یونیورسٹی میں خاتون لیکچرار و ارڈن گرلز ہاسٹل کو ہراساں کئے جانے کے انکشاف


یونیورسٹی میں خاتون لیکچرار و ارڈن گرلز ہاسٹل کو ہراساں کئے جانے کے انکشاف

24 مارچ ، 2024FacebookTwitterWhatsapp
حیدرآباد ( بیورو رپورٹ) اللہ بخش یونیورسٹی آرٹ اینڈڈیزائین جامشورو میں خاتون لیکچرار و ارڈن گرلز ہاسٹل کو ہراساں کئے جانے کے انکشاف پر یونیورسٹی انتظامیہ نے یونیورسٹی کے ڈپٹی ڈائریکٹرفنانس آصف علی شر کو معطل کردیا ‘وائس چانسلر اللہ بخش یونیورسٹی اربیلا بھٹو نے کہاہے کہ شکایت کی تحقیقات جاری ہے۔ انچارج گرلز ریسکیو سینٹر جہانگیر انصاری نے کہاہے کہ معاملہ کی تحقیقات جاری ہیں جلد جامع رپورٹ پیش کریںگے ۔ تفصیلات کے مطابق اللہ بخش یونیورسٹی آرٹ اینڈڈیزائین جامشورو کی خاتون لیکچرار وگرلز ہاسٹل کی وارڈن راحیلہ اعوان نے گذشتہ روز ڈپٹی ڈائریکٹر فنانس کی جانب سے انہیں اور طالبات کو ہراساں کرنے کے حوالے سے سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے قائم کردہ گرلز ریسکیوسینٹر میں درخواست جمع کرائی تھی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی درخواست دی تھی۔ مقامی میڈیا پر خاتون ٹیچر کو ہراساں کرنے کے واقعہ کی خبروں کی اشاعت کے بعد آصف علی شر جو کہ انچارج ڈائریکٹر فنانس ہیں ۔انہوں نے ہراساں کرنے کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہاتھا کہ وہ ایساسوچ بھی نہیں سکتے۔
================

داؤد یونیورسٹی سینیٹ، تیسری سہ ماہی کی بجٹ تجاویز بروقت منظور
24 مارچ ، 2024FacebookTwitterWhatsapp
داؤد یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کی سینیٹ کا چھٹا اجلاس گزشتہ روز جامعہ کے سیمینار ہال میں منعقد کیا گیا جس کی صدارت جامعہ کی وائس چانسلر انجینئر پروفیسر ڈاکٹر ثمرین حسین (تمغہ امتیاز) نے کی ۔ اجلاس کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے کیا گیا۔ وائس چانسلر انجینئر پروفیسر ڈاکٹر ثمرین حسین نے سینیٹ کے ارکان کی آمد کا خیر مقدم کرتے ہوئے انہیں یونیورسٹی کے ترقیاتی کاموں کے بارے میں بتایا۔اجلاس میں پانچویں سینیٹ اجلاس کے منٹس کی توثیق کی گئی جبکہ منظور کی گئی سفارشات کی تکمیلی رپورٹ بھی پیش کی گئی۔ سینیٹ اجلاس میں مالی سال 2023ء تا 2024ء کیلئے تیسری سہ ماہی بجٹ تجاویز بروقت منظور کرلی گئیں۔ اجلاس میں کراچی شہر میں داؤد یونیورسٹی کی نئی سائٹ کی تجویز بھی منظور کی گئی ۔ داؤد یونیورسٹی انڈومنٹ فنڈ ٹرسٹ میں سینیٹ رکنیت کیلئے معروف صنعتکار شاہد شفیق کے نام کی منظوری دی گئی جبکہ جامعہ کی فنانس اینڈ پلاننگ کمیٹی کیلئے ڈاکٹر فرحان عیسیٰ کی رکنیت کی منظوری بھی دی گئی ۔ سینیٹ اجلاس میں سیکرٹری کالجز کے نامزد فقیر محمد لاکھو، نامزد ایچ ای سی اسلام آبادکے نامزد پروفیسر ڈاکٹر بھوانی شنکر چوہدری، سیکرٹری، یونیورسٹیز اینڈ بورڈز نور احمد سمو، نمائندہ ایچ ای سی سندھ کے نمائندے اور وائس چانسلر این ای ڈی پروفیسر ڈاکٹر سروش حشمت لودھی، سینیٹر تاج حیدر، مفتی فیروز الدین ہزاروی، سابق ایم پی اے نصرت سلطانہ، چیئرمین انٹر بورڈ پروفیسر ڈاکٹر نسیم احمد میمن، ممتاز صنعتکار اقبال قریشی، پروفیسر ڈاکٹر فرحان عیسیٰ عبداللہ، شاہد شفیق، ممتاز ماہر تعلیم ہما بخاری، نامور ریسرچ اسکالرپروفیسر ڈاکٹر اے کیو مغل، ممتاز انجینئر اور ماہر سید راغب عباس شاہ، پروفیسر ڈاکٹر فہد عظیم، جامعہ داؤد کے نمائندوں پرو وائس چانسلر ڈاکٹر عبدالوحید بھٹو ، رجسٹرار ڈاکٹر سید آصف علی شاہ ، ڈائریکٹر فنانس شیخ شبیر ، تمام فیکلٹی کے ڈینز ، تمام شعبہ جات کے چیئرپرسنز ، فیکلٹی کے سینیٹ ارکان نے شرکت کی۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وائس چانسلر انجینئر پروفیسر ڈاکٹر ثمرین حسین نے کہا کہ تقریباً 13اہ قبل جب داؤد انجینئرنگ یونیورسٹی میں بطور وائس چانسلر عہدہ سنبھالا تو مالی خسارہ بہت زیادہ تھا تاہم بہترمالی حکمت عملی کے بدولت خسارہ کم ہوتا جارہا ہے ۔ اس موقع پر سینیٹ کے تمام ارکان نے وائس چانسلر انجینئر پروفیسر ڈاکٹر ثمرین کےاقدامات کو سراہا۔

====================
جامعہ اردو میں ایچ ای سی فنڈنگ سے متعلق سیشن
24 مارچ ، 2024FacebookTwitterWhatsapp
کراچی (اسٹاف رپورٹر) وفاقی اردو یونیورسٹی شعبہ تعلیمات عبد الحق کیمپس کے زیر اہتمام سیشن کا اہتمام کیا گیا ۔ایک روزہ سیشن کا مقصد ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) سے ملنے والی مختلف نوعیت کی فنڈنگ کی معلومات فراہم کرنا تھا۔سیشن سے ڈاکٹر کمال حیدر،ڈاکٹر شاہد اقبال اور نیشنل ریسرچ فنڈنگ پروگرام برائے جامعات کے ڈاکٹر خرم خان علوی نے خطاب کیا۔ ڈاکٹر کمال حیدر نے کہا کہ مزید سیشن کرائے جائینگے ۔ ڈاکٹر شاہد اقبال نے کہا کہ ڈاکٹر کمال حیدر کی سرپرستی میں نئی نئی جدتوں کی ترویج کے لئے ہم سب کوشاں ہیں۔پروگرام میں شعبہ بین الاقوامی تعلقات ، شعبہ ابلاغ عامہ ، شعبہ اسپیشل ایجوکیشن ، شعبہ تعلیم اساتذہ گلشن کیمپس اور عبد الحق کیمپس،کراچی یونیورسٹی اور مختلف ڈپارٹمنٹ کے اساتذہ اور طلبہ نے شرکت کی۔
========================

کپتانی چپل کیلئےمشہورپشاور کے چپل ساز چاچا نور دین کو صدارتی ایوارڈسےنوازاگیا
24 مارچ ، 2024FacebookTwitterWhatsapp
اسلام آباد (نامہ نگار خصوصی) 23 مارچ کے دن پاکستان کی معروف شخصیات کو ایوان صدر اور صوبائی گورنر ہاؤسز میں اعزازات سے نوازا گیا ہے ان افراد میں پشاوری چپل بنانے والے چاچا نور دین بھی شامل ہیں جنہیں صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا تاہم انکا صدارتی ایوارڈ چپل بنانے کے ہنر تک ہی محدود ہے پشاور سے تعلق رکھنے والے چاچا نور دین اپنی کپتان چپل کی بدولت سب کی توجہ خوب سمیٹتے ہیں، انہوں کچھ عرصہ قبل ایک اور چپل بنائی ہے جس کا نام انہوں نےقیدی 804
رکھا ہے۔

=======================

پاکستان اسٹیل کیڈٹ کالج میں یوم پاکستان کی پروقار تقریب، طلباء کی پرجوش تقاریر
24 مارچ ، 2024FacebookTwitterWhatsapp
کراچی (نیوز ڈیسک)پاکستان اسٹیل کیڈٹ کالج میں یوم پاکستان کی پروقار تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں طلباء نے پرجوش تقاریر کیں اور ملی نغمے بھی پیش کئے۔ کیڈٹ کالج کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر عبد الرحمان جسکانی نے کہا کہ ایمان کے بعد آزاد مملکت دوسری بڑی نعمت ہے، مدینہ کے بعد پاکستان دوسری اسلامی ریاست ہے جو اسلام کے نام پر بنی۔ تقریب کے مہمان 53 ونگ کمانڈر بھٹائی رینجرز لیفٹیننٹ کرنل مشتاق احمد خان اور پرنسپل ڈاکٹر عبد الرحمان جسکانی نے مختلف کیڈٹس کو ان کی نصابی و ہم نصابی سرگرمیوں میں شاندار کارکردگی پر کاندھوں پر شانہ زیب لگائے۔ اس موقع پر پروفیسر ڈاکٹر عبد الرحمان جسکانی نے ونگ کمانڈر مشتاق احمد خان کو پاکستان اسٹیل کیڈٹ کالج کے اعزازی نشان کی شیلڈ بھی پیش کی۔
======================
نمایاں خدمات پر ملکی اور غیرملکی شخصیات کیلئے سول اعزازات
24 مارچ ، 2024FacebookTwitterWhatsapp
اسلام آباد ) صدر مملکت آصف علی زرداری نے یوم پاکستان کے موقع پرصحت، تعلیم، ادب، صحافت، فنون لطیفہ اور انسداد دہشت گردی سمیت مختلف شعبوں میں نمایاں خدمات پر ملکی اور غیر ملکی شخصیات کو سول اعزازات سے نوازا ہے۔ ہفتہ کو یہاں ایوان صدر میں سول اعزازات کی تقسیم کی ایک پروقار تقریب منعقد ہوئی۔ جس میں مختلف شعبوں میں نمایاں خدمات سرانجام دینے والی شخصیات کو نشان امتیاز، ہلال امتیاز، تمغہ امتیاز، ہلال پاکستان، ہلال قائداعظم، ستارہ شجاعت، ستارہ امتیاز، صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی اور تمغہ شجاعت کے اعزازات دیئے گئے۔ نشان امتیاز حاصل کرنے والوں میں راجہ محمد ظفر الحق، سید قائم علی شاہ، ڈاکٹر شمشاد اختر، ایئر مارشل (ر) نجیب اختر، محمد حفیظ قریشی مرحوم، صلاح الدین صدیقی اور افتخار حسین عارف شامل ہیں،مشتاق احمد سکھیرا کو ہلال شجاعت کا اعزازدیا گیا ہے جبکہ ہلال امتیاز کا اعزاز حاصل کرنے والوں میں ناصر محمودکھوسہ، بریگیڈیئر سید سرفراز علی مرحوم، ڈاکٹر محمد امجد ثاقب، مفتی عبدالشکور مرحوم، فواد حسین فواد، راجہ نعیم اکبر، کیپٹن(ر) زاہد سعید، سبطین فضل حلیم، زاہد اختر زمان، لیفٹیننٹ جنرل (ر) محمد اکرم خان، ڈاکٹر محمد جہانزیب خان، سید طارق فاطمی، طارق باجوہ، طارق محمود پاشا، جاوید اسلم، احمد عرفان اسلم، ڈاکٹر عثمان انور، محمد احمد شاہ، محمود احمد طاہر بھٹی، پروفیسرمحمدانور مسعود، بریگیڈیئر عاطف رفیق، شاہد خان، راحت علی خان، پروفیسر ڈاکٹر مختار احمد، پروفیسر ڈاکٹر شاہدمحمود بیگ، پروفیسر ڈاکٹر اقرار احمد خان، پروفیسر ڈاکٹر محمد عمر، پروفیسر ڈاکٹر عادل نجم، زاہد ملک مرحوم،بلال سیعد کمیانہ اورتنویر احمدشامل ہیں جبکہ سلطان بن عبدالرحمن المرشد، یانگ وی، خلیفہ جاسم ال قویری، قنوٹ اسٹبی، ڈاکٹر سابسٹیائن پاسٹ، ڈاکٹر فلپ اسٹین میٹز، مائیکل پی راسمین اور سمنتھا پاورکو ہلال قائداعظم کے اعزاز سے نوازا گیا ہے،عبداللہ المطہری کو ستارہ پاکستان کا اعزاز دیا گیا، ستارہ شجاعت کا اعزاز حاصل کرنے والوں میں طارق محمود، محمد عامر نسیم، ماجد سلیم ملک، اخترحیات خان، لیفٹیننٹ کمانڈر (ر) مقدس حیدر، محمد یونس شہید، نظام اللہ شہید، راحت سلیم شہید، غلام عباس لغاری شہید، عبدالطیف شہید، محمد سعید احمد شہید،آنجہانی اجمل مسیح ، محمد رمضان شہید، شمس اللہ شہید، محمد سہراب خان شہید، ضیاء اللہ خان شہید، میر زبیر محمود، محمد عدنان اور اسرارمحمدشامل ہیں۔ ستارہ امتیاز کا اعزاز عبدالقدوس بزنجو، ڈاکٹر کاظم نیاز، محمدصالح احمد فاروقی، قاری حافظ بزرگ شاہ الازہری، نائلہ کیانی، شعیب انور ملک، فہد ہارون، فرحان فاروق، درید قریشی، جھرنا باسک شبنم، فاخر محمود، پروفیسر ڈاکٹر ذوالفقار احمد بھٹہ، پروفیسر ڈاکٹر محمد فاروق حسن، محمد سرور گوندل اور یاسر ملک نے حاصل کیا۔ صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی کا اعزاز لیٹیننٹ جنرل احسن گلریز، لیفٹننٹ کرنل جنید علی ذوالفقار، سہیل سرور سلطان (سہیل وڑائچ) اور فرح محمود رانا نے حاصل کیا۔ ستارہ قائداعظم کا اعزازڈاکٹر حسین ایف قاوازوچ اور سلمیٰ سلمان زاہد کو دیا گیا۔ تمغہ شجاعت کا اعزاز حاصل کرنے والوں میں محمد بلال ریاض برکی، محمد عثمان اور سید عامر اختر شامل ہیں۔ تمغہ امتیاز کا اعزازحاصل کرنے والوں میں سید فیروز عالم شاہ، فہد سلیم ملک، محمد تنویر بٹ، محمد عثمان اکرم، وقار مقصود ستی، ڈاکٹر فاروق عادل، عائشہ خان، راشد محمود، پروفیسر ڈاکٹرمشتاق احمد، پروفیسر ڈاکٹر رضوان تاج، پروفیسر ڈاکٹر رضوانہ چوہدری، مرلی دہر ڈاوانی، سارہ احمد، ڈاکٹر خالد بن شاہین، علی توقیر شیخ، شیم اشرف خواجہ مرحومہ، ڈاکٹر منظوراحمدمرحوم، محمد زبیر شاہین مرحوم اور اللہ دتہ عباسی مرحوم شامل ہیں۔ تقریب میں وفاقی وزرا، سول و فوجی حکام اور غیر ملکی سفارتکاروںسمیت زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات نے شرکت کی۔
========

یوم پاکستان کے موقع پرگورنر سندھ نے 76 افراد میں سول ایوارڈز تقسیم کئے
24 مارچ ، 2024FacebookTwitterWhatsapp
کراچی (اسٹاف رپورٹر) یوم پاکستان ،گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری نے زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے 76 افراد میں سول ایوارڈز تقسیم کئے ۔گورنر سندھ نے 18افراد کو ستارہ امتیاز، 8کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی ، 7 کو تمغہ شجاعت اور 43 افراد کو تمغہ امتیاز دیا۔ گورنرسندھ نے پروفیسر ڈاکٹر امجد سراج میمن، پروفیسر ڈاکٹر محمد فاروق حسن، ملائیکہ جنید، ستیش چندرا آنند، سائرہ فرقان، عبدالواحد مسقاتیہ، سعید اللہ والا، امینہ علی گینی، ڈاکٹر امان اللہ قاسم مچھیارا، عبدالعزیز میمن، ڈاکٹر سید کلیم امام، مروین فرانسز لوبو، مرزا اختیار بیگ، محمد عارف حبیب، ڈاکٹر محمد سہیل خان راجپوت، درید قریشی، پروفیسر مفتی منیب الرحمان اور ڈاکٹر نعیم الظفر کوستارہ امتیاز کے اعزاز سے نوازا۔ گورنر سندھ نے دھائی بائی عرف مائی دھای، عبدالجبار گل، قادر بخش مٹھو، عدنان صدیقی، مشکور رضا خان، شیما کرمانی، نصیر بیگ مرزا اور افضل احمد سید کو صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی دیا۔ گورنر سندھ نے عبدالمالک بھٹو (شھید)، عبدالمالک کمانگر (شھید)، دین محمد لغاری (شھید)، جتوئی پتافی (شھید)، محمد سلیم چاچڑ (شھید)، محمد ارشد خان جدون (شھید) اور عبدالناصر کو تمغہ شجاعت کا اعزاز دیا، جبکہ ڈاکٹر خالد بن شاہین، سید نقی حیدر نقوی، زیبر امام ملک، مرلی دھر داوانی، ڈاکٹر محمد اجمل ساوند (شھید)، ڈاکٹر حسن عمران آفریدی، انور امجد، پروفیسر ڈاکٹر ندیم قمر، پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال آفریدی، ڈاکٹر یاسر عرفات گبول، ڈاکٹر اویس احمد لکھیار، ارباب خان کھوسو، ڈاکٹر عاصمہ ابراہیم ، سید غالب باقر، غلام عباس خاصخیلی ، مشتاق علی لاشاری، بندہ علی ، محمد رحمت اللہ خان دریا زئی، خان شاہ نواز ملہی، اے ایس رند، فضاء علی مرزا، ڈاکٹر سید عقیل عباس جعفری، علی دوست عاجز، انور سن رائے، ڈاکٹر مشتاق علی لغاری، زاہد سعید، سلیم رزاق تابانی، ڈاکٹر سید سیف الرحمان، فضل کریم دادا بھائی، سید ظفر عباس، محمد آصف جمیل، سید مرتضی علی شاہ، فاروق محبوب، آفاق احمد قریشی، حاجی مسعود پاریکھ، ضیاء اللہ خان اور دیگر کو تمغہ امتیاز کا اعزاز دیا ۔
==========

پاکستانی خواتین پر ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کے ذہنی اور سماجی اثرات
کنزا شکیل

8 ماہ انسٹاگرام کے ذریعے آن لائن ڈیٹنگ کے بعد لیلیٰ اور عدیل کی ملاقات پہلی بار کراچی کی ساحلی پٹی میں واقع ایک ریسٹورنٹ میں ہوئی۔ لیلیٰ اس وقت 20 سال جبکہ عدیل کی عمر 21 سال تھی۔ سورج غروب ہوتا دیکھتے ہوئے دونوں نے گھنٹوں باتیں کیں۔

لیلیٰ نے بتایا کہ وہ عدیل جیسے نفیس انسان سے کبھی نہیں ملی تھیں اور 25 یا 26 سال کی عمر تک جیسے ہی دونوں معاشی طور پر خودمختار ہوجاتے، لیلیٰ اس کے ساتھ شادی کی خواہش مند تھیں۔ وہ خوش تھیں کیونکہ انہیں ایک ایسا شخص مل گیا تھا جو ان کی باتیں سنتا تھا اور اس سے مخلص تھا۔ تاہم ان کے تعلقات کے تیسرے سال 2011ء میں تمام تاثر بدل گیا۔

وہ جب عدیل سے ملیں تو وہ بائیوسائنسز پڑھ رہا تھا اور جلد ہی اس کا گریجویشن ہونے والا تھا۔ لیلیٰ بتاتی ہیں کہ ’شروعات میں سب اچھا لگ رہا ہوتا ہے اور پھر آپ کو ریڈ فلیگس (پریشان کن عندیے) نظر آنے لگتے ہیں، جلد ہی وہ ایک کنٹرولنگ مرد بن گیا، اس نے مجھے اپنی ذات پر سوالات اٹھانے پر مجبور کردیا اور میرا جذباتی استحصال کیا۔ اور پھر ایک دن مجھ سے میری نازیبا تصاویر مانگیں، میں نے فوراً انکار کردیا لیکن میں اس وقت یہ نہیں سمجھ پائی کہ میرے ساتھ آخر کیا ہورہا ہے‘۔

عریاں تصاویر بھیجنے سے انکار کے دو دن بعد عدیل نے لیلیٰ کو میسج کیا۔ لیلیٰ نے بتایا کہ میسج کی ایک سیریز تھی جن میں ’میری ڈیپ فیک تصاویر تھیں اور جن کے ساتھ مجھے گالیاں اور انتہائی نازیبا الفاظ لکھے ہوئے تھے۔ میں اس وقت ماؤف ہوچکی تھی اور صدمے کی وجہ سے میں کوئی ردعمل بھی نہیں دے سکی۔ میں جانتی تھی کہ یہ میری تصاویر نہیں لیکن پھر بھی وہ تصاویر قابلِ یقین حد تک اصلی لگ رہی تھیں‘۔

لیلیٰ کہتی ہیں کہ ڈیجیٹل دنیا میں موجود خواتین کے لیے ڈیپ فیکس خطرہ ہیں۔ یہ ناقابلِ تصور حد تک خواتین کے جذباتی استحصال کا سبب بن سکتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’جب بھی ایسا کچھ ہوتا ہے لوگ سب سے پہلے خواتین پر انگلی اٹھاتے ہیں۔ چونکہ میں مسیح ہوں، کچھ مرد سوچتے ہیں کہ مسیحی خواتین آزاد خیال ہوتی ہیں اس لیے وہ جذباتی استحصال پر اعتراض نہیں کریں گی جوکہ غلط اور نفرت انگیز خیال ہے‘۔

اپنی فیملی کے خوف سے لیلیٰ نے عدیل کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کی۔ کوئی رکاوٹ نہ ہونے کی وجہ سے عدیل نے ان کی ڈیپ فیک تصاویر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور آن لائن گروپس میں پھیلائیں۔

ڈیپ فیک تصاویر قابلِ یقین حد تک اصل لگتی ہیں
مصنوعی ذہانت کا نقصان دہ استعمال
مصنوعی ذہانت نے دنیا کو تیزی سے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے جس سے تیزی سے کمپیوٹر سیکھا اور ان کاموں کو باآسانی کیا جاسکتا ہے جنہیں پہلے ہاتھوں سے کیا جاتا تھا۔ لیکن اس نے مختلف اسٹیک ہولڈرز کے درمیان تشویش بھی پیدا کردی ہے بالخصوص جب بات ڈیپ فیکس سے لاحق اخلاقی اور سلامتی کے خطرات کی ہو۔

ڈیپ فیکس یا بنا اجازت لی گئی غیراخلاقی تصاویر ڈیجیٹل طور پر بصری یا سمعی مواد کو تبدیل کرتی ہیں جن سے لوگوں کی جعلی تصاویر بنائی جاتی ہیں یا انہیں جعلی منظرناموں میں دکھایا جاتا ہے۔ یوں حقیقی اور مصنوعی تصاویر میں فرق کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ڈیپ فیکس کا استعمال غلط معلومات پھیلانے کے لیے کیا جاتا ہے اور اکثر اس کا استعمال غلط مقاصد کے لیے کیا جاتا ہے۔

ڈیپ فیکس بالخصوص خواتین کی آن لائن سیفٹی ایک ایسا شعبہ ہے جس میں قانون سازی کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ عالمی شہرت یافتہ خواتین جیسے امریکی پاپ اسٹار ٹیلر سوئفٹ بھی ڈیپ فیکس کے خطرات سے محفوظ نہیں۔ مزید یہ کہ اس ٹیکنالوجی سے سرحد پار خواتین اداکار بھی پریشان ہیں جن میں راشمیکا مندانا، کترینہ کیف، کاجول اور پریانکا چوپڑا جیسے نمایاں نام شامل ہیں۔

البتہ یہ خواتین حکام سے رجوع کرسکتی ہیں اور انہیں اپنے مداحوں کی حمایت بھی حاصل ہے، لیکن عام خواتین متاثرین کی ایک بڑی تعداد نہ صرف خاموش رہتی ہیں بلکہ وہ اپنی زندگی کے حوالے سے فکرمند بھی ہیں۔ ایسی خواتین خود کو خاندان کی بدنامی کا ذمہ دار سمجھتی ہیں۔ پاکستان میں اس حوالے سے خواتین کی مدد کرنے کے ذرائع بھی کم ہیں۔

لیلیٰ جو اب 25 سال کی ہیں، کہتی ہیں کہ وہ 2021ء میں قانونی ہیلپ لائنز کے حوالے سے آگاہ تھیں لیکن وہ ان پر رابطہ کرنے سے ہچکچا رہی تھیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’معاشرے کو سمجھنا چاہیے کہ ہر لڑکی یا خاتون کے لیے قانونی ایکشن لینا آسان نہیں ہوتا۔ یہاں جرم کا بوجھ بھی متاثرین کے کندھوں ہر ڈال دیا جاتا ہے، وہیں اُس شخص کے خلاف شکایت نہ کرنے پر مجھے پچھتاوے اور ندامت بھی محسوس ہورہی تھی‘۔

ذہنی ٹراما
لیلیٰ اس نفسیاتی صدمے کے بارے میں کھل کر بتاتی ہے جس کا تجربہ انہیں کرنا پڑا۔ ساتھ ہی اس بات کی نشاندہی بھی کی کہ لوگ اس وقت تک میرا درد نہیں سمجھ سکتے جب تک کہ وہ خود اس قسم کے جرم کا شکار نہ ہوں۔

وہ کہتی ہے ’بات صرف شرم کی نہیں۔ میں اس ذہنی حالت میں نہیں تھی کہ اپنی معمول کی زندگی کو جاری رکھ پاتی۔ مجھے یقین نہیں ہورہا تھا کہ واقعی میرے ساتھ ایسا ہوا ہے۔ میں اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرپارہی تھی کہ میں نے ایسے شخص پر بھروسہ کیا۔ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ میرے ساتھ ایسا کرے گا۔

’میرے رازداری اور ذاتی حدود کی خلاف ورزی کی گئی۔ مجھے محسوس ہورہا تھا کہ جیسے میرا اپنے ذہن اور جسم پر کوئی اختیار نہیں بلکہ میں جذبات سے عاری ایک شخص ہوں‘۔

لوگ اس وقت تک میرا درد نہیں سمجھ سکتے جب تک کہ وہ خود اس قسم کے جرم کا شکار نہ ہوں
وہ بتاتی ہیں کہ جس لمحے انہوں نے وہ تصاویر دیکھیں، وہ لمحہ اب بھی انہیں خوف زدہ کرتا ہے۔

وہ بتاتی ہیں ’یہ خیال کے کئی مردوں کو میری نازیبا تصاویر تک رسائی حاصل ہے۔ اس نے مجھ سے میرا دماغی سکون چھین لیا۔ میں نے کھانا چھوڑ دیا، میرا وزن کم ہونے لگا، نہ میں لوگوں سے بات کرنا پسند کرتی تھی اور نہ ہی کسی کے ساتھ رومانوی تعلقات قائم کرنا چاہتی تھی۔ اس واقعے سے قبل میں زندہ دل انسان تھی اور اس واقعے کے بعد مجھے دوبارہ زندگی کی ڈگر پر آنے کے لیے کافی وقت لگا‘۔

قانون سازی اور شکایات
سال 2023ء میں فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ میں تقریباً 11 ہزار شکایات کا اندراج ہوا۔ ان میں سے تقریباً 1200 کے قریب شکایات ڈیپ فیکس اور غیر اخلاقی تصاویر کے حوالے سے ہیں اور ان میں شکایت کنندہ خواتین زیادہ ہیں۔

ایف آئی اے کے مطابق رواں سال انہیں اس طرز کی 1020 شکایات موصول ہوئی ہیں۔

اس کے علاوہ سائبر ہراسانی سے خواتین کے تحفظ پر توجہ مرکوز کرنے والےادارے ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کے مطابق 2023ء میں دائر 1371 شکایات میں سے 155 ڈیپ فیکس سے متعلق ہیں۔

ڈیپ فیکس نے پاکستان میں خواتین کے ساتھ بدسلوکی اور تعصب کے ایک نئے دور کا خاموش آغاز کیا ہے جس نے ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کے لیے نئے چیلنجز کھڑے کیے ہیں کہ وہ ان کے خلاف کیسے کارروائی کریں گے۔

ایف آئی اے کی ہینڈ بُک کے مطابق ’اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اس طرح کی کارروائیوں میں زیادہ تر خواتین کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ مطالعات سے پتا چلتا ہے کہ غیراخلاقی تصاویر کی 80 فیصد سے زائد متاثرین خواتین ہیں جو ہمارے معاشرے میں خواتین کی خودمختاری اور حفاظت پر سوالات کھڑے کرتا ہے۔

پاکستان کے قوانین اس حوالے سے کچھ مسائل کو تو حل کرسکتے ہیں لیکن تمام مسائل نہیں۔

مثال کے طور پر پریوینشن آف الیکٹرونک کرائمز ایکٹ (پیکا) کے سیکشن 21 میں 18 سال سے کم عمر لڑکے لڑکیوں کو آن لائن استحصال سے بچانے سے متعلق ایک مخصوص ذیلی سیکشن کے ساتھ، ان جرائم کا ازالہ کرتا ہے۔

ملزمان کی طرف سے تصاویر ہٹانا زیادہ مشکل کام ہوتا ہے تاکہ وہ خواتین کو بلیک میل نہ کریں
ذیلی سیکشن ایک ’بالخصوص ان افراد کے متعلق ہے جو جان بوجھ کر اور عوامی طور پر درج ذیل نیت کے ساتھ معلوماتی نظام کے ذریعے معلومات کی نمائش، ڈسپلے یا ترسیل کرتے ہیں۔ کسی شخص کے چہرے کو فحش تصویر پر لگانا جس میں ویڈیوز بھی شامل ہیں، غیراخلاقی تصاویر سے کسی شخص کو دھمکانا یا کسی بالغ کے ساتھ جنسی عمل کرنا، اس پر آمادہ کرنا یا اُکسانا‘ شامل ہیں۔

فوجداری اور ڈیجیٹل قوانین کی ماہر مناہل فاروق کہتی ہیں ’پیکا کا سیکشن 21 غیراخلاقی تصاویر اور ڈیپ فیکس سے متعلقہ ہے اور اس طرح کے مواد پر اس سیکشن کا اطلاق ہوتا ہے‘۔

سیکشن 21 کے تحت 5 سال تک قید کی سزا یا تقریباً 50 لاکھ روپے کا جرمانہ یا دونوں سزائیں ایک ساتھ دی جاسکتی ہیں۔ تاہم متاثرہ شخص کی عمر 18 سال سے کم ہے تو مجرم کو 7 سال تک کی سزا بھی دی جاسکتی ہے۔

متاثرہ شخص پر الزام تراشی
جہاں آن لائن دنیا میں قدم رکھنے والی پاکستانی خواتین کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے اور لوگ اپنے ڈیٹا کو محفوظ رکھنے کے حوالے سے آگاہ ہیں، وہیں لوگوں میں ڈیپ فیکس کے خطرات کے حوالے سے آگاہی زیادہ نہیں۔ پدرشاہی نظام اور ڈیجیٹل دنیا کے حوالے سے کم علمی کے باعث ہمارے معاشرے میں مجرم کے احتساب کے بجائے متاثرین پر الزام تراشی کی جاتی ہے۔

وکیل اور ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن (ڈی آر ایف) کی بانی نگہت داد کہتی ہیں ’ہمارا معاشرہ پدرشاہی ہے، یہ خواتین پر یقین نہیں کرتا بلکہ وہ بیرونی ذرائع کو ان پر فوقیت دیتا ہے‘۔ نگہت داد کے خیال میں شاید یہی وجہ ہے کہ خواتین اپنی شکایات رپورٹ نہیں کرتیں۔

وہ کہتی ہیں ’ڈیپ فیکس سے مجرموں کو حمایت ملتی ہے۔ وہ انہیں (تصاویر) کو زیادہ حقیقی بنانے کے لیے مزید تکنیک اور حربے فراہم کرتے ہیں جس سے وہ خواتین جو فوٹو شاپ تصاویر پر یقین نہیں رکھتیں انہیں یہ تصدیق کرنے میں زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ آیا کوئی تصویر اصلی ہے یا نقلی‘۔

خواتین سے یہ سوال بھی کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی غیراخلاقی تصاویر کسی کے ساتھ کیوں شیئر کرتی ہیں۔ یوں ہمیشہ متاثرین کو ہی موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ صرف غیر شادی شدہ خواتین ہی اس کا شکار نہیں ہوتیں کیونکہ ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جہاں شوہر اپنی بیویوں کو دھمکانے کے لیے ایسی تصاویر کا استعمال کرتے ہیں۔

اپنی تصاویر کیوں شیئر کیں؟ معاشرہ متاثرین کو ہی موردِ الزام ٹھہراتا ہے
مجموعی طور پر مردوں کی اکثریت جو خواتین کو بلیک میل کرنے اور ان کی تذلیل کرنے کے لیے ڈیپ فیکس بناتے ہیں، وہ یہ کام متاثرین کو دھمکانے کے لیے نہیں کرتے بلکہ مرد غیر قانونی اور فحش سائٹس پر فروخت کرنے کے لیے بھی ڈیپ فیکس بناتے ہیں۔

اس تمام صورتحال کے خواتین کی جذباتی اور ذہنی صحت پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

نگہت داد کہتی ہیں کہ ’میرے خیال سے ذہنی اثرات کے حوالے سے بہت کم گفتگو ہوتی ہے۔ خواتین اس قدر ذہنی اذیت کا شکار ہوجاتی ہیں کہ وہ خودکشی کی جانب راغب ہوجاتی ہیں کیونکہ ان کے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہوتا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ معاشرے کی وجہ سے ہوگا، متاثرین کا اس میں کوئی قصور نہیں‘۔

سزا کی شرح اور مواد ہٹانے کا نظام
ایف آئی اے نے گزشتہ سال ڈیپ فیکس اور غیراخلاقی تصاویر اپلوڈ کرنے کی 1180 شکایات درج کیں، ان میں سے صرف 12 شکایت کنندگان نے فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کروائی۔ ان 12 ایف آئی آرز میں سے صرف سات میں ملزمان کو سزا دی گئی۔

ایف آئی اے کے سائبرکرائم ونگ کے مطابق سزا کی شرح کم ہونے کے دو عناصر ذمہ دار ہیں، پہلا شواہد کی کمی اور دوسرا متاثرین اور ملزمان کے درمیان سمجھوتہ ہوجاتا ہے۔

تاہم وہ خواتین جو ہمت کرکے ایف آئی اے کے ذریعے قانونی کارروائی کا فیصلہ کرتی ہیں انہیں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی سینیئر پروجیکٹ مینجر حرا باسط کہتی ہیں ’ایف آئی اے کہتا ہے کہ متاثرین ذاتی طور پر دفتر آکر اپنی شکایات درج کروائیں۔ تصور کریں کہ 15 مختلف شہروں میں ایف آئی اے سائبر کرائم کے 15 دفاتر ہیں لیکن متاثرہ خواتین کا ان 15 شہروں سے تعلق نہیں ہے تو انہیں مقدمہ درج کروانے کے لیے دوسرے شہر جانا پڑتا ہے۔

’ہر خاتون سفر نہیں کرسکتی جیسے رہائش اور ٹیکسی کے کرایے جیسی مالی رکاوٹیں۔ اس کے علاوہ وہ اپنے گھر والوں کو اپنے سفر کا عذر پیش کرنا بھی مشکل لگتا ہے۔ حتیٰ کہ اگر ایف آئی اے کا دفتر ان کے اپنے شہر میں بھی موجود ہو تب بھی ان میں سے اکثر کو گھروں سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہوتی۔

سائبر کرائم کے واقعے کی رپورٹ درج کروانے کے لیے سائبر کرائم ونگ انہیں خود دفتر آنے کو کہتا ہے
حرا باسط نے شواہد کی کمی کے بارے میں وضاحت کی، ’ہیلپ لائن پر ہم سے رابطہ کرنے والی خواتین کے پاس مضبوط شواہد نہیں ہوتے تو ہم انہیں ایف آئی اے میں نہ جانے کا مشورہ دیتے ہیں کیونکہ وہ ان کا مقدمہ درج کرنے سے انکار کرسکتے ہیں۔ تیسری رکاوٹ ملزم کا پاکستان میں نہ ہونا ہے کیونکہ بیرونِ ملک موجود ملزمان کو گرفتار کرنے کا کوئی ٹھوس طریقہ کار نہیں ہے‘۔

زیادہ تر خواتین شکایت کنندگان کی ایف آئی آر میں پیشرفت نہیں ہوتی کیونکہ ان کی سب سے بڑی پریشانی ملزمان کے پاس سے ڈیپ فیکس اور غیراخلاقی تصاویر کو ہٹانا ہوتا ہے تاکہ وہ مستقبل میں ان تصاویر کی بنیاد پر انہیں بلیک میل نہ کریں۔

ڈی آر ایف کے مطابق اگر ملزم متاثرہ شخص سے معافی مانگتا ہے اور ایف آئی اے کی ٹیم کے سامنے دوبارہ اس جرم کا ارتکاب نہ کرنے کا عہد کرتا ہے تو سمجھا جاتا ہے کہ کیس پر ’سمجھوتہ‘ کرلیا گیا ہے۔

اکثریت ملزم کو عدالت میں لے جانے کا انتخاب نہیں کرتیں کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ ان کے اہل خانہ کو معلوم ہو۔ وہ مردوں کی بڑی تعداد کو دیکھ کر عدالت آنے اور جانے سے بھی ڈرتے ہیں۔

وہ خواتین جنہوں نے اپنے کیس ایف آئی اے کے پاس رجسٹرڈ نہیں کروائے لیکن انہوں نے ڈی آر ایف سے مدد طلب کی کیونکہ وہ بنیادی طور پر فحش ویب سائٹس اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے اپنے ڈیپ فیکس ہٹانے کے بارے میں فکر مند تھیں۔ ڈی آر ایف لوگوں کو مشورہ دیتا ہے کہ اگر ان کی غیراخلاقی تصاویر کسی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کی گئی ہیں تو انہیں stopnccii.org استعمال کرنا چاہیے۔

یہ ایک ایسی ویب سائٹ ہے جو ایک ’ڈیجیٹل فنگر پرنٹ‘ بناتی ہے جسے ہیش کہتے ہیں تاکہ تصاویر اور ویڈیوز کو بلاک کیا جا سکے اور انہیں شیئر ہونے سے روکا جا سکے۔

حرا باسط کہتی ہیں، ’stopncii.org صرف ویب سائٹس کے لیے کام کرتا ہے۔ جبکہ ہم سوشل میڈیا ایپس جیسے واٹس ایپ، فیس بُک، انسٹاگرام اور ایکس وغیرہ پر پھیلائی جانے والی ڈیپ فیکس اور غیراخلاقی تصاویر کے معاملے میں توسیعی چینلز کا استعمال کرتے ہیں جس کے ذریعے ہم ان سوشل میڈیا کمپنیوں تک پہنچ کر ان تصاویر کو ہٹاتے ہیں‘۔

فحش سائٹس پر اپلوڈ ہونے والی تصاویر کو ہٹانے کا طریقہ کار الگ ہے۔

ان تمام چیلنجز کے باوجود ایسے متاثرین کی مثالیں موجود ہیں جنہیں اس راستے کا انتخاب کرکے انصاف ملا۔

ایسی ہی ایک کامیاب کہانی ڈسکہ، پنجاب کی رہائشی ایک خاتون کی ہے جنہوں نے 2021ء میں ڈی آر ایف سے اس وقت رابطہ کیا جب ان کی نامناسب تصاویر واٹس ایپ گروپس میں بھیجی گئیں اور جعلی فیس بک اکاؤنٹ کے ذریعے ان کے اہل خانہ کے ساتھ شیئر کی گئیں۔ ڈی آر ایف کیس ایف آئی اے کے پاس لے گیا اور ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا۔ زیریں اور اعلیٰ عدالتوں نے اپنا کردار ادا کیا اور مجرم کو ضمانت نہیں دی۔

لیلیٰ اس بات پر زور دیتی ہیں کہ کس طرح ہر شخص کی جذباتی صلاحیت مختلف ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر کوئی ایسے واقعات رپورٹ نہیں کرسکتا۔

لیلیٰ کہتی ہیں ’جب میں ماضی میں جھانکتی ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ میں قانونی مدد لے سکتی تھی۔ میں ٹراما اور صدمے کی وجہ سے ایسا نہیں کرسکی، جبکہ مجھے یہ بھی خدشات تھے کہ لوگ بالخصوص میری فیملی اور رشتہ دار کیا کہیں گے؟‘

وہ اعتراف کرتی ہیں کہ ’ظاہر ہے میری فیملی مجھے قتل نہیں کرتی۔ ہوسکتا ہے کہ وہ مجھ سے ناراض ہوتے یا کچھ عرصے کے لیے مجھ سے بات نہیں کرتے لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ میرا ساتھ دیتے۔ لیکن میں اُس وقت کچھ سوچنے کے قابل نہیں تھی‘۔

وہ افسوس سے کہتی ہیں کہ ’قانونی کارروائی کرنے یا شکایت کرنے سے شاید ملزم کو سزا تو نہیں ملتی لیکن پھر بھی مجھے یہ اطمینان ہوتا کہ میں اس کے خلاف کھڑی ہوئی‘۔

https://www.dawnnews.tv/news/1228343/