چین امریکہ مستحکم تعلقات کیوں ضروری ہیں


اعتصام الحق ثاقب
===========


چین کے صدر شی جن پھنگ امریکی صدر جو بائیڈن کی دعوت پر 14 سے 17 نومبر تک سان فرانسسکو میں ہیں جہاں دونوں ممالک کے سربراہی اجلاس کے ساتھ 30 ویں ایپیک رہنماؤں کے اجلاس میں بھی شرکت کریں گے۔ حالیہ مہینوں میں چین اور امریکہ کے درمیان اعلیٰ سطحی رابطوں میں اضافہ ہوا ہے جس سے ایک بہتر ماحول کو فروغ ملا ہے۔ نئے مکالمے کے طریقہ کار اور مواصلاتی چینلز قائم کیے گئے ہیں، جن میں اقتصادی، مالی اور کاروباری مسائل سے نمٹنے کے لئے ورکنگ گروپس کی تشکیل بھی شامل ہے۔ دونوں ممالک سفارت کاری، موسمیاتی تبدیلی، جزیرہ نما کوریا کے جوہری مسئلے، اسلحے پر کنٹرول اور جوہری عدم پھیلاؤ پر بھی بات چیت کر رہے ہیں۔
بیجنگ اور واشنگٹن دونوں دوطرفہ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ امریکہ نے ایک چین کے اصول اور تائیوان کی آزادی’ کی حمایت نہ کرنے کے اپنے موقف کا اعادہ کیا ہے ۔ امریکہ نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ وہ چین سے ” ڈی کپلنگ ” نہیں چاہتا اور جو بائیڈن انتظامیہ نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں تعاون پر دونوں ممالک کے مابین معاہدے میں چھ ماہ کی توسیع بھی کی ہے ۔ چین نے چھ سال میں امریکی زرعی مصنوعات کی پہلی بڑی خریداری کے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ یہ معاہدہ اربوں ڈالر کا ہے جو چین کی امریکہ کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی خواہش کو ظاہر کرتا ہے۔ دونوں ممالک کے مابین تجارت 2022 میں تقریباً 760 بلین ڈالر کی ریکارڈ سطح پر پہنچی ۔ رواں ماہ منعقد ہونے والی چھٹی چائنا انٹرنیشنل امپورٹ ایکسپو میں ، امریکی فوڈ اینڈ ایگریکلچر پویلین میں نمائش کنندگان کو 505 ملین ڈالرز کے آرڈرز موصول ہوئے اور کیلیفورنیا میں دونوں ممالک کے ماحولیاتی نمائندوں اور ٹیموں کے درمیان موسمیاتی تبدیلی کے مذاکرات کا حالیہ کامیاب اختتام بھی ایک نئے عزم کو ظاہر کرتا ہے۔
اپنے دورے کے دوران صدر شی جن پھنگ امریکی صدر جو بائڈن سے ملاقات کے علاوہ جس اہم اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں وہ ایپک کا تیسواں اجلاس ہے ۔دیکھا جائے تو ایشیا پیسفک اکنامک کوآپریشن فورم نے سرحد پار تجارت کے اخراجات کو کم کرکے اور کاروباری اداروں کی مدد کرتے ہوئے ٹیکنالوجیز میں تعاون کو فروغ دے کر تجارت اور سرمایہ کاری کی لبرلائزیشن کے ذریعے ایک بڑھتی ہوئی اور خوشحال علاقائی معیشت تشکیل دی ہے۔ دوسری جانب ایپیک ترقی پذیر اور ترقی یافتہ اراکین کے درمیان فرق کو کم کرنے اور اے پی ای سی کے 21 ارکان میں سرمایہ کاری کے ماحول کو بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کرتا ہے جو دنیا کی جی ڈی پی کا تقریبا 50 فیصد پیدا کرتے ہیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن کے لیے بھی چین کے بارے میں واشنگٹن کی محدود تجارتی اور اقتصادی پالیسیوں اور کشیدگی کو کم کرنے اور امریکہ چین تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے چینی رہنما کے ساتھ ملاقات ضروری ہے کیوں کہ سان فرانسسکو میں ایپیک اجلاس کی کامیابی کے لئے وہ یقیناٍ اے پی ای سی کے ارکان کی حمایت حاصل کرنے کے خواہاں ہوں گے ۔
موجودہ حالات میں ایپیک کے ارکان امریکہ اور چین دونوں کے ساتھ تجارت کرنا چاہیں گے ۔ وہ نہیں چاہیں گے کہ دنیا کی دو بڑی معیشتوں اور فوجی طاقتوں کے درمیان اقتصادی اور ٹیکنالوجیکل محاذ آرائی میں فریق منتخب کرنے پر مجبور ہوں ۔
چین نے اس بات کا اعادہ کیا کہ امریکہ کے ساتھ اس کا اقتصادی تعاون انتہائی معاون ہے ۔چین کی وزارت تجارت کے ترجمان نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا کہ دوطرفہ اقتصادی اور تجارتی تعاون دونوں ممالک اور ان کے عوام کے بنیادی مفاد میں ہے اور یہ عالمی معیشت کی بحالی کے لیے بھی سازگار ہے۔
دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتیں اگر طویل عرصے تک تجارتی محاذ آرائی میں الجھی رہیں گی تو اس سے نہ صرف دونوں ممالک کی بلکہ عالمی معیشت کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا ۔ تعلقات کی بحالی کی حالیہ کوششیں ایک بار پھر یہ ثابت کرتی ہیں کہ بات چیت اور ایک دوسرے کے باہمی مفادات کا احترام ہی وہ طریقہ کار ہے جس کی بدولت عالمی سلامتی اور عالمی معیشت کے بڑھتے خدشات کو کم کیا جا سکتا ہے۔چین اور امریکہ جیسی دو بڑی معیشتوں کے ہموار تعلقات یقینا دنیا کے لیے خوش آئند ہوں گے ۔
=================

https://www.youtube.com/watch?v=ak0DHASC