جامعہ کراچی کی لائبریری میں طلبا تنظیموں کے کارکنوں میں جھگڑا

جامعہ کراچی کی لائبریری میں 2 طلباء تنظیموں کے کارکنوں میں جھگڑا ہوگیا۔

طلباء تنظیموں کے جھگڑے کی ویڈیو منظر عام پر آگئی، جس میں وہ ایک دوسرے پر تشدد کرنے کے ساتھ کرسیاں بھی پھینک رہے ہیں۔

ویڈیو میں ایک شخص نے اپنی شناخت چھپانے کی غرض سے ہیلمٹ بھی پہنا ہوا ہے۔

پولیس حکام کے مطابق واقعہ 2 روز قبل پیش آیا تھا، جس میں 4 افراد معمولی زخمی ہوئے تھے۔ دونوں فریقین میں سے کسی نے بھی قانونی کارروائی نہیں کرائی ہے۔
=====================
=====================
جامعہ کراچی میں طلبہ تنظیموں کی سرگرمیوں پر پابندی عائد، ڈاکٹر خالد عراقی کی ہدایت پر اقدام
کراچی (اسٹاف رپورٹر) جامعہ کراچی میں دو طلبہ تنظیموں کے درمیان کشیدگی اور تصادم کے باعث طلبہ تنظیموں کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی گئی ہے اس سلسلے میں وائس چانسلر ڈاکٹر خالد عراقی کی ہدایت پر مشیر امور طلبہ ڈاکٹر نوشین رضا نے پابندی کا باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ پیر کی شام لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے لیس طلبہ کا ایک گروہ مخالف طلبہ تنظیم کے دو طلبہ کو مارنے کے لیے شعبہ انتظامیہ کی عمارت میں گھس گیا تھا جس پر رینجرز اور پولیس موقع پر پہنچی اور صورتحال کو کنٹرول کیا۔
=======================
جامعہ کراچی، میرین سائنسز کے مراکز کی گرانٹ میں کمی کردی گئی

کراچی (اسٹاف رپورٹر) جامعہ کراچی میں میرین سائنسز کے مراکز کی گرانٹ میں کمی کردی گئی ہے بتایا جاتا ہے کہ سیاسی اور ذاتی مقاصد کے لیے میرین بیالوجی سے متعلق تحقیقات کے لیے گزشتہ ادوار میں تین مراکز قائم کردیئے گئے تھے جن میں غیر تدریسی ملازمین کی بھرمار کردی گئی تھی اور کم تحقیق کرنے اور میرین سے متعلق پروجیکٹ نہ لانے کے باعث یہ ادارے ایچ ای سی اور جامعہ کراچی مالی بوجھ بن چکے تھے جب کہ ان میں تحقیق کا معیار کم ہونے کے سبب ہائی ایجوکیشن کمیشن نے ان میں سے بعض اداروں کی گرانٹ میں کٹوتی کردی ہے بتایا جاتا ہے کہ جامعہ کراچی میں وفاقی حکومت کے فنڈز سے چلنے والے ادارے سینٹر آف ایکسیلینس ان میرین بیالوجی (سی ای ایم بی) کی سالانہ گران میں ایچ ای سی نے 13 ملین روپے کی کٹوتی کردی ہے اس ادارے کا سالانہ بجٹ 80 ملین روپے سالانہ تھا جو اب کم ہوکر 67 ملین روپے کردیا گیا ہے جبکہ سی ای بی ایم کے تدریسی و غیرتدریسی عملے کو دسمبر کہ تنخواہ بھی تاحال جاری نہیں ہوسکی ہے یونیورسٹی ذرائع کے مطابق سینٹر آف ایکسیلینس ان میرین بیالوجی میں کل 42 ملازمین کام کرتے ہیں جن میں سے اکثریت غیر تدریس ملازمین کی ہے یہ عملہ 33 کی تعداد میں یہاں موجود ہے جبکہ 9فیکلٹی اراکین ہیں حاضر سروس ملازمین کی تنخواہ کی مد میں 38 ملین سالانہ جبکہ ریٹائرڈ ملازمین کی پینشن کی مد میں 28 ملین روپے سالانہ کے اخراجات ہیں ذرائع کے مطابق ادارے میں ریسرچ پہلے ہی معدوم ہے مزید یہ کہ جو کچھ تحقیق ہورہی ہے اسے کمرشلائز کرنے کی بھی کوئی پالیسی نہیں ہے اور یہ اور نہ ہی متعلقہ صنعتوں سے کسی قسم کا اشتراک قائم کیا گیا ہے اور عام تاثر یہ ہے کہ یہ ادارہ ایچ ای سی سے فنڈ لے کر صرف حاضر سروس ملازمین کو تنخواہیں اور ریٹائر ملازمین کو تنخواہیں دے رہا ہے ۔

===========================

وفاقی اردو یونیورسٹی کے قائم مقام رجسٹرار کیخلاف اساتذہ کی تحریک شروع

عظمت خان
=================

کراچی : وفاقی اردو یونیورسٹی کے قائم مقام رجسٹرار ڈاکٹر محمد صدیق کیخلاف 71 اساتذہ نے درخواست جمع کرائی ہے جس میں مطالبہ کیا ہے کہ سلیکشن بورڈ کے خلاف سرگرم عمل اور اساتذہ کو ہراساں کرنے والے متعصب قائم مقام رجسٹرار کو فوری طور پر عہدے سے ہٹایا جائے ۔

سلیکشن بورڈ کی سفارشات اور سینیٹ کی توثیق کے بعد تقرر کیے گئے اساتذہ کو تقرر نامے و تنخواہیں جاری کرنے پر سابق وائس چانسلر ، رجسٹرار اور ٹریژرار سے وضاحت طلبی کے خطوط فوری منسوخ کیے جائیں ۔ سلیکشن بورڈ 2013 , 2017 سینیٹ کی منظوری اور چانسلر وفاقی اردو یونیورسٹی و صدر مملکت کی خصوصی ہدایت پر 2021 میں منعقد ہوا تھا ۔

18 جولائی 2022 کو سینیٹ اجلاس میں سلیکشن بورڈ کی سفارشات کی توثیق کرتے ہوۓ اس وقت کے مستقل وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر عطا کو تقرر نامے جاری کرنے کی ہدایت کی گئی تھی اور بقیہ سلیکشن بورڈ کی کارروائی مکمل کر نے کی بھی ہدایت دی تھی ۔

سینیٹ کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے مستقل وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر عطا نے فوری طور پر پروفیسر ، ایسوسی ایٹ پروفیسر اور اسسٹنٹ پروفیسر کے تقرر نامے جاری کر دیئے تھے اور یکم جولائی 2022 سے حسب قاعدہ جوائننگ کے خطوط بھی جاری کر دیئے گئے تھے ۔

جب کہ لیکچرر کے تقرر نامے وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر عطا کے بیرون ملک جانے کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوئے بعد ازاں دسمبر 2022 میں سینڈیکیٹ نے قائم مقام وائس چانسلر ڈاکٹر ضیا الدین کو ہدایت دی کہ سینٹ ( منعقدہ 18 جون 2022) نے سلیکشن بورڈ کی سفارشات کو منظور کر لیا ہے ۔ لہذا آپ سینیٹ کی ہدایت پر عمل کرتے ہوۓ لیکچرر کے تقرر نامے جاری کریں ۔

جس کے بعد 24 دسمبر 2022 کو قائم مقام وائس چانسلر ڈاکٹر ضیا الدین نے تمام ٹیچرز کو بھی تقرر نامے جاری کر دیئے۔ اور ان لیکچرر کو حسب قائدہ یکم جنوری 2023 سے رجوع به کار کر دیا گیا ۔ اس تاخیر کی وجہ وہ سازشی افراد ہیں جو روز اول سے سلیکشن بورڈ کی مخالفت کر رہے ہیں ۔

ان افراد نے ایچ ای سی اور وزارت تعلیم و سلیکشن بورڈ سے متعلق بے بنیاد اعتراضات بھیج کر سلیکشن بورڈ کو انتہائی متنازعہ بنا دیا ۔ جس کی وجہ سے 15 ستمبر 2022 کو سینٹ اجلاس پر سلیکشن بورڈ کو ایچ ای سی سے ویلیڈیٹ کرانے کو کہا گیا ۔ اور ایچ ای سی کو ایک ہفتے میں رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی گئی لیکن 6 ماہ بعد فروری 2013 میں ایچ ای سی نے اپنی رپورٹ سینیٹ کے غیر رسمی اجلاس میں پیش کی ۔

دریں اثنا سلیکشن بورڈ سے تقرر کئے گئے کچھ اساتذہ نے ایچ ای سی کی رپورٹ پر سندھ ہائی کورٹ سے حکم امتناع بھی حاصل کر لیا ۔ سلیکشن بورڈ سے متعلق ایچ ای سی کی رپورٹ پر اردو یونیورسٹی کی جانب سے جواب 20 نومبر 2023 کو صدر مملکت و چانسلر اردو یونیورسٹی کی سربراہی میں ہونے والے سینیٹ اجلاس میں جمع کروایا گیا ۔

چانسلر وفاقی اردو یو نورانی نے ایک کمیٹی تشکیل دی لیکن موجودہ انتظامیہ نے کمیٹی کی سفارشات آنے سے قبل اور سلیکشن بورڈ کے معاملے پر عدالتی حکم امتناع آنے کے باوجود سابقہ انتظامی عہدیداران کے خلاف انتقامی کارروائیاں شروع کر دیں ۔ سابقہ انتظامی عہدیداران کو تقرر نے جاری کرنے اور تنخوائیں ادا کرنے پر وضاحت طلبی کے خطوط جاری کر دیئے تھے ۔

۔سپریم کورٹ کے سابقہ فیصلوں کے تحت جب کسی ملازم کو ادارہ جواننگ کا خط دے دیتا ہے تو ملازم اپنی خدمات بھی ادا کر رہا ہو تو اس ملازم کو تنخواہ ادا کرنا ادارے کی ذمہ داری ہے ۔ انہیں عدالتی فیصلوں کی روشنی میں سابقہ انتظامیہ نے سلیکشن بورڈ کی سفارشات و سینیٹ کی توثیق سے جن اساتذہ کو تقرر نامے اور خطوط رجوع به کاری جاری کر دیئے تھے اور وہ اساتذہ اپنی خدمات بھی انجام دے رہے تھے ۔ انھیں تمام مطلوبہ دستاویزات کی فراہمی کے بعد حسب قائدہ جنوری 2023 سے تنخواہیں جاری کر دیں ۔

15 اکتوبر 2023 کو انتظامیہ کی تبدیلی سے سلیکشن بورڈ کے مخالف افراد انتظامیہ کا حصہ بن گئے اور سلیکشن بورڈ کو متنازعہ قرار دے کر سبوتاژ کرنے میں سرگرم عمل ہو گئے ۔ ان افراد میں سرفہرست حادثاتی طور پر بننے والے موجودہ قائم مقام رجسٹرار محمد صدیق ہیں ۔

انہوں نے ایج ای سی اور منسٹری کو سلیکشن بورڈ کی مخالفت میں خطوط لکھے اور وزارت تعلیم کی انکوائری کمیٹی کے سامنے بھی سلیکشن بورڈ کی مخالفت میں بیان دیتے ہوۓ کہا کہ اردو یونیورسٹی میں مالی بحران کا سبب سلیکشن بورڈ سے تقرر کئے گئے اساتذہ کی تنخواؤں کا جاری ہونا ہے۔

یہ قائم مقام رجسٹرار جامعہ کے مالی مسائل کو حل کرنے کے بجاۓ انتقامی کاروائیوں اور اساتذہ کو ہراساں کرنے میں مصروف ہیں ۔ جامعہ کے ملازمین کی تنخواہیں، پینشن اور ہاؤس سیلنگ کی ادائیگی کو بروقت ممکن بنانے کے بجائے سلیکشن بورڈ کی سفارشات پر تقرر کیے گئے اساتذہ کی تنخواہیں روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں ۔ موجودہ اساتذہ کا مطالبہ ہے کہ سابقہ وائس چانسلر ، رجسٹرار اور ٹریژرار کو تقرر نامے جاری کرنے اور تنخواہیں ادا کرنے پر وضاحت طلبی کے خطوط کو فوری منسوخ کیا جاۓ اور سلیکشن بورڈ کو سبوتاز کرنے میں سرگرم عمل موجودہ قائم مقام رجسٹرار کو فوری طور پر عہدے سے ہٹایا جاۓ ۔

TAGSFUUASTوفاقی اردو یونیورسٹی

https://www.youtube.com/watch?v=ak0DHASC