اس کے ہاتھ میں جادو کی کوئی چھڑی تو نظر نہیں آتی لیکن اس کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔

جی ہاں ۔اس شخص کے بارے میں مشہور ہے کہ بہت جلد اپ کے دل میں گھر بنا لیتا ہے یہ اس کی خوبصورت گفتگو کا اثر ہے یا سحر انگیز شخصیت کا کرشمہ ،کہ ملاقات کرنے والا بہت جلد اس کا گرویدہ ہو جاتا ہے اس میں کچھ تو خاص ہے جو کسی مقناطیس کی طرح دوسروں کو اپنی جانب کھینچ لیتا ہے اس کی باتوں میں حقیقت پسندی ہے سادگی ہے سچائی ہے اور انداز تخاطب اتنا میٹھا اور باوقار ہے کہ چہرے پر مسکراہٹ سجائے یہ شخص عام طور پر مشکل اور خشک سمجھے جانے والے موضوعات پر بھی روانی سے بولتا چلا جاتا ہے اس کو مقامی قومی اور عالمی زبانوں میں بولنے کی کوئی قید بھی نہیں ،ہر جگہ اس کے پاس الفاظ کا اتنا ذخیرہ نظر اتا ہے کہ سامنے والا حیران رہ جاتا ہے ۔یہ بامقصد اور مدلل گفتگو کرتا ہے ۔

یہ ذکر ہے سندھ ایگریکلچر یونیورسٹی کے موجودہ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر فتح محمد مری کا ۔اپ کا شمار پاکستان کے اعلی تعلیمی حلقوں میں نہایت ذہین قابل باصلاحیت اور ہر دل عزیز شخصیات میں ہوتا ہے ایگریکلچرل اکنامکس میں پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹر مری کے متعدد ریسرچ پیپرز عالمی سطح پر پذیرائی حاصل کر چکے ہیں پاکستان میں زراعت کی ترقی اور فروخت کے لیے ان کی خدمات قابل قدر اور لائق تحسین ہیں ۔

وہ مانتے ہیں کہ پاکستان میں دستیاب زرعی زمین پر پہلے ہی کاشتکاری جاری ہے لیکن جدید زراعت اور ٹیکنالوجی کے استعمال سے دستیاب زرعی زمین پر کی جانے والی کاشتکاری کو حاصل ہونے والی فصلوں کے نتائج کے حوالے سے ڈبل کیا جا سکتا ہے پیداوار بڑھانے کے ساتھ ساتھ ہم اپنے کسانوں کی بہتر تربیت اور ایگریکلچرل ورکر کی ٹریننگ کر کے فوڈ لاسز پر نمایاں قابو پا سکتے ہیں ان کا ماننا ہے کہ اس وقت پاکستان میں فوڈ لاسز میں سیریلز میں 17 فیصد جب کہ فوڈ کاموڈٹی میں 40 فیصد نقصانات ہو رہے ہیں جن پر قابو پا کر ہم اپنی زراعت کی لاگت میں نمایاں کمی لا سکتے ہیں اس کے علاوہ ہم اپنے بیج اور فصلوں کی کاشت کو اور پانی کے بہتر استعمال کو یقینی بنا کر پیداوار بڑھا سکتے ہیں

سرکاری اور نجی شعبے کے ذریعے ایگریکلچر سیکٹر میں سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہماری پالیسی ہونی چاہیے پاکستان کے لیے زیادہ زر مبادلہ کمانے والے ٹیکسٹائل سیکٹر اور رائس سیکٹر پر زیادہ انویسٹمنٹ کرنی چاہیے پاکستان میں جو کپاس اور چاول اگتا ہے اس کی کوالٹی دنیا میں کم ہے اس لیے ہمارے پاس اور چاول کی مانگ زیادہ ہے ان کا بتانا ہے کہ

ہمارے ایک سائنس دان ڈاکٹر کرم خان کلری کا بڑا کارنامہ ہے انہوں نے ایک ورائٹی ٹی ڈی ون متعارف کرائی جس کی وجہ سے 25 من فی ایکڑ گندم کی پیداوار کو

اب ہمارے کسان 50 من فی ایکڑ تک لے جا رہے ہیں جبکہ بعض فارمز میں 110 منفی ایکڑ بھی گندم پیدا کی گئی ہے ہمیں ایسے لوگوں کی قدر کرنی چاہیے ان سے سیکھنا چاہیے اور ان سے رہنمائی لینی چاہیے ۔


ایگری کلچر یونیورسٹی کا پاکستان کی ذرات کے فروغ میں کتنا عمل دخل ہے وہ اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ ایگریکلچر یونیورسٹی بنیادی طور پر زرعی ہیومن ریسورس تیار کرتی ہے تاکہ جدید زراعت کو فروغ دینے میں مدد مل سکے چاہے وہ فیصل اباد کی ذریع یونیورسٹی ہو یا راولپنڈی کی یا ملتان کی میاں نواز شریف یونیورسٹی ہو یا ٹنڈو جام کی سندھ ایگریکلچر یونیورسٹی ۔ ہر جگہ یہ یونیورسٹی پاکستان میں جدید زراعت کے فروخت کے لیے نمایاں خدمات انجام دے رہی ہے سندھ ایگریکلچر یونیورسٹی ایک تاریخی اور قدیم ادارہ ہے انگریزوں نے جب

دریائے سندھ پر پہلا سکھر بیراج تعمیر کیا اور اس کے بعد کوٹری بیراج بنا تو زرعی کالج کی ضرورت محسوس کی گئی جہاں پر ریسرچ کرائی جائے اور زراعت کی تعلیم دی جائے تب سے اس شعبے میں اسی خطے میں کافی کام ہوا اور اس پر کافی توجہ دی گئی اور ٹنڈو جام میں 1977 میں سند ایگریکلچر یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا گیا تب سے یہ یونیورسٹی پاکستان میں زراعت کی ترقی اور فروخت کے لیے اپنا کردار ادا کر رہی ہے

کم و بیش 50 ہزار کے قریب گریجویٹس اس یونیورسٹی سے نکل چکے ہیں اور ہر سال اٹھ ہزار کے لگ بھگ طلبہ پڑھ رہے ہوتے ہیں یہاں اچھی فیکلٹی اور اچھی سہولتیں دستیاب ہیں اور مختلف قسم کی ریسرچ جاری ہے کپاس کی ایک قسم ایس یو ون پر بھی کافی کام کیا گیا ہے اسی طرح اور بھی بہت سی ریسرچ کی گئی ہے اور مختلف منصوبے کم و بیش 40 منصوبوں پر کام ہوا ہے اور ان کے مثبت مفید نتائج سامنے ارہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں فوٹوہار کا علاقہ ہو یا تھل کا اور صحرائی علاقے ہوں وہاں پر ابھی مزید کاشتکاری کے مواقع تلاش کیے جا سکتے ہیں کیونکہ ان علاقوں میں اتنا کام نہیں ہوا ۔وہ بتاتے ہیں کہ ہماری یونیورسٹی سمیت پاکستان میں زراعت کے شعبے کے لیے کام کرنے والے مختلف ماہرین اپنے اپنے طور پر کافی اہم کام کر رہے ہیں ہمیں اپنے نوجوانوں کو اس جانب
راغب کرنے پر توجہ دینی چاہیے جس طرح پنجاب نے نوجوانوں کی خدمات حاصل کر کے زیادہ گندم اگاؤ کی مہم چلائی اور نوجوانوں نے گاؤں گاؤں جا کر لوگوں کو ترغیب دی اس طرح نوجوانوں کا زراعت کی طرف رجحان بھی بڑھا اور کسان کو ہمارے اساتذہ کا علم بھی پہنچا اور اس کا بہتر نتیجہ بھی نکلا اسی طرح ہمیں نوجوانوں کو اس جانب متحرک رکھنا چاہیے پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے لہذا ہمیں ان زراعت اور لائیو سٹاک پر خاص توجہ دینی چاہیے
===============================

https://www.youtube.com/watch?v=ak0DHASC