سرسید یونیورسٹی کے چھبیسویں کانووکیشن کے موقع پر 1100 سے زائدطلباء و طالبات کو ڈگریاں تفویض کی گئیں۔

کراچی، 14/مارچ،2023ء۔۔ سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کا چھبیسواں کانووکیشن روایتی جوش و جذبے سے منایا گیا جس میں مختلف مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والی اعلیٰ علمی شخصیات کے علاوہ معززین، فیکلٹی و طلباء کی ایک کثیر تعداد نے شرکت کی۔تقریب کے مہمانِ خصوصی صوبہ سندھ کے گورنر ، جبکہ مہمانِ اعزازی سابق وفاقی وزیرِ داخلہ، تھے۔اس موقع پر تقریبا ایک ہزار سے زائدطلباء و طالبات کو ڈگریاں تفویض کی گئیں اور امتیازی نمبروں سے اول، دوئم اور سوئم پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء و طالبات میں بالترتیب طلائی، چاندی اور کانسی کے تمغے تقسیم کئے گئے۔
سرسید یونیورسٹی کے چھبیسویں کانووکیشن سے خطاب کرتے ہوئے گورنر نے کہا کہعصرِ حاضر سافٹ ویئر پر مبنی ڈیجیٹل ایپلی کیشن اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کا دور ہے۔۔موجودہ ماحول میں صرف علم اور ہنر کی اہمیت ہے۔روزگار کے مواقع محدود اور غیر متوقع ہیں۔اس لیے ضروری ہے کہ گریجویٹس انٹرپرینورشپ کو ترجیح دیں اور اپنے علم و ہنر کو مستقل اپ ڈیٹ کرتے رہیں اور عصر حاضر کی ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز سے اپنے آپ کو ہم آہنگرکھیں۔ چیلنجزبہت ہیں، مگر جیت اسی کی ہے جو ان سے نمٹنا بخوبی جانتا ہوں۔بلاشبہ سرسید یونیورسٹی کی کامیابی اور ترقی کی ایک طویل فہرست ہے اور جامعہ نے تیزی سے بدلتے ماحول کے مطابق ناگزیر تبدیلیوں سے اپنی ساکھ اور کارکردگی کے اعلیٰ معیار کو برقرار رکھا ہو اہے۔
گورنر سندھ نے کہا کہ ہمارے رہنماؤں نے عوام کو کوئی سمت نہیں دی۔۔ہم سب کچھ بن گئے مگر ایک اچھا انسان نہیں بن سکے۔شہر میں سمندر تو ہے مگر پانی نہیں ہے۔نہ بجلی ہے اور نہ گیس۔
اس یادگار موقع پر خطاب کرتے ہوئے سرسید یونیورسٹی کے چانسلر نے کہا کہکانوکیشن، کامیابی کے حصول کے لیے کی جانے والی آپ کی انتھک محنت اور لگن کا نتیجہ ہے۔یہ بڑی خوشی کا لمحہ ہے۔اور اپنے والدین اور اساتذہ کی قربانیوں اور رہنمائی کو یاد کرنے کا بھی لمحہ ہے۔۔آپ اپنی کامیابی کی خوشی کابھرپور جشن منانے کے حقدار ہیں۔یہ آپ کی زندگی کا ایک اہم سنگ میل ہے۔ تعلیمی نظامِ میں بہت بڑی تبدیلی آئی ہے اور نوجوانوں کا رجحان سافٹ ویئر پر مبنی ڈیجیٹل ایپلیکیشنز کی طرف بڑھ رہا ہے جو ان کے لیے ملازمت کے حصول کو آسان بنا رہا ہے۔اکیسویں صدی میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی ہماری ضرورت بن چکی ہے۔اب ہمارے نوجوان گھر بیٹھے کاروبارچلارہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اب جامعات کا کام طلباء کو صرف ڈگری دینے تک محدود نہیں رہا بلکہ طلباء کو صنعت اور معیشت سے جوڑنے کی ذمہ داری بھی جامعات پر عائد ہوتی ہے۔ سرسید یونیورسٹی عالمی معیار کے گریجوٹس تیار کررہی ہے جو نہ صرف اپنے ملک میں بلکہ عالمی سطح پر بھی اپنا نام اور مقام بنارہے ہیں اور اپنی مادرِ علمی کا نام روشن کر رہے ہیں۔
سرسید یونیورسٹی کے چانسلر نے کہا کہطلباء کی قابلیت اور مہارت نہ صرف انکی ترقی کا باعث بنتی ہے بلکہ ملک اور قوم کی بہتری اور خوشحالی کا سبب بھی بنتی ہے۔زندہ قومیں اپنی تاریخ پر عمارت کھڑی کرتی ہیں اور اپنے اسلاف کے ورثے سے استفادہ کرتے ہوئے مستقبل کو بہتر بناتی ہیں۔سرسید احمد خان برصغیر میں مسلم نشاۃ ثانیہ کے بہت بڑے علمبردار تھے۔سرسید کے نظام تعلیم میں شخصیت سازی اور تربیت کومرکزی حیثیت حاصل تھی۔کسی بھی ملک کا شاندار مستقبل ایک تربیت شدہ تعلیم یافتہ قوم سے منسلک ہے۔قومی تعمیر نو کے لیے آج ہمیں ایسے ہی تربیتی اور تعلیمی نظام کی ضرورت ہے جو نوجوانوں کو بہترین صفات سے مرصع کرے۔
طلباء کو مخاطب کرتے ہوئے وائس چانسلر نے کہا کہ آج کا دن آپ کے لیے ایک یادگاردن ہے اور آپ کی زندگی کے سفر میں ایک اہم سنگِ میل رکھتا ہے۔ اب آپ عملی زندگی کے دشوارگزار راستے پر قدم رکھنے جارہے ہیں جہاں آپ کو لاتعداد چیلنجز کا سامنا کرنا ہوگا جن سے نمٹنے کے لیے آپ کی قابلیت اور مہارت کام آئے گی اورتجربات سے آپ بہت کچھ سیکھیں گے۔
اس موقع پر سرسید یونیورسٹی کی گزشتہ سال کی کارکردگی پر مبنیرپورٹ پیش کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ آج، چھبیسویں کانو کیشن میں 1000 سے زائد ڈگریاں تفویض کی گئیں۔۔انھوں نے بتایا کہ 1994 میں دو شعبہ جات اور دو سو طلباء سے آغاز کرنے والی سرسید یونیورسٹی میں آج شعبہ جات میں تقریباََ 6,263 طلباء اور 391فیکلٹی ممبران کے ساتھ گریجویٹ، پوسٹ گریجویٹ اور پی ایچ ڈی پروگرام چل رہے ہیں۔استاد اور طالب علم کا تناسب16:1 ہے جو ایکریڈیٹیشن کونسل کے معیار کے مطابقہے۔سرسید یونیورسٹی سے اب تک 20,000 سے زائد ہنرمنداور قابل گریجویٹس فارغ التحصیل ہوچکے ہیں جو قومی اور بین الاقوام اداروں میں اپنی صلاحیتوں ک جوہر دکھا رہے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ 2016 سے اب تک سرسید یونیورسٹی مختلف اداروں کے ساتھ 88 مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کر چکی ہے جن کا مقصد علم اور مہارت کے تبادلے کے ذریعے علمی استعداد کر بڑھانا ہے۔سرسید یونیورسٹی نے جن ممالک کے ساتھ معاہدے کئے ہیں ان میں اسپین، چین، ترکی، انڈونیشیا، آزربائیجان اور شام کیشاملہے۔گزشتہ سال ممتاز قومی و بین الاقوامی ریسرچ جرنلز میں سرسید یونیورسٹی کی فیکلٹی کے تقریباََ 101 تحقیقی مقالے شائع ہوچکے ہیں۔
پروفیسر نے بتایا کہ سرسید یونیورسٹی نے اپنی شاندار خدمات کے اعتراف میں ’برانڈ آف دی ائیر‘ اور اور بہترین انجینئرنگ یونیورسٹی کے ایوارڈز حاصل کئے۔اسپین کی مالاگا یونیورسٹی اور بلغاریہ کی صوفیہ یونیورسٹی کے ساتھ بھی شراکت داری قائم کی ہے جو مختلف علمی اور ثقافتی شعبوں میں علم اور مہارت کے تبادلے کو فروغ دے گی۔سرسید یونیورسٹی میں تین نئے شعبہ جات متعارف کرائے گئے جن میں کلینکل سائیکالوجی، سائبر سیکوریٹی اور فوڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی شامل ہیں بشمول سول انجینئرنگ اور ریاضی کے دو پوسٹ گریجویٹ پروگرام۔نئے کیمپس میں ڈرپ اریگیشن کے لئے سولر پینل لگائے گئے ہیں اور مسجد کا کنواں اور مسجد کے سولر پینل دونوں پوری طرح فعال ہیں۔
اورک فائنل ایئر کے طلباء کے لیے شعبہ اورک نے پروجیکٹ کی نمائش کا اہتمام کیا اور 200 پروجیکٹس میں سے 100پروجیکٹس کا نمائش کے لیے انتخاب کیا اور اس میں 20 پروجیکٹس کو سیلیکون ویلی کے لیے منتخب کیا۔ایڈمنسٹریشن، لائبریری اور ریسرچ کے لیے گیارہ منزلہ بلاک کی تعمیر کا سنگِ بنیاد رکھ دیاگیا ہے۔یہ ایک بہت بڑا ترقیاتی کام ہے اور یہ نیا بلاک جدید تعلیم و تحقیقی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ڈایزئن کیا گیا ہے۔

رجسٹرار نے کانوکیشن کی تقریب کی نظامت کے فرائض ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا مقصد سرسیدیونیورسٹی کو عالمی پایہ کی ایک بہترین یونیورسٹی بنانا ہے۔ ہماری جامعہ طلباء کی تعلیم اور تربیت کو مرکزی حیثیت دیتی ہے اور انداز میں ان کو پروان چڑھاتی ہے کہ وہ معاشرے کی بہتری اور ترقی میں اپنا بھرپورکردار ادا کرسکیں۔اعلیٰ تعلیم معاشی ترقی اور خوشحالی کی ضامن ہے۔شخصیت سازی سے ایک بہترین معاشرہ تشکیل دیا جاسکتا ہے اوررویوں کی درستگی معاشرے میں مثبت رجحانات کو فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔
اس موقع پر سرسید یونیورسٹی کے ریسرچ جرنل اور نیوز لیٹر کے کنوینئر مختار احمد نقوی کو ان کی گرانقدر خدمات کے اعتراف میں طلائی تمغہ سے نوازا گیا۔
اول پوزیشن حاصل کرنے پر طلائی تمغہ حاصل کرنے والوں میں سیدہ مدیحہ عظیم (بائیومیڈیکل انجینئرنگ)، مسفا عارف (کمپیوٹر انجینئرنگ)، الماس (الیکٹرانک انجینئرنگ)، محمد ارحم (الیکٹریکل انجینئرنگ)، سمیع اللہ شاہ (کمپیوٹر سائنس)، عبداللہ(سافٹ ویئر انجینئرنگ)، محمد حذیفہ علی (سول انجینئرنگ)، نُور بانو منصور (آرکیٹکچر)، سید محمد جواد (انفارمیشن ٹیکنالوجی) اور آصف الرحمن(بی ایس سی الیکٹریکل انجینئرنگ ٹیکنالوجی)شامل ہیں۔دوئم پوزیشن پر چاندی کا تمغہ حاصل کرنے والوں میں اریبہ ولی (بائیومیڈیکل انجینئرنگ)، سارہ سلیم (کمپیوٹر انجینئرنگ)،جویریا (الیکٹرانک انجینئرنگ)، یاشرا جاوید (الیکٹریکل انجینئرنگ)، محمد احسن ملک (کمپیوٹر سائنس)، محمد حاشر الدین (سافٹ ویئر انجینئرنگ)، فہد محمود قادری (سول انجینئرنگ)، سارہ کلیم (آرکیٹکچر) اور نشمیا خان (انفارمیشن ٹیکنالوجی) شامل ہیں جبکہ سوئم پوزیشن پر کانسی کا تمغہ حاصل کرنے والوں میں ماہم ندیم (بائیومیڈیکل انجینئرنگ)، نوال ارشد (کمپیوٹر انجینئرنگ)، سید عمار الحق (الیکٹرانک انجینئرنگ)، اذہان احمد (الیکٹریکل انجینئرنگ)، حذیفہ (کمپیوٹر سائنس)،ماہم ریاض (سافٹ ویئر انجینئرنگ) اور محمد شاہزیب (سول انجینئرنگ) شامل ہیں۔
اختتامِ تقریب پر سرسیدیونیورسٹی کے طلباء و طالبات نے لائیو ترانہ علیگڑھ پیش کیا۔

عبدالحامد دکنی
ڈپٹی ڈائریکٹر انفارمیشن