سندھ کے تعلیمی بورڈز کے حوالے سے حکومتی شخصیات کا دوہرا معیار کیوں ؟


تعلیمی حلقوں میں یہ تاثر عام ہے کہ سندھ کے تعلیمی بورڈز کے حوالے سے حکومتی شخصیات نے دہرا معیار اپنا رکھا ہے اور سارے بورڈز کے معاملات میں بورڈز کی اہم شخصیات کے ساتھ حکومتی عہدے داروں کا رویہ ایک جیسا نہیں ہے ۔
اس تاثر کو اس وقت مزید تقویت ملتی ہے جب تعلیمی حلقوں میں یہ بحث ہوتی ہے کہ میٹرک بورڈ کے نتائج میں ہیرا پھیری اور گڑبڑ کا ذمہ دار بورڈ کے چیئرمین کو قرار نہیں دیا جاتا بلکہ ساری ذمہ داری شعبہ امتحانات پر ڈال دی جاتی ہے اور پورے شعبہ امتحانات سمیت ائی ٹی سیکشن کے حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے ان کے خلاف اینٹری کرپشن کو معاملہ بھیجنے کی سفارش کی جاتی ہے جبکہ دوسری جانب انٹر بورڈ کے معاملات میں شعبہ امتحانات کے عملے اور ائی ٹی سیکشن کے عملے کو میٹرک بورڈ کی طرح ذمہ دار قرار نہیں دیا جاتا بلکہ وہاں ساری ذمہ داری موجودہ اور سابقہ چیئرمینوں پر عائد کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اخر یہ دو عملی کیوں یہ دہرا معیار کیوں ؟ کیا اس رویے کے پیچھے کچھ شخصیات کو جان بوجھ کر نشانہ بنانا اور کچھ شخصیات کو سوچے سمجھے انداز سے فائدہ پہنچانا مقصود ہے تعلیمی حلقوں میں اس حوالے سے بحث ہو رہی ہے اور حکومتی شخصیات اور ذمہ دار حکام پر سوالیہ نشانات لگ رہے ہیں ۔
مثال دی جا رہی ہے کہ انٹر بورڈ کراچی کے چیئرمین کی حیثیت سے ڈاکٹر سعید الدین نے 19 جولائی 2023 کو عہدہ چھوڑ دیا تھا اور انہیں یہاں سے گئے ہوئے سات مہینے ہو چکے ہیں اس کے باوجود ان کا نام مختلف حوالوں سے نتائج مرتب کرنے کے معاملات میں لیا جاتا رہا حالانکہ ان کا نتائج مرتب کرنے سے دور دور کا واسطہ نہیں تھا کیونکہ وہ تو عہدہ چھوڑ چکے تھے اور جب وہ یہاں سے گئے اس وقت ابھی امتحانات کا دور مکمل نہیں ہوا تھا اسیسمنٹ کا موقع تو بعد میں انا تھا ان کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ معاملات کو شفاف رکھنے کی کوشش کر رہے تھے اسی لیے انہوں نے ایکسٹرنل ریویو کمیٹی تشکیل دی تھی جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی اور اگر ان کے ہاتھ صاف نہیں ہوتے تو وہ ایک خود مختار ازادانہ ایکسٹرنل ریویو کمیٹی بنانے کی بات کیوں کرتے ہیں اسی طرح ان کے دور میں او ایم ار سسٹم متعارف کرایا گیا اور ڈیجیٹل مشینیں لے کر ائے تاکہ کوڈ دینے کا کام ہاتھ سے نہ کیا جائے بلکہ اس مینول کام کو مشینوں کے ذریعے کیا جائے اور یہ ڈاکٹر سعید الدین ہی تھے جنہوں نے اس وقت کہ سیکرٹری یو اینڈ بی کے سامنے یہ مشورہ رکھا کہ اب ہمیں ای مارکنگ کے سسٹم پر چلے جانا چاہیے لیکن ان کی تجویز کو سرہانے کے باوجود اس پر عمل نہیں کیا گیا ۔
دوسری طرف ان کی جگہ انے والے چیئرمین نسیم میمن پر بھی الزامات کی بوچھاڑ کر دی گئی اور انہیں بھی کسی نہ کسی طریقے سے نتائج کا ذمہ دار قرار دینے کے معاملے میں ملوث کرنے کی کوشش کی گئی حالانکہ شعبہ امتحانات کا کام بالکل الگ ہے اور چیئرمین کے دفتر کا کام بالکل الگ ۔ نتائج مرتب کرنے میں چیئرمین کے کردار کو اختیارات سے بڑھ کر بتایا جا رہا ہے حالانکہ حقائق اس کے برعکس بتائے جاتے ہیں اور یہ بات میٹرک بورڈ کے نتائج کے حوالے سے وزیر اعلی کی جانب سے تشکیل دی گئی انکوائری کمیٹی کی رپورٹ میں بھی سامنے ا چکی ہے کہ نتائج کے معاملے میں چیئرمین کا کردار نہیں ہوتا بلکہ یہ سارا کام شعبہ امتحانات کا ہوتا ہے انکوائری کمیٹی نے کیا سفارشات پیش کی اور اس کی کیا صورتحال ہے اس بارے میں دیکھتے ہیں کہ کیا ہوا ہے اور خود نگران وزیراعلی کو پیش کی گئی انکوائری کمیٹی کی رپورٹ کے بعد ان کے ترجمان نے میڈیا کو کیا رپورٹ جاری کی ہے

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ 2023 یہ انٹر بورڈ کے امتحانات کے حوالے سے نتائج خراب انے کے بعد زیادہ چیخ و پکار ہوئی اور صرف کراچی میں ہوئی کیونکہ سندھ کے باقی بورڈز میں نتیجہ بہت اچھا ایا اور طلبہ کو اتنے زیادہ نمبر مل گئے کہ انہیں شور کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی کراچی میں طلبہ کے نتائج اتنے خراب ائے ہیں کہ انہیں یونیورسٹیز میں داخلے میں مشکل ہوگی اس لیے شور مچا اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ پیپر بھی سخت تھا اور مارکنگ بھی سخت کی گئی پیپر چیک کرنے والے اساتزہ نے کوئی نرمی نہیں برتی اور کسی قسم کی رعایت نہیں دی جس کی وجہ سے نمبر مزید کم ہو گئے جہاں تک سال 2021 کے حوالے سے نتائج کے بارے میں باتیں کی جا رہی ہیں تو
دلچسپ بات سامنے ائی ہے کہ 2021 کے نتائج تاریخ کے لحاظ سے سب سے مختلف نتائج تھے کیونکہ 2020 میں کرونا کی وجہ سے پڑھائی نہیں ہو سکی تھی اور 2021 میں صرف تین پیپرز لیے گئے تھے سائنس کے تین پیپرز کی وجہ سے باقی پیپرز پر بھی پانچ پانچ نمبرز کا اضافہ کیا گیا تھا جس کے فزکس میں پانچ نمبر بڑھائے گئے تھے اس کے انگریزی اردو اسلامیات میں بھی نمبر بڑے تھے اور اس کا اثر سب پیپرز پر پڑا تھا 2021 اور 2022 میں انٹر بورڈ کے رزلٹ میں کوئی شور شرابہ بھی نہیں ہوا تھا 2021 کا رزلٹ اوریجنل نمبرز پہ نہیں تھا بلکہ ایوریج نمبرز پر بننے والا رزلٹ تھا ۔
===========================


نگران وزیراعلیٰ سندھ جسٹس (ر) مقبول باقر کو کراچی کے نتائج 2023 میں ہیراپھیری سے متعلق انکوائری رپورٹ موصول

سیکریٹری اسکول ایجوکیشن ڈاکٹر شیرین مصطفیٰ کی سربراہی میں تحقیقات ہوئی، ترجمان

کمیٹی نے اپنی سفارشات سے متعلق وزیراعلیٰ کو بریفنگ دی، ترجمان

انکوائری کمیٹی نے چند سفارشات پر عمل کرانے کیلئے وزیراعلیٰ کو آگاہی

پوری امتحانی ٹیم نتائج میں ہیرا پھیری کے ذمہ دار ہے اور غفلت کے مرتکب پائے، کمیٹی

بشمول کنٹرولر، ڈپٹی کنٹرولر، اسسٹنٹ کنٹرولر اور آئی ٹی ٹیم سب غیر ذمہ دار پائے گئے، کمیٹی

انکوائری کمیٹی نے انٹر بورڈ میں بے ضابطگیوں سے متعلق اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ سے مزید تحقیقات کی سفارش کردی

انکوائری کمیٹی کا بورڈ کے قصور وار افسران کے خلاف محکمانہ کارروائی کرنے کی سفارش

نگراں وزیراعلیٰ سندھ نے انٹر بورڈ انکوائری کمیٹی کی سفارشات کی منظوری دے دی

تحقیقات کے دوران کوئی بھی ملازم بیان دیتے وقت سنجیدہ نہیں پایا گیا، کمیٹی رپورٹ

اس وقت کے قائم مقام کنٹرولر امتحانات مسٹر عمران کا بیان غیر سنجیدہ ہے،

کوئی بھی نہیں بتا سکا کہ اصل نتیجہ کیا ہے اور کتنی تبدیلیاں ہوئیں، کمیٹی رپورٹ

اعلانیہ نتائج سے موازنہ کیلئے اصل رکارڈ کمیٹی کو فراہم نہیں کیا گیا، وزیراعلیٰ کو آگاہی

نتائج میں ہیراپھیری کے دوران ڈپٹی کنٹرولر خالد احسان عہدے پر تھے، کمیٹی رپورٹ

چیئرمین بورڈ نے بتایا کہ خالد احسان کا تعلق نتائج کے عمل سے براہ راست وابستہ ہے، کمیٹی

مسٹر خالد کو بطور ممبر تحقیقاتی کمیٹی بھی مقرر کیا گیا ہے، کمیٹی رپورٹ

انٹر بورڈ کے آئی ٹی ونگ/کمپیوٹر ونگ کو بورڈ انتظامیہ نے یکسر نظرانداز کردیا ہے،

انٹر بورڈ کی اس غفلت کے باعث ہر طرح کی ہیراپھیری و بدانتظامی شروع ہو گئی،

گزشتہ سال میسرز Basecamp IT Solution کی طرف سے ایک نیا رزلٹ سافٹ ویئر متعارف کرایا گیا،

طلباء نے گزشتہ سال پرانے سافٹ ویئر کے تحت داخلہ لیا تھا، کمیٹی

نئے سافٹ ویئر نے اس سال شائع مضامین کے کل نمبروں کا حساب لگاکر گزٹ میں شامل کیا،

دو سافٹ وئیر کے مماثلت نہ ہونے کے باعث مزید گریڈ گریس کو بھی گزٹ میں شامل نہیں کیا گیا،

یہ عمل نااہلی کا واضح ثبوت ہے اور بورڈ انتظامیہ مطمئن کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی، کمیٹی

انٹر بورڈ میں او ایم آر سسٹم پہلی بار متعارف کرایا گیا ہے، کمیٹی رپورٹ

امتحانی پرچوں کی جانچ میں شامل اساتذہ کو کوئی تربیت نہیں دی گئی، کمیٹی رپورٹ

تربیت نہ ہونے کے نتیجے میں بڑی تعداد میں غلطیاں سامنے آئی ہیں،

بورڈ آفس انتظامیہ کی جانب سے کئی بار بڑی بے ضابطگیاں کی گئی ہیں،

نئے سسٹم سے پہلے کمپنی اور بورڈ انتظامیہ کو عملہ کی مکمل تربیت کرانی چاہئے تھی، کمیٹی

انٹر بورڈ انتظامیہ اس مسئلے کو حل کرانے میں ناکام رہی اور کمیٹی کو مطمئن نہیں کرسکی،

اسکیموں کے ریکارڈ پر عملدرآمد کیلئے مناسب مکمل گزٹ دستیاب نہیں تھا، کمیٹی رپورٹ

تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ کوئی بھی طالب علم کئی بار سوالات کرکے کسی بھی نتیجہ تک پہنچ جاتا ہے،

اکثر طلباء کو مارک شیٹ کیلئے کئی بار چکر لگانا پڑتے ہیں، کمیٹی رپورٹ

کمیٹی نے بتایا کہ پوری امتحانی ٹیم بشمول کنٹرولر، ڈپٹی کنٹرولر، اسسٹنٹ کنٹرولر اور آئی ٹی ٹیم واضح غلطیوں کیلئے ذمہ دار ہے،

مزید تحقیقات کیلئے اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ وغیرہ کے ذریعے کرائی جاسکتی ہیں،

تمام مجرم افسران کے خلاف محکمانہ کارروائی کی ضرورت ہے، کمیٹی رپورٹ

بورڈ انتظامیہ کے کچھ عناصر بنیادی طور پر امتحانات پر اثرانداز ہوئے ہیں،

آئی ٹی سیل، سافٹ ویئر کنسلٹنگ فرم اور کنٹریکٹ ایڈمنسٹریشن سست روی کا شکار ہے،

ایسا لگتا ہے کہ وہ نتائج کیلئے پیشہ ورانہ طور پر ذمہ دار نہیں ہیں،

ایگزامینیشن برانچ میں ایسا عملہ ہے جو انکوائری کے دوران غیر معمولی اور لاپرواہ ہے، کمیٹی

عملہ نے ایک دوسرے پر الزام تراشی کی جوکہ انتہائی غیر پیشہ ورانہ ہے،

چیئرمین بورڈ اصلاحات لانے اور پرانے و نئے سسٹم کو چلانے میں ناکام رہے،

چیئرمین بورڈ کی لاپرواہی سے تالیف و اشاعت اور مجموعی کارکردگی کو نقصان پہنچا۔

بیرونی خدمات کے ذریعے پورے امتحان میں اوور ہال کی ضرورت ہے، کمیٹی رپورٹ

نئی بھرتیوں اور عملے کی تربیت زیادہ ضروری ہے، کمیٹی کی وزیراعلیٰ کو آگاہی

کرداروں اور ذمہ داروں کا چیک اینڈ بیلنس کے ساتھ احتساب کرانا ہوگا،

کنٹرولر آف ایگزامینیشن اہم عہدہ ہے اس لیے بہترین افسر کو یہ کام سونپا جائے، کمیٹی