یوسف رضا گیلانی اسلام آباد سے سینیٹ کی نشست جیت گئے، عبدالحفیظ شیخ کو شکست

اکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے مشترکہ امیدوار یوسف رضا گیلانی نے جنرل نشست پر کامیابی حاصل کی، جبکہ حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے امیدوار ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
پی ٹی آئی کی فوزیہ ارشد نے خواتین کی نشست پر مسلم لیگ (ن) کی امیدوار فرزانہ کوثر کو شکست دی۔
ریٹرننگ افسر نے اعلان کیا کہ قومی اسمبلی میں 341 میں سے 340 ووٹ ڈالے گئے، یوسف رضا گیلانی نے 169 جبکہ عبدالحفیظ شیخ نے 164 ووٹ حاصل کیے، پی ٹی آئی کی فوزیہ ارشد نے 174 جبکہ فرزانہ کوثر نے 161 ووٹ لیے، جنرل نشست پر 7 جبکہ خواتین کی نشست پر 5 ووٹ مسترد ہوئے۔

سندھ
پیپلز پارٹی کے سلیم مانڈوی والا نے جنرل نشست پر کامیابی حاصل کی۔
پیپلز پارٹی کی شیری رحمٰن جنرل نشست پر کامیاب ہوئیں۔
پیپلز پارٹی کے تاج حیدر جنرل نشست پر سینیٹر منتخب ہوئے۔
ایم کیو ایم کے فیصل سبزواری جنرل نشست پر کامیاب قرار پائے۔
پیپلز پارٹی کے جام مہتب ڈہر نے جنرل نشست پر کامیابی سمیٹی۔
پی ٹی آئی کے فیصل واڈا نے جنرل نشست پر کامیابی حاصل کی۔
پیپلز پارٹی کے شہادت اعوان جنرل نشست پر کامیاب ہوئے۔
پیپلز پارٹی کی پلوشہ خان خواتین کی نشست پر کامیاب قرار پائیں۔
ایم کیو ایم کی خالدہ اطیب خواتین کی نشست پر کامیاب قرار پائیں۔
پیپلز پارٹی کے فاروق ایچ نائیک ٹیکنوکریٹ کی نشست پر کامیاب ہوئے۔
پی ٹی آئی کے سیف اللہ ابڑو ٹیکنوکریٹ کی نشست پر سینیٹر منتخب ہوئے۔
بلوچستان
آزاد امیدوار عبدالقادر جنرل نشست پر کامیاب ہوئے۔
جے یو آئی کے امیدوار مولانا عبدالغفور حیدری جنرل نشست پر کامیاب قرار پائے۔
بی این پی (مینگل) کے محمد قاسم نے جنرل نشست پر کامیابی حاصل کی۔
عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار ارباب عمر فاروق جنرل نشست پر کامیاب ہوئے۔
بی اے پی کے منظور احمد کاکڑ جنرل نشست پر کامیاب قرار پائے۔
بی اے پی کے سرفراز احمد بگٹی نے جنرل نشست پر کامیابی حاصل کی۔
بی اے پی کے پرنس احمد عمر احمد زئی جنرل نشست پر کامیاب قرار پائے۔
آزاد امیدوار نسیمہ احسان خواتین کی نشست پر کامیاب ہوئیں۔
بی اے پی کی ثمینہ ممتاز خواتین کی نشست جیتنے میں کامیاب رہیں۔
بی اے پی کے سعید ہاشمی ٹیکنوکریٹ کی نشست پر سینیٹر منتخب ہوئے۔
جے یو آئی کے کامران مرتضیٰ نے ٹیکنوکریٹ کی نشست پر کامیابی حاصل کی۔
بی اے پی کے دِنیش کمار اقلیتی نشست پر کامیاب قرار پائے۔
خیبر پختونخوا
پی ٹی آئی کے امیدوار شبلی فراز جنرل نشست پر کامیاب ہوئے۔
اے این پی کے ہدایت اللہ جنرل نشست پر کامیاب قرار پائے۔
پی ٹی آئی کے لیاقت خان تراکئی جنرل نشست پر سینیٹر منتخب ہوئے۔
پی ٹی آئی کی ثانیہ نشتر نے خواتین کی نشست پر کامیابی حاصل کی۔
پی ٹی آئی کی فلک ناز خواتین کی نشست پر کامیاب قرار پائیں۔
پی ٹی آئی کے دوست محمد محسود ٹیکنوکریٹ کی نشست پر کامیاب ہوئے۔
پی ٹی آئی کے محمد ہمایوں خان نے ٹیکنوکریٹ کی نشست پر کامیابی حاصل کی۔
پی ٹی آئی کے گردیپ سنگھ اقلیتی نشست پر سینیٹر منتخب ہوئے۔
ایوان بالا کی ان 37 نشستوں پر آج ہونے والے انتخابات کے لیے سندھ، خیبرپختونخوا، بلوچستان اور اسلام آباد سے مجموعی طور پر 78 امیدوار میدان میں ہیں جبکہ پنجاب سے تمام امیدوار گزشتہ ماہ دیگر امیدواروں کی جانب سے کاغذات نامزدگی واپس لینے یا نااہل ہونے کے بعد بلامقابلہ منتخب ہوگئے تھے۔

ووٹنگ
اسلام آباد سے جنرل نشست پر حکومت اور اپوزیشن کے امیدواروں کے درمیان گفتگو بھی ہوئی—تصویر: ڈان نیوز
الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی نگرانی میں ووٹنگ کا عمل صبح 9 بجے شروع ہوا اور بروقت پولنگ کے آغاز کو یقینی بنانے کے لیے ای سی پی کا عملہ صبح سویرے ہی پارلیمنٹ ہاؤس پہنچ گیا، پولنگ کا عمل بغیر کسی وقفے کے 5 بجے تک جاری رہا۔

وزیراعظم عمران خان اپنا ووٹ کاسٹ کرتے ہوئے—تصویر: ڈان نیوز
سینیٹ انتخابات کے لیے پولنگ کا وقت شروع ہوتے ہی اسلام آباد کی نشست کے لیے سب سے پہلا ووٹ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے شفیق آرائیں نے کاسٹ کیا جبکہ ان کے بعد فیصل واڈا نے اپنا ووٹ ڈالا۔

بعد ازاں وزیراعظم عمران خان بھی ایوانِ زیریں میں اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے پہنچے اور ووٹ ڈالا، اس موقع پر حکومتی اراکین نے نعرے بھی لگائے۔

وزیراعظم کے علاوہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف، سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری، ان کے صاحبزادے اور چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری نے بھی اپنا ووٹ کاسٹ کیے۔

سابق صدر آصف علی زرداری و دیگر اپوزیشن رہنما قومی اسمبلی میں موجود تھے — تصویر: ڈان نیوز
ادھر الیکشن کے دوران کسی امیدوار یا ووٹر کے پولنگ بوتھ کے اندر موبائل فون لے جانے پر پابندی عائد تھی اور اس بارے میں سیکیورٹی عملے کا کہنا تھا کہ پولنگ بوتھ میں موبائل لے جانے کی اجازت نہیں ہے۔

سیکیورٹی عملے کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے موبائل فون کو پولنگ بوتھ میں لے جانے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔

نشستوں کی تعداد
پارلیمنٹ کا ایوان بالا اب تک 104 قانون سازوں کا ایوان تھا اور ہر رکن استعفیٰ، نااہلی یا انتہائی غیرمعمولی حالات کو چھوڑ کر 6 سال کی مدت پوری کرتا ہے، یہ تمام اراکین ایک ہی وقت میں منتخب نہیں ہوتے بلکہ ان میں سے نصف ایک مرتبہ جبکہ باقی کے نصف 3 سال بعد ہوتے ہیں۔

سال 2021 میں 52 سینیٹرز (جو 2015 میں منتخب ہوئے تھے) وہ ریٹائر ہورہے ہیں جبکہ باقی 52 جو 2018 میں منتخب ہوئے تھے وہ 2024 میں ریٹائر ہوں گے تاہم اس مرتبہ سابق وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) کے صوبہ خیبرپختونخوا سے انضمام کے بعد انتخابات صرف 48 نشتوں پر ہورہے ہیں۔

لہٰذا اس طرح سینیٹ اب 100 اراکین پر مشتمل ہوگا، تمام صوبوں سے 23، 23 اور اسلام آباد سے 4 سینیٹرز ہوں گے جبکہ فاٹا کے باقی 4 سینیٹرز 2024 میں ریٹائر ہوجائیں گے۔

صوبوں کی ان 23 نشستوں کو اگر تقسیم کریں تو ان میں 14 جنرل نشسستیں، 4 ٹیکنوکریٹس یا علما، 4 خواتین کی مخصوص نشستیں اور ایک اقلیتی رکن کی نشست ہے۔

اراکین اسمبلی ووٹنگ میں حصہ لے رہے ہیں—تصویر: ڈان نیوز
تاہم اس مرتبہ پنجاب کی صورتحال کچھ ایسی ہے کہ وہاں تمام بڑی سیاسی جماعتوں پی ٹی آئی، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی جانب سے کچھ امیدواروں کو واپس بٹھانے پر رضامندی کے بعد وہاں سے تمام سینیٹر بلامقابلہ منتخب ہوگئے۔

ان 11 سینیٹرز میں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کے 5، 5 ہیں جبکہ ایک پی ٹی آئی کی اتحادی مسلم لیگ (ق) کا ہے۔

اس کے علاوہ اسلام آباد کی 2، سندھ سے 11 جبکہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے 12، 12 سینیٹرز کی نشستوں پر مقابلہ ہورہا ہے۔

اس مرتبہ پولنگ میں چاروں صوبوں سے عام (جنرل) نشستوں پر 7 اراکین، 2 نشستوں پر خواتین، 2 نشستوں پر ٹیکنوکریٹس کو چُنا جائے گا جبکہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے اقلیتی نشست پر ایک، ایک رکن منتخب ہوگا۔

الیکشن کا عمل
سینیٹ کا انتخاب ’ترجیحی رائے دہی‘ کے ذریعے ایک قابل منتقل (سنگل ٹرانسفرایبل) ووٹ کی بنیاد پر خفیہ رائے دہی کے ذریعے ہوتا ہے۔

اس میں چاروں صوبائی اسمبلیاں متعلقہ اسمبلیوں کے لیے الیکٹورک کالج ہوتی ہیں جبکہ اسلام آباد کے سینیٹرز کے لیے قومی اسمبلی الیکٹورل کالج ہوتی ہے۔

وفاق/ صوبائی اسمبلیز
وفاقی (سینیٹر کے انتخاب کیلئے 171 ووٹ*)
اس وقت قومی اسمبلی میں 342 نشستوں میں سے 341 پر اراکین موجود ہیں، جن میں پی ٹی آئی کے پاس 157 نشستیں ہیں، مسلم لیگ (ن) 83، پیپلز پارٹی 55، ایم ایم اے 15، ایم کیو ایم پاکستان 7، بی اے پی 5، مسلم لیگ (ق) 4، بی این پی 4، جی ڈی اے 3، اے ایم ایل ایک، اے این پی ایک، جے ڈبلیو پی ایک رکن رکھتی ہیں جبکہ 4 آزاد امیدوار بھی ہیں۔

پنجاب (سینیٹر کے انتخاب کیلئے 47 ووٹ*)
پنجاب اسمبلی میں مجموعی نشستیں 371 ہیں تاہم اس وقت 368 پر اراکین موجود ہیں، جن میں سے 181 کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے، اس کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے 165، مسلم لیگ (ق) کے 10، پیپلز پارٹی کے 7، آزاد امیدوار 4 اور پاکستان راہ حق پارٹی کا ایک امیدوار ہے۔

سندھ (سینیٹر کے انتخاب کیلئے 22 ووٹ*)
سندھ میں اسمبلی کی مجموعی نشستیں 168 ہیں، جن میں 99 پر اس وقت پیپلزپارٹی کے اراکین ہیں جبکہ 21 پر متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) کے اراکین ہیں، مزید یہ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے پاس 14، ٹی ایل پی کے پاس 3 اور ایم ایم اے کے پاس ایک نشست ہے۔

خیبرپختونخوا (سینیٹر کے انتخاب کیلئے 19 ووٹ*)
خیبرپختونخوا میں فاٹا کے انضمام کے بعد مجموعی نشستیں 145 ہیں، ان میں سے 94 نشستوں پر پی ٹی آئی کے اراکین ہے، اس کے علاوہ 14 اراکین ایم ایم اے، 12 اے این پی، 7 مسلم لیگ (ن)، 5 پیپلزپارٹی، 4 بی اے پی، 3 جے یو آئی (ف)، مسلم لیگ (ق) اور جماعت اسلامی کا ایک ایک جبکہ 4 آزاد امیدوار ہیں۔

بلوچستان (سینیٹر کے انتخاب کیلئے 9 ووٹ*)
بلوچستان میں اسمبلی کی نشستوں کی مجموعی تعداد 65 ہے جس میں سے 64 پر اس وقت اراکین ہیں، ان 64 میں سے 24 بی اے پی کے اراکین ہیں جبکہ 10 کا تعلق بی این پی، 10 کا ایم ایم اے، 7 کا پی ٹی آئی، 4 کا اے این پی، 3 کا بی این پی اے، 2 کا ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے، مزید یہ کہ مسلم لیگ (ن)، پی کے میپ اور جمہوری وطن پارٹی کا ایک، ایک رکن ہے جبکہ ایک آزاد امیدوار بھی ہے۔

اہم امیدوار
اس سینیٹ انتخابات میں وفاقی دارالحکومت اور تینوں صوبوں سے 78 امیدوار میدان میں ہیں۔

جن میں سے 14 امیدوار پی ٹی آئی، 13 پیپلزپارٹی، 2 مسلم لیگ (ن)، 2 ایم کیو ایم پاکستان، 11 بی اے پی اور ایک ٹی ایل پی سے ہے، مزید یہ کہ 3 امیدوار آزاد کی حیثیت سے لڑ رہے ہیں۔

اسلام آباد سے سینیٹ کی نشست پر وفاقی وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ اور سابق وزیراعظم جو اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے مشترکہ امیدوار ہیں، ان میں کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔

پنجاب سے ایوان بالا کے لیے جو امیدوار منتخب ہوئے ہیں ان میں پی ٹی آئی کے سیف اللہ سرور خان نیازی، عون عباس، اعجاز احمد چوہدری اور سید علی ظفر شامل ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) کے پروفیسر ساجد میر اور عرفان الصدیقی اور مسلم لیگ (ق) کے کامل علی آغا شامل ہیں۔

سندھ سے اہم امیدواروں میں پی ٹی آئی اے فیصل واڈا شامل ہیں جو (جنرل نشست کے لیے پارٹی کے واحد امیدوار ہیں)، اس کے علاوہ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا، شیری رحمٰن، فاروق ایچ نائیک اور تاج حیدر کا تعلق پیپلزپارٹی سے ہے جبکہ جے ٹی اے سے پیر صدرالدین شاہ اور ایم کیو ایم پاکستان سے فیصل سبزواری ہیں۔

خیبرپختونخوا سے انتخاب میں حصہ لینے والے اہم سیاست دانوں میں وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز، وزیراعظم کی معاون خصوصی ثانیہ نشتر اور لیاقت خان ترکئی ہیں جبکہ جمعیت علمائے اسلام (ف) سے مولانا عطاالرحمٰن، طارق خٹک اور رنجیت سنگھ شامل ہیں، مزید یہ کہ بی اے پی سے تاج محمد آفریدی اور پی پی پی سے فرحت اللہ بابر ہیں۔

بلوچستان سے پی ٹی آئی کا کوئی امیدوار نہیں جبکہ دیگر جماعتوں میں بلوچستان عوامی پارٹی کے بانی سعید احمد ہاشمی اور بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے ساجد ترین اہم امیدواروں میں شامل ہیں۔

انتخابی تنازع
واضح رہے کہ ایوان بالا کے انتخابات کے دوران ہارس ٹریڈنگ کے الزامات لگتے آئے ہیں اور ابھی ان کا سلسلہ جاری ہے تاہم اس سال انتخابات پر تنازع اس کے طریقہ کار کو لے کر سامنے آیا کیونکہ حکومت چاہتی تھی کہ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے ہوں جبکہ اپوزیشن نے اس خیال کو مسترد کردیا تھا۔

اسی سلسلے میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف نے سپریم کورٹ میں ایک صدارتی ریفرنس دائر کیا جس میں یہ رائے مانگی گئی کہ آیا انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے ہوسکتے ہیں یا نہیں۔

یہی نہیں بلکہ اسی سلسلے میں ایک آرڈیننس بھی جاری کردیا گیا تھا، مزید یہ کہ قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم کو بھی پیش کیا گیا۔

تاہم یکم مارچ کو سپریم کورٹ نے اعلان کیا کہ سینیٹ انتخابات آئین کے آرٹیکل 226 کے تحت خفیہ رائے دہی کے ذریعے ہوں گے، اسی کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کہا کہ اس سال کے انتخابات ‘آئین و قانون میں دیے گئے طریقہ کار کے مطابق ماضی کی طرز پر ہی منعقد کیے جائیں گے’۔

آن لائن شکایتیں
عوام کو الیکشن کمیشن کے پاس اس کی سرکاری ویب سائٹ www.ecp.gov.pk کے ذریعے شکایات درج کرانے کے لیے کمپلین مینجمنٹ سسٹم بنایا گیا ہے۔

اس کے علاوہ الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 167 کے تحت سینیٹ انتخابات میں کرپٹ پریکٹیسز پر نظر رکھنے کے لیے الیکشن کمیشن سیکریٹریٹ میں خصوصی نگرانی سیل بنایا گیا ہے۔

یہ سیل چوبیس گھنٹے کام کر رہا ہے تاکہ عوام سینیٹ انتخابات میں کرپٹ پریکٹیسز کے حوالے سے اپنی شکایت الیکشن کمیشن کو بھیج سکیں۔

چیف الیکشن کمشنر خود بھی بھی سینیٹ انتخابات کی نگرانی کریں گے، عوام براہ انہیں بھی ای میل ایڈریس cec@ecp.gov.pk پر اپنی شکایات بھیج سکتے ہیں۔

منگل کو چیف الیکشن کمشنر نے چیئرمین نادرا، چیئرمین پی ٹی اے اور ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کا اجلاس طلب کیا تھا اور الیکٹورل کرپشن سے متعلق ان کی تجاویز طلب کی تھیں۔

انہیں یہ بھی ہدایت کی گئی تھی اگر ان کے علم میں کوئی کرپشن آئے تو وہ فوری طور پر الیکشن کمیشن کو مطلع کریں تاکہ فوری طور پر قانونی کارروائی کی جاسکے۔

سینیٹ انتخابات کو شفاف بنانے کے لیے الیکشن کمیشن نے قواعد و ضوابط لاگو کرنے، امیدواروں سے بیان حلفی اور ڈیجیٹل فیسیلیٹیشن سینٹر قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

https://www.dawnnews.tv/news/1155107/
———————