تمباکو و شراب نوشی، ورزش سے جی ، چرانا غذائی نالی کے کینسر کا باعث بن سکتا ہے، ماہرینِ صحت

تمباکو و شراب نوشی، ورزش سے جی ، چرانا غذائی نالی کے کینسر کا باعث بن سکتا ہے، ماہرینِ صحت


غذائی نالی کے سرطان کی آگہی کے عنوان سے ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میں منعقدہ سیمینار میں ماہرین صحت نے کہا ہے کہ احتیاط علاج سے بہتر ہے اس لیے تمباکو نوشی اور شراب سے پرہیز، پھلوں اور سبزیوں سے بھرپور صحت مند غذا کا استعمال، ورزش اور معدے سے تیزابی ابال کا بروقت مناسب علاج کرا کے ایسوفیجل (غذائی نالی کے) کینسر سے بچا جا سکتا ہے کیونکہ دنیا میں اموات کی یہ چوتھی بڑی وجہ ہے۔ پاکستان میں ایک لاکھ افراد میں چار سے زائد (4.1) اس مرض میں مبتلا ہیں۔ پہلے یہ سرطان عمر رسیدہ افراد میں ہوتا تھا۔ اب پان چھالیہ گٹکا وغیرہ کے استعمال سے یہ سرطان نوجوانوں میں پھیل رہا ہے جبکہ بچوں میں بھی ایک کینسر پایا جاتا ہے

جس کے متعلق کتابوں میں میں تصور تک موجود نہیں ۔ ڈاؤ میڈیکل کالج کے معین آڈیٹوریم میں غذائی نالی کے کینسر کے متعلق آگہی سیشن کا انعقاد سول اسپتال کے سرجیکل یونٹ فائیو کے اشتراک سے کیا گیا تھا جس میں مہمان خصوصی وائس چانسلر ڈاؤ یونیورسٹی پروفیسر محمد سعید قریشی کے علاوہ ڈاکٹر سعد خالد نیاز، ڈاکٹر نجیب نعمت اللہ، ڈاکٹر عرفان داؤدی، پروفیسر ساجدہ قریشی نے خطاب کیا جبکہ پینل ڈسکشن کی موڈریٹر ڈاکٹر سمیہ خان تھیں۔ مہمان خصوصی پروفیسر محمد سعید قریشی نے اپنے خطاب میں

زور دیا کہ غذائی نالی کے کینسر کے متعلق آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے کیونکہ عام طور پر لوگوں کو علم نہیں ہوتا آخری مراحل پر جب بیماری کی تشخیص ہوتی ہے تو بچاؤ کے امکانات محدود ہوجاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے غذائی نالی کے کینسر کے بارے میں آگاہی پھیلانے کی

v

ضرورت ہے پروفیسر سعید قریشی نے کہا کہ سرکاری سطح پر غذائی نالی کے کینسر کے علاج پر سہولیات دی جائیں، انڈوسکوپی کے یونٹس قائم کیے جائیں، مرض کی ابتدائی مراحل میں تشخیص کے لیے


ضروری ہے کہ کہ تعلقہ اسپتالوں میں مختلف امراض کے ماہرین کی تعیناتی کی جائے اور بڑے پیمانے پر نوجوان ڈاکٹرز کی گیسٹرو اینٹرولوجی کے شعبے میں تربیت کی جائے۔ڈاکٹر سعد خالد نیاز نے پینل ڈسکشن میں کہا کہ ایسو فیجل کینسر کی ابتدائی مرحلے میں تشخیص


کے لیے فی الحال کوئی ایسا ٹیسٹ دستیاب نہیں ہے۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے طریقے استعمال کیے جا رہے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ دیگر علامات سے اس کی تشخیص پر توجہ دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ کہ عام طور پر لوگوں کے ذہن میں بائیوپسی کے بارے میں غلط تصورات ہیں تو کوئی انڈوسکوپی کے بارے میں اپنے خیالات رکھتا ہے، غلط تصورات اور خیالات ہیں علاج کی راہ میں رکاوٹیں ہیں۔ آگہی پھیلا کر لوگوں کو اس کینسر کی تباہی کا احساس دلانے کی ضرورت ہے. ڈاکٹر نجیب نعمت اللہ نے کہا کہ دنیا میں کینسر سے ہونے والی اموات کے 2020 کے اعداد و شمار کے مطابق غذائی نالی کے کینسر سے ہونے والی اموات تمام کینسر سے ہونے والی اموات کا 5.5 فیصد تھیں۔ اور اس کینسر کی شرح3.1 فیصد ہے۔ ڈاکٹر ساجدہ قریشی نے کہا کہ کھانا نگلنے میں دشواری، وزن میں غیر معمولی کمی، کھانے کا حلق میں پھنسنا یا دوبارہ واپس آنا اس مرض کی علامات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ابتدائی مراحل میں علاج ہو جاتا ہے اور مریض معمول کی زندگی کی طرف لوٹ آتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ کراچی میں مردوں میں غذائی نالی کے کینسر کی شرح 6.8 فیصد اور خواتین میں 5.3 فیصد ہے. ڈاؤ یونیورسٹی کے زیر انتظام سول اسپتال کراچی کا سرجیکل یونٹ پاکستان کا واحد مرکز ہے جہاں غذائی نالی کے کینسر


کا جدید ترین اور مفت علاج ہوتا ہے انہوں نے اس موقع پر تین مریضوں کو بھی شروع کے سامنے پیش کیا جنہوں نے بتایا کہ علاج کے نتیجے میں اب وہ معمول کی زندگی گزار رہے ہیں ہیں تقریب کے آخر میں میں غذائی نالی کے کینسر سے نجات کے لیے علامتی طور پر بار فضا میں چھوڑے گئے اور مہمانوں کو شیلڈز بھی پیش کی گئی۔

http://z-na.amazon-adsystem.com/widgets/onejs?MarketPlace=US