چین امریکہ تعلقات کی نئی سمت کے لیے پانچ نکاتی فارمولا

تحریر: زبیر بشیر
============

امریکی وقت کے مطابق 15 نومبر کو چینی صدر شی جن پھنگ اور امریکی صدر جو بائیڈن میں ایک اہم ملاقات ہوئی ملاقات میں دونوں سربراہان مملکت نے چین۔امریکہ تعلقات کی سمت اور عالمی امن اور ترقی کو متاثر کرنے والے بڑے مسائل پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔ موجودہ عالمی تناظر اور متوزان چین امریکہ تعلقات کے قیام کے لیے چینی صدر نے ایک مرتبہ پھر چینی دانش سے حل فراہم کیا۔ چینی صدر کی جانب سے پیش کی جانے والی تجاویز کو عالمی سطح پر سراہا جارہا ہے۔
صدر شی جن پھنگ نے کہا کہ باہمی احترام، پرامن بقائے باہمی اور باہمی تعاون وہ سبق ہیں جو ہم نے چین اور امریکہ تعلقات کے 50 سال اور تاریخ میں بڑے ممالک کے مابین تنازعات کے دور سے سیکھا ہے۔ چین اور امریکہ کو ان پر عمل درآمد کے لئے بہت سی کوششیں کرنی چاہئیں۔ جب تک دونوں ممالک ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں، امن کے ساتھ مل جل کر کام کرتے رہیں گے اور باہمی تعاون کو آگے بڑھائیں گے، تب تک وہ اختلافات سے بالاتر ہو کر دونوں بڑے ممالک کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنے کا صحیح راستہ تلاش کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔ گزشتہ سال بالی میں امریکہ نے کہا تھا کہ وہ چین کے نظام کو تبدیل کرنے، نئی سرد جنگ شروع کرنے، چین کے خلاف اتحاد تشکیل دینے، “تائیوان کی علیحدگی” کی حمایت کرنے یا چین کے ساتھ تنازع میں ملوث ہونے کا خواہاں نہیں ہے۔سان فرانسسکو میں چین اور امریکہ کو ایک نیا ویژن اپنانا چاہیے اور چین۔ امریکہ تعلقات کے لیے پانچ ستونوں کی تعمیر کرنی چاہیے۔
سب سے پہلے، مشترکہ طور پر ایک صحیح تصور کی تشکیل ہے. چین امریکہ کے ساتھ مستحکم، صحت مند اور پائیدار تعلقات کے لئے مستقل طور پر پرعزم ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ چین کے مفادات کا تحفظ ضروری ہے، اصولوں کی پاسداری کی جانی چاہیے اور سرخ لکیروں کو عبور نہیں کیا جانا چاہیے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ دونوں ممالک ایسے شراکت دار بن سکتے ہیں جو ایک دوسرے کا احترام کریں اور امن کے ساتھ مل جل کر رہیں۔
دوسرا، مشترکہ طور پر اختلافات سے مؤثر طریقے سے نمٹنا ہے۔ اختلافات ایک خلیج نہیں ہونی چاہئے جو دونوں ممالک کو الگ رکھتی ہے۔ اس کے بجائے، دونوں فریقوں کو ایک دوسرے کی جانب بڑھنے میں مدد کے لئے پل تعمیر کرنے کے طریقے تلاش کرنے چاہئیں. یہ ضروری ہے کہ فریقین ایک دوسرے کے اصولوں اور سرخ لکیروں کی قدر کریں، اور اشتعال انگیز ی اور لکیریں عبور کرنے سے گریز کریں۔ فریقین کو مزید مواصلات، مزید بات چیت اور مزید مشاورت کرنی چاہیے، اور اختلافات اور مختلف واقعات سے پرسکون طریقے سے نمٹنا چاہیے۔
تیسرا، باہمی فائدہ مند تعاون کو مشترکہ طور پر آگے بڑھانا ہے۔ چین اور امریکہ کے وسیع تر شعبوں میں وسیع تر مشترکہ مفادات ہیں ، جن میں معیشت ، تجارت اور زراعت جیسے روایتی شعبوں کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلی اور مصنوعی ذہانت (اے آئی) جیسے ابھرتے ہوئے شعبے بھی شامل ہیں۔ خارجہ پالیسی، معیشت، مالیات، تجارت، زراعت اور دیگر شعبوں میں تعاون کی بحالی اور نئے میکانزم کو مکمل طور پر بروئے کار لانا اور انسداد منشیات، عدالتی اور قانون نافذ کرنے والے امور، مصنوعی ذہانت اور سائنس و ٹیکنالوجی جیسے شعبوں میں تعاون کرنا ضروری ہے۔
چوتھا، بڑے ممالک کی حیثیت سے مشترکہ طور پر ذمہ داریاں نبھانا ہے۔ انسانی معاشرے کو درپیش مسائل بڑے ممالک کے درمیان تعاون کے بغیر حل نہیں ہوسکتے۔ چین اور امریکہ کو مثالی انداز سے رہنمائی کرنی چاہیے، بین الاقوامی اور علاقائی مسائل پر ہم آہنگی اور تعاون کو بڑھانا چاہیے اور دنیا کے لیے زیادہ سے زیادہ پبلک پراڈکٹس فراہم کرنی چاہئیں ۔ دونوں فریقوں کو اپنے اقدامات کو ایک دوسرے کے لئے کھلا رکھنا چاہئے ، یا ہم آہنگی کے لئے ان کو مربوط کرنا چاہئے۔
پانچواں، مشترکہ طور پر افرادی تبادلوں کو فروغ دینا ہے۔ فریقین کو براہ راست پروازوں میں اضافہ کرنا چاہئے، سیاحتی تعاون کو آگے بڑھانا چاہئے، ذیلی قومی تبادلوں کو بڑھانا چاہئے، تعلیمی تعاون کو مضبوط بنانا چاہئے، اور اپنے لوگوں کے مابین زیادہ سے زیادہ رابطوں اور مواصلات کی حوصلہ افزائی اور حمایت کرنی چاہئے۔
صدر شی جن پھنگ نے امور تائیوان پر چین کے اصولی موقف کی وضاحت کی۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ امور تائیوان چین۔ امریکہ تعلقات میں سب سے اہم اور حساس معاملہ ہے۔ چین بالی اجلاس میں امریکہ کی جانب سے دیے گئے مثبت بیانات کو اہمیت دیتا ہے۔ امریکہ کو “تائیوان کی علیحدگی” کی حمایت نہیں کرنی چاہئے ، تائیوان کو مسلح کرنے سے گریز کرنا چاہئے اور چین کی پرامن وحدت کی حمایت کرنے کے اپنے وعدے کا احترام کرنے کے لئے حقیقی اقدامات کرنے چاہئیں۔ چین کی دوبارہ وحدت یقینی ہے، جسے روکا نہیں جا سکتا ہے۔
=================

https://www.youtube.com/watch?v=ak0DHASC