتا ہے یہ اقتدار سے باہر ہوں تو انکا مسکن لندن دبئی اور امریکہ ہوتا ہے عام آدمی کا بچہ بھوک اور بیماری میں بلک بلک کر جان کی بازی ہار جاتا ہے اور حکمرانوں کے بچے پیدائشی اربوں پتی پیدا ہوتے ہیں غریبوں کو علاج کیلئے گھر کی دہلیز پر ڈسپنسر بھی میسر نہیں اور حکمرانوں کے علاج لندن میں ہوتے ہیں غریبوں کے بچے سرحدوں کی حفاظت کیلئے اپنے ملک کی خاطر اپنی جانیں قربان کرتے ہیں اور اشرافیہ کی اولادیں غریب کے بچوں سے پروٹوکول لینا مقصود سمجھتے ہیں کونسی پرانی سیاسی جماعت ہے جو اپنا ٹکٹ کسی غریب کے بچے کو دے تمام بڑی اور پرانی سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ کے حقدار جاگیر دار اور سرمایہ دار ٹھہرتے ہیں اور غریب صرف جلسوں کی زینت بنتا ہے غریب کو صرف نعرے لگانے اور دوسرے غریب سے لڑانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے پاکستان میں وہ کونسا ادارہ ہے جہاں غریب آدمی کا بچہ اپنی صلاحیتیں بروئے کار نہیں لارہا ہر ادارے میں غریب کے بچے انجینئر پروفیسر ڈاکٹرز ٹیچر فوجی پولیس اور تمام اداروں میں اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں تو غریبوں کے اسمبلی میں جانے پر سسٹم میں کڑی شرائط کیوں ہیں غریب کے پاس صلاحیت موجود ہے مگر ظالم سسٹم غریب کو الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں دیتا غریب بندہ اگر الیکشن میں حصہ لے بھی تو مقابلے میں جاگیردار اور سرمایہ دار کروڑوں روپے خرچ کرکے الیکشن کو گھر کا بزنس سمجھ کر اسمبلی میں پہنچ کر اپنے کروڑوں کو اربوں میں تبدیل کرتے ہیں یہی ملک کی تباہی اور بربادی کا سبب ہیں یہ ملک کے بارے میں کم اپنے بارے زیادہ سوچتے ہیں آخر یہ ظلم اس ملک کے ساتھ کب تک ہوتا رہے گا کب تک غریب آدمی دو وقت کی روٹی کو ترستا رہے گا کب تک اپنی چھت اپنی سواری اپنے بچوں کی تعلیم اور علاج کے صرف خواب دیکھتا رہے گا کب تک ملک کے پڑھے لکھے باشعور باصلاحیت افراد ہاتھوں میں ڈگریاں لیے نوکریوں کیلئے دربدر کے دھکے کھاتے رہیں گے کب تک اس ملک خدادا پر نااہل قیادتوں کا راج برقرار رہے گا کب تک عوام حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے اذیتوں کا شکار رہیں گے آخر کب تک غریب کے بچے روٹی کیلئے ترستے اور حکمرانوں کے بچے ارب پتی بنتے رہیں گے کون ہے جو اس ملک کے عوام کو انصاف دلائے کون ہے جو اس ملک کے عوام کے چہروں پر خوشیاں لائے کون ہے جو اس ملک کو ترقی اور خوشحالی کے عظیم راستے پر گامزن کرے عوام کو سوچنا ہے اب کہ قیادت عام آدمی کو سونپی ہے یا پھر وہی سرمایہ دار اور جاگیر دار طبقے کو عام آدمی کا احساس عام آدمی ہی کرے گا کوئی سرمایہ دار اور جاگیر دار نہیں پچھلے 76 سالوں میں عوام بار بار یہ تجربات کر چکی ہے اب انتخاب صرف اور صرف عام آدمی عوام اپنے درمیان رہنے والے اپنے دوست مزدور اور عام آدمی کو موقع فراہم کریں انشاء اللہ عام آدمی اس ملک کی تقدیر بدلے گا اور خوشحالی غریب کا مقدر بنے گی روزگار عام ہوگا نوجوانو اٹھو اب اپنی زندگی کو بدلنے کے لیے سیاست کے میدان میں عملی حصہ لیں