وائس چانسلرز اور یونیورسٹی انتظامیہ پر دہرا خوف طاری ، صورتحال کتنی خراب ہے اس کی تازہ مثال خیرپور یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی ویڈیو ہے ۔

پاکستان کی جامعات کے وائس چانسلرز سمیت اہم انتظامی عہدوں پر بیٹھی شخصیات ان دنوں جس ماحول میں کام کر رہی ہیں وہ ماضی کی نسبت بہت خراب اور غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے جہاں 21ویں صدی میں سوشل میڈیا کی وجہ سے بہت سی برائیاں اور کمزوریاں بے نقاب ہو رہی ہیں وہیں ٹیکنالوجی کے غلط استعمال کی وجہ سے نئے مسائل بھی جنم لے رہے ہیں صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے اس کا فرق جاننا اسان نہیں رہا الزام لگانا اور الزام کے طور پر فیک تصاویر اور ویڈیو کو گردش میں لانا بہت اسان ہو گیا ہے جس پر الزام لگتا ہے یا جس کی بدنامی ہوتی ہے اسے اپنی صفائی پیش کرنی اور خود کو بے قصور ثابت کرنا مشکل ہو گیا ہے ۔
پاکستان بھر کی جامعات اور تعلیمی اداروں میں اچھے برے لوگ تو پہلے بھی تھے اج بھی ہیں شکایات پہلے بھی تھیں اج بھی ہیں لیکن ماحول شاید پہلے جتنا سازگار تھا اج نہیں ہے پرانی انتظامیہ کے لوگوں اور اساتذہ پر جتنا اعتماد اعتبار اور بھروسہ تھا اج وہ متزلزل نظر اتا ہے اس کی کچھ وجوہات جائز ہیں اور کچھ منفی پروپیگنڈے کا اثر ہے ۔

اگرچہ بہت سے نئے قانون اور ادارے وجود میں ا چکے ہیں جو تحفظ اور انصاف فراہم کرنے کے لیے قائم کیے گئے ہیں لیکن ان اداروں اور قوانین بننے کے باوجود ایسے واقعات مسائل کم نہیں ہو رہے بلکہ ان میں اضافہ ہو رہا ہے ۔
اج پاکستان کے اعلی تعلیمی حلقے اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ جامعات میں وائس چانسلر سے لے کے انتظامی عہدوں پر بیٹھی شخصیات تک اور اساتذہ سے لے کر اسٹوڈنٹس تک ہر طرف دباؤ ہے مسائل ہیں شکایات ہیں خوف ہے غیر یقینی ہے ۔
جہاں تک انتظامیہ عہدوں پر بیٹری شخصیات اور وائس چانسلرز کا تعلق ہے تو بتایا جاتا ہے کہ دہرا دباؤ محسوس کیا جا رہا ہے اسے خوف کا نام بھی دیا جا سکتا ہے کہیں زیادہ کہیں کم ۔


پہلا خوف ہراسگی کے الزام کا ہے ۔دوسرا خوف فیک ویڈیوز اور تصاویر کے منظر عام پر آنے کا ہے ۔تازہ مثال خیرپور یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی مبینہ ویڈیو کی ہے جس کا اتنا شور ہوا اور اوازیں اٹھیں کہ بالاخر سندھ کے نگران وزیراعلی جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر کو متحرک ہونا پڑا شاہ لطیف یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو رخصت پر بھیج دیا گیا اور ان کے خلاف انکوائری کے مطالبات پر تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی گئی یونیورسٹی کی بدنامی ہو رہی ہے خود وائس چانسلر کی بدنامی بھی ہو رہی ہے کون سچا ہے کون جھوٹا ہے یہ تو اب انکوائری کے بعد پتہ چلے گا وائس چانسلر ڈاکٹر خلیل کے خلاف سنگین نوعیت کے الزامات کی تحقیقات کا حکم وزیراعلی نے دے دیا ہے اور تین جامعات کے وائس چانسلر پر مشتمل اعلی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے

جس میں این ای ڈی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر سروش لودھی ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر سعید قریشی اور سندھ مدرسہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر مجیب الدین صحرائی شامل ہیں ۔اب اسے انکوائری کمیٹی کی طرف سب کی نظریں لگی رہیں گی بظاہر کسی بھی کمیٹی کا قیام کسی معاملے کو ٹھنڈا کرنا ہوتا ہے اور ایسے حالات میں عام طور پر سرکار یہ چاہتی ہے کہ معاملہ ٹھنڈا کیا جائے وقت گزارا جائے اور اس کے بعد جب لوگ اس معاملے کو بھولنا شروع ہو جائیں تو پھر اسے کسیانجام تک پہنچایا جائے عام طور پر ہمارے یہاں ایسی انکوائری کمیٹیوں سے زیادہ توقعات وابستہ نہیں کی جاتییں انہیں خانہ پوری کا حصہ سمجھا جاتا ہے اور ان کی رپورٹوں پر لوگ مکمل طور پر اعتبار بھی نہیں کرتے لیکن سرکار کے پاس انکوائری کرانے کے علاوہ اور کوئی اپشن بھی نہیں ۔ کسی تحقیقات کے بغیر کوئی ایکشن کیسے لیا جا سکتا ہے انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے کسی مرحلے سے تو گزرنا پڑے گا ۔
ادھر ہائر ایجوکیشن کمیشن ایچ ای سی کے پاس بھی ملک بھر سے اس قسم کے واقعات کی شکایات کی بھرمار لگی ہوئی ہے سوشل میڈیا پر مختلف تعلیمی اداروں کے حوالے سے ائے دن مختلف تصاویر ویڈیوز اور سکینڈلز گردش کرتے رہتے ہیں کون سچا کون جھوٹا ہے بہت سے معاملات سائبر کرائم ایف ائی اے کے پاس زیر تفتیش ہیں اگر ان واقعات میں سزائیں ملنا شروع ہو جائیں تو بہتری کی امید کی جا سکتی ہے
===========================

https://www.youtube.com/watch?v=ak0DHASC