پاکستان کے تعمیراتی شعبے کا بال بال کرپشن میں ڈوبا ہوا ہے ۔ ٹاپ بلڈرز کے انکشافات پر مبنی چونکا دینے والی رپورٹ


اپنے
درینہ خواب نیا پاکستان کی تعبیر حاصل کرنے کے لیے پرعزم وزیراعظم عمران خان ملک بھر میں تعمیراتی شعبے کی مشکلات کے خاتمے اور انہیں سرمایہ کاری اور سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے ہر ممکن سہولتیں فراہم کرنے کے لئے کوشاں نظر آتے ہیں تعمیراتی شعبے میں حکومت ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کا خیر مقدم کر رہی ہے نیا پاکستان ہاؤسنگ منصوبے سے لے کر مختلف نجی ہاؤسنگ منصوبوں کی حوصلہ افزائی کے لئے نمایاں اقدامات کیے جا رہے ہیں جو قابل تحسین اور قابل تعریف ہیں تعمیراتی شعبے کی اہم شخصیات کو اس سلسلے میں ان بورڈ لے کر وزیر اعظم تسلسل کے ساتھ اجلاس منعقد کرتے ہیں اور حکومت کی پوری کوشش نظر آتی ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس سلسلے میں مل جل کر ٹھوس اور نتیجہ خیز اقدامات اٹھائیں جن کے ثمرات عوام تک پہنچیں۔ پاکستان کی تعمیراتی صنعت سے وابستہ شخصیات موجودہ حکومت کی کوششوں اور اقدامات کو سراہتی ہیں اور اس توقع کا اظہار کرتی ہیں کہ آنے والے دنوں میں ان پالیسیوں اور اقدامات کے مثبت اور انتہائی اچھے اثرات مرتب ہوں گے اور ہاؤسنگ کے شعبے کو فروغ ترقی حاصل ہوگی ۔

دوسری طرف زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ پاکستان میں آج بھی تعمیراتی شعبے کا بال بال کرپشن میں ڈوبا ہوا ہے ۔پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اور وزیراعظم عمران خان کا کرپشن کے خلاف جہاد بھی تعمیراتی شعبے میں ہونے والی کھلم کھلا کرپشن کا بال بھی بیکا نہیں کر سکا ۔تعمیراتی شعبے میں ہونے والی کرپشن اس قدر چینلایز ہو چکی ہے کہ اسے اب سسٹم کا حصہ مان لیا گیا ہے اور کوئی بھی بلڈر کس سسٹم سے خود کو جدا کر کے اپنے لیے مزید مسائل پیدا نہیں کرنا چاہتا ۔سندھ بالخصوص کراچی اس حوالے سے سب سے نمایاں نظر آتا ہے ۔کراچی میں تعمیراتی شعبے میں بڑے بڑے پروجیکٹ پر کام کرنے والے بلڈرز ڈویلپر اور نجی کمپنیاں اس حقیقت کا اعتراف کرتی ہیں کہ یہاں پر زمین کے حصول سے لے کر تعمیراتی منصوبے کو شروع کرنے تک اور پھر اس کی تکمیل کے مراحل طے کرنے کے دوران کرپشن کا ایک بازار گرم ہے اس کے بارے میں تمام ادارے ایجنسیاں شخصیات سیاسی جماعتیں میڈیا عدالتیں ہفتہ کے سرکاری افسران اور عوام بھی پوری طرح باخبر ہیں اور کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح یہاں پر بڑے پیمانے پر کرپشن ہو رہی ہے تعمیراتی شعبے سے وابستہ شخصیات اعتراف کرتی ہیں کہ وہ اپنے منصوبوں کی تکمیل کے لیے سرکاری اداروں کے اعلی افسران سیاسی اور غیر سیاسی طاقتور اور بااثر شخصیات کے ساتھ ایسے رابطے استوار کرنے پر مجبور ہیں جنہیں رشوت کا کھیل کہا جاتا ہے اگر کوئی بلڈر اس کھیل کا حصہ نہ بنے تو پھر اسے کتنے چکر لگائے جاتے ہیں اس کی فائلوں میں اتنے اعتراض اٹھائے جاتے ہیں اس کے لئے اتنے مسائل پیدا کیے جاتے ہیں کہ وہ اپنے کانوں کو ہاتھ لگا کر تعمیراتی شعبے کو خیرباد کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے ایسے مشہور اور ٹاپ بلڈرز اور ڈویلپرز جو کراچی اور ملک کے دیگر شہروں میں کامیابی کے ساتھ بڑے بڑے میگا ہاؤسنگ پروجیکٹس اور کمرشل پلازوں پر کام کرنے کا زبردست تجربہ اور شہرت اور مقام رکھتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ تعمیراتی شعبے میں کرپشن کا راج ہمیشہ رہا ہے کسی دور میں ریٹ کم ہو جاتا ہے اور کسی دور میں ریٹ زیادہ ۔آج نیا پاکستان اور نیا مدینہ ریاست کا نعرہ ضرور لگ رہا ہے لیکن تعمیراتی شعبے کی کرپشن کر ریٹ اپنے عروج پر ہے ۔
جیوے پاکستان ڈاٹ کام سے بات چیت کرتے ہوئے مشہور بلڈرز اور ڈویلپرز نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ آج شہر میں بڑے بڑے منصوبے سو کروڑ روپے سے شروع ہوتے ہیں ایک ارب روپے سے زائد مالیت کے منصوبوں میں ہاتھ ڈالنا اب عام سی بات ہے گراؤنڈ پلس 15 منزلہ منصوبے یا اس سے بھی زیادہ ملٹی سٹوری منصوبوں پر بڑے پیمانے پر کام ہو رہا ہے اور ایسے منصوبوں میں کرپشن کا ریٹ پندرہ سے بیس کروڑ روپے تک پہنچ چکا ہے ۔کراچی جیسے شہر میں زمین کا حصول ہی پچاس سے 55 کروڑ روپے میں ہوتا ہے ۔مختلف اداروں کے این او سی اور فائلوں کو کلیئر کرانے پر مجموعی طور پر 15 سے 20 کروڑ روپے کی کرپشن کا اندازہ ہے اس میں مکمل منظوری شامل ہے بورڈ آف ریونیو سے لے کر سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی تک ایسے منصوبوں کے ڈیزائن ڈرائنگ کی منظوری سے لیکر دیگر تمام قوانین کی پاسداری یقینی بنانے اور تمام این او سی اور کلیئرنس حاصل کرنے پر ہر دفتر میں مرحلہ وار کرپشن ہوتی ہے کھلے عام رشوت مانگی جاتی ہے وصول کی جاتی ہے ہمارے بلڈرز بھی دونوں ہاتھوں سے رشوت حاصل کرنے والے راشئ افسران اور اہم شخصیات پر اپنی دولت لوٹ آتے ہیں اور بدلے میں اپنا منصوبہ تیار کرنے کی منظوری کے سرٹیفکیٹ حاصل کرتے ہیں اور پھر عوام سے بکنگ شروع کرتے ہیں بلڈرز اپنے منصوبوں میں فلیٹوں کی دکانوں بنگلو فارم ہاؤس کی فروخت کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھاتے ہی مارکیٹنگ کمپنیوں کی خدمات حاصل کرتے ہیں میڈیا میں اشتہار دیے جاتے ہیں نامور شخصیات کی خدمات حاصل کرکے ان کے ذریعے اپنی پروڈکٹ کو مشہور اور معتبر بنایا جاتا ہے خصوصی ایونٹ منعقد کیے جاتے ہیں کوئی بھی منصوبہ 3 سال تک کے عرصے کے لیے ڈیزائن کیا جاتا ہے اس دوران سیمنٹ سریا کنسٹرکشن لاگت میں اضافہ ٹیکسوں کی بھرمار پولیس اور مختلف افسران کی تبدیلی ۔حکومتی شخصیات کا تعاون اور مشکلات ۔نام نہاد این جی اوز اور عدالتی مقدمہ بازی اور مقامی ڈمی اخبارات کے ذریعے بلیک میلنگ سمیت ہمارے بلڈرز اور ڈویلپرز کو متعدد مسائل اور چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کے علاوہ بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کے مسائل اور خطرات بھی سر پر منڈلاتے رہتے ہیں ۔ایسے متعدد واقعات رونما ہو چکے ہیں اس لیے ہر بلڈر سوچ سمجھ کر قدم اٹھاتا ہے ۔
تعمیراتی شعبے میں سرمایہ کاری کرنے والی شخصیات کا ماننا ہے کہ پاکستان میں آج بھی تعمیراتی شعبے میں سرمایہ کاری کرنا سب سے منافع بخش کاروبار ہے اس میں ریٹن بہت تیز عمدہ اور ہائی ہے لیکن یہاں پر کامیابی کی ضمانت چاہیے اگر آپ کے ساتھ کوئی بڑا بزنس ٹائیکون جڑ جاتا ہے یا آپ کو کوئی گاڈفادر مل جاتا ہے تو پھر آپ کے وارے نیارے ہیں اگر آپ صرف اپنی شہرت اور اپنی دولت کے بل بوتے پر آگے بڑھانا چاہتے ہیں تو پھر آپ کے لیے آسانیاں نہیں ہوگی بلکہ قدم قدم پر مشکلات اور مسائل کا سامنا کریں گے اس لیے سرمایہ کار اپنے لیے مناسب محفوظ راستہ تلاش کرتے ہیں کسی سیاسی گاڈ فادر یا طاقتور بزنس ٹائیکون یا اہم طاقتور اور بااثر شخصیات کا سہارا ڈھونڈتے ہیں اور ان کے ذریعے کرپشن کے سسٹم میں داخل ہوکر کروڑوں روپے کی کرپشن کی نذر کر کے اربوں روپے کے پروجیکٹس کو محفوظ بناتے ہیں اور پھر اپنی جیبیں بھرنے کے قابل ہو جاتے ہیں ۔
کراچی کے تعمیراتی شعبے میں نمایاں مقام حاصل کرنے والی شخصیات کا کہنا ہے کہ آپ یوں آسانی سے بات سمجھ سکتے ہیں کہ اگر کوئی بلڈر اپنے منصوبے کیلئے سو کروڑ روپے کا تخمینہ لگا رہا ہے تو تین سال میں منصوبہ مکمل ہونے کی صورت میں اس کا منافع بیس کروڑ روپے یا اس سے زیادہ ہوتا ہے 80 کروڑ روپے تو زمین کے حصول اور منصوبوں کی کلیئرنس کے کرپشن کے سسٹم کی نذر ہو جاتا ہے ۔
(جاری ہے )
رپورٹ سالک مجید ۔