ترکیہ کے فرض شناس ڈرائیور آرٹیمس مندر صدیوں سے اہم ترین کردار رہا۔(76) اقتباس۔ “اسلامبول سے استنبول”

ترکیہ کے ریجن کوش آداسی کے اس قدیم شہر ایفیسس کے صدر دروازے کے باہر پارکنگ ایریا میں ڈرائیور نے بریک لگائی اور اعلان کیا جلد اترنے کی کوشش کریں، زیادہ دیر گاڑی کو یہاں کھڑا نہیں رکھا جا سکتا۔ ہمیں بار بار کی ہدایات پر غصہ تو آیا کہ یہ ہماری آزادی پر قدغن ہے۔ ڈرائیور کو ہم نے خدمت کے لیے لیا ہے یا احکامات سننے کے لیے۔ لیکن گاڑی سے اتر کر دیکھا کہ اتنی دیر میں ہماری گاڑی کے پیچھے کئی گاڑیاں کھڑی ہو چکی ہیں۔ جب کہ پارکنگ ایریا پہلے سے گاڑیوں سے بھرا ہوا ہے۔ ہماری گاڑی آگئیں بڑھے گی تو دوسری گاڑیاں پارکنگ ایریا میں داخل ہوں گی ورنہ شاہراہ پر ہی کھڑی رہیں گی۔ ترکیہ میں سڑک پر گاڑی کھڑا کرنا سنگین جرم تصور کیا جاتا ہے۔ لہذا ڈرائیور بھی پائلٹ کی طرح گاڑی کو سڑک پر ہی گھوماتے رہتے ہیں جیسے کہ رن وے پر جگہ نہ ملنے کے باعث پائلٹ فضاء میں چکر لگاتا ہے۔ ڈرائیور ذمہ دار فرض شناس اور ریاستی قوانین کا احترام کرنے والا نہ ہو تو معلوم نہیں کتنے ڈرائیوروں کے چلان اور کتنے کے لائسنس کینسل ہو جائیں اور کتنے بے چارے غیر ضروری سڑکوں کی دھول چھانتے رییں۔ ہمیں اس وقت اندازہ ہوا کہ ہمارا ڈرائیور پارکنگ میں گاڑی سے جلد اترنے کا جو اعلان کرتا ہے اور ہمارا پاوں زمین پر لگنے کے ساتھ ہی ہوا کے گھوڑے پر سوار ہو جاتا ہے، اس کے پیچھے اس کا احساس ذمہ داری ہے کہ میں جلد پارکنگ خالی کروں تو دوسرا آئے۔ بے شک ہر فرد کا احساس ذمہ داری ہی قوموں کو ترقی اور افراد کے لیے راحت کا باعث بنتا ہے۔ اس موقع پر میں اپنے ملکی ڈرائیوروں کی کوئی مثال یا ان کے رویے پر تبصرہ نہیں کروں گا، لیکن یہ ضرور کہاوں گا کہ ترکیہ کا ڈرائیور بھی غیر ذمہ داری یا لاپروائی دیکھائے تو ڈرائیور کو قانون گرفت میں نہیں لے سکتا، اس کے پاس بچنے کے گئی بہانے ہیں۔ لیکن ملکی نقصان کتنا ہو، دیگر ڈرائیور کتنے کھجل خوار ہوں اور آنے والے سیاحوں کا وقت کتنا ضائع ہو، اس پر تبصرہ نہیں کرتے، البتہ اس دن کے بعد ڈرائیور کی بر بات کو ہم نے من و عن مانا اور اسی طرح عمل کرتے رہے جیسے وہ کہتا رہا۔ پارکنگ سے دروازے تک پیدل گئے گو کہ فاصلہ اتنا زیادہ نہیں مگر دھوپ تیز اور دروازے پر ہجوم ہے۔ اس صورت حال میں ایفیسس میں جلد داخلہ کی امید دم توڑ گئی۔ ہمیں لگا کہ کافی دیر ترکیہ کی دھوپ سہنی پڑے گی لیکن اچانک انتظامیہ نے دیگر بند دروازے بھی کھول دئے اور تیزی سے ہجوم چھٹنے لگا۔ جب تک ہم بیریل تک پہنچتےطیبہ متین داخلہ ٹکٹ ترک گائیڈ کے حوالے کر چکی تھی جس نے گنتی کر کے ٹکٹ گیٹ کیپر کو تھمائے۔ وردی میں ملبوس چاک و چوبند جوان ایک، ایک ٹکٹ خود کار مشین کو دیکھاتا، ٹکٹ سونگھتے ہی مشین بیریل ہٹاتی اور ہم دنیا کے سات میں سے ایک عجوبہ میں داخل ہوتے جاتے۔ جو دنیا کا قدیم شہر ایفیسس ہے۔ اب میرے سامنے قدیم یونانی شہر کے کھنڈرات ہیں جس کے قیام کے بارے میں متضاد آراء پائی جاتی ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ اس شہر کا پہلا پتھر 6000 قبل مسیح میں رکھا گیا۔ غالب رائے یہی ہے کہ یونانیIonian شہزادے Androclus ( اینڈروکلس) نے 11ویں صدی قبل مسیح میں اس شہر کو قائم کیا۔ لیکن تاریخ کا ابتدائی حصہ دھندلا ہے۔ البتہ یہ بات تو وثوق سے کئی جاتی ہے کہ 7ویں صدی قبل مسیح میں ایفیسس پر مغربی اناطولیہ کے یونانی بادشاہوں کی حکومت کے واقعات تاریخ میں واضح طور پر ملتے ہیں۔ کروسس کے حکم سے تعمیر کیا گیا آرٹیمس مندر صدیوں سے اس شہر کا اہم ترین کردار رہا، جو آج بھی اس شہر کی شہرت کو دوام بخشتا ہے اور دنیا کے سات عجابات میں سے ایک ہے۔ ایفیسس پر حکومت کرنے والوں میں یونانی شہزادوں کے علاوہ فارسی، سکندر اعظم ، مصری، سلجوقی اور رومی بھی شامل رہے، لیکن جو کچھ آج نظر آرہا ہے اس میں سے زیادہ تر کام یونانیوں اور رومن دور کا ہے۔ جو 600 سال قبل مسیح سے تیسری صدی عیسوی تک جاری رہا۔ قبل مسیح ہی میں پہلے رومی شہنشاہ آگسٹس نے نہ صرف اس شہر کی تعمیر نو کی بلکہ شہر کی آبادی میں ڈرامائی اضافہ کیا اور اسے ایشیائی مائنر کا دارالحکومت قرار دیا گیا۔ یونانیوں کی ایشیا میں باضابطہ حکومت کرنے کی یہ پہلی انٹری تھی۔ یہ اس شہر کا عروج کا زمانہ ہے جس میں آبادی 400،000 افراد تک پہنچ گئی۔ پہلی اور دوسری صدی عیسوی تک، اس شہر نے اتنے وسائل اور طاقت مجتمع کر لی تھی کہ رومیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ادھر پھٹکنے تک نہیں دیا۔ گردش دوراں کا شکار ہو کر کئی دوسری تہذیبوں کی طرح بلآخر یہ عظیم الشان بندرگائی شہر زمین میں دفن، کیا ہوا سمندر روٹھ کر پانچ میل دور چلا گیا۔ جب کھودا گیا تو یہ کھنڈرات برآمد ہوئے جن کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ان کی ہر، ہر چیز بولتی ہے اور کسی زمانے کے عظیم شہر کی یہ باقیات آج بھی سنہرے دور کی ایک شاندار کہانی سناتی ہے۔ یہاں جس طرف دیکھیں ہر طرف ایک کہانی ایک داستان ہے۔ شہر کا اگواڑا، داخلی دروازہ، حفاظتی دیوار، سفید مرمر کے پتھر کی سڑکیں اور گلیاں، لائبریری، اسپتال، تھیٹر اور مندر و چرچ اورچدیگر کئی نشانات، تین ہزار سال کے بعد بھی چمکتے ہیں۔ بڑی لائبریری بہت بڑا ایمی تھیٹر اور ساری تہذیب و تعمیر کا اگواڑا دیکھ سکتے ہیں جو اپنی مثال آپ ہے۔ یہ سب کہانیاں ہیں، یہی بحیرہ روم اور بحیرہ ایجیئن کی تہذیبوں کی صدیوں پرانی تاریخ ہے۔ تب ہی 2015 کو اس اجڑے شہر کو یونیسکو نے عالمی ثقافتی ورثہ کی فہرست میں شامل کیا۔ کھنڈرات کا علاقہ اتنا وسیع ہے کہ ایک وقت یا ایک دن میں سمجھ کر دیکھنا مشکل ہے۔ ہمارا گائیڈ تو ابتداء سے انتہاء سب کچھ دیکھانے اور سمجھانے پر مضر ہے۔ خود تو چھتری اوڑے تہذیب کی واقف کاری کا بھرم جھاڑ رہا ہے۔ ایسی شیخیاں کہ یہ چیز یہاں تھی اور یہ پتھر وہاں لگا ہوا تھا جیسے اس بستی کی تعمیر کے وقت وہ چیف میونسپل انجینئر یا آرکیٹیکٹ تھا۔ ہم تھے کے بچارے دھوپ اورشدید گرمی میں پیاسے اور پسینے سے شرابور۔ اس پر طرہ یہ کہ پانی بھی نہیں مل رہا تھا کہ گلا گیلا کر لیں، ہمیں کیا معلوم تھا ایفیسس کی تہذیب کے کھنڈرات میلوں پر پھیلے ہوئے ہی۔ ورنہ پانی کی دو چار بوتلیں ہی ساتھ کے آتے۔ بیریل عبور کر کے اندر داخل ہوئے تو سامنے ایک وسیع و کشادہ میدان میں پھتر اور کھنڈرات پھیلے ہوئے پائے، جس کے ساتھ ہی پہاڑی سلسلہ شروع ہوتا ہے اور کچھ عمارتوں کے کھنڈرات ان پہاڑوں میں بھی ہیں ہمارے ذہن میں تھا کہ ایفیسس کا شہر یہی پہاڑ کے دامن میں تھوڑا سا میدانی علاقہ پر جو پھلا ہوا ملبہ ہے یہی ہو گا۔ قدیم زمانے میں تو قعلوں کے اندر ہی شہر آباد ہوتے تھے۔ اس میدان میں کچھ عمارتوں کا ملبہ ہمارے سامنے بکھرا پڑا ہے۔ لیکن گائیڈ صاحب ہمیں شہر کے اگواڑے کے بڑے دروازے سے داخل ہونے کے بعد ایک طرف لے گئے جہاں درخت کے سائے میں دیوار پر ایفیسس کا نقشہ طبع ہے۔ اس نقشے کی مدد سے لگ بھگ بیس منٹ تک دماغ خوری کرتا رہا۔ مجھے محسوس ہوا کہ یہ شخص جو خود کو ماہرین ایفیسس میں شمار کرتا ہے سطحی گفتگو کر رہا ہے۔ میں تو ایک سائیڈ پر کھنڈرات کی تصویریں اور مووی بنانے کے لیے پہاڑ کے دامن میں چلا گیا جو داخلے کے دروازے کی دائیں سمت پر ہے۔ کھنڈرات دیکھتے مجھے ایک اور عجوبہ پر نظر پڑی جو پہاڑ کاٹ کر تعمیر کیا گیا۔ وہ ہے تھیٹر یا اسٹیڈیم، پہلی صدی عیسوی میں تعمیر ہوا۔ لیکن 19 سو سال بعد بھی اس حالت میں ہے کہ معمولی اخراجات سے قابل استعمال ہو سکتا ہے۔ پہاڑ کو کاٹ تراش کر آڈیٹوریم کی شکل دی گئی اس میں کوئی تعمیرات نہیں بلکہ سٹیڈیم کاٹے ہوئے پہاڑ کا ایک ہی ٹکڑا ہے۔ پہاڑ کو سیڑھیوں کی شکل میں کاٹ کر اس کو تھیٹر کا روپ دیا گیا۔ 38 میٹر بلند تھیٹر میں 25 ہزار تماشائیوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ امیروں کے لیے الگ نشستیں ہیں جن کی پشت پر سنگ مرمر لگایا گیا۔ یہ سٹیڈیم بنایا تو صرف کھیل کود اور جسمانی ورزش کے لیے تھا، لیکن تیسری اور چوتھی صدی کے بعد یہاں دیگر سرگرمیاں بھی کی گئیں، جن میں تقریبات جانوروں کی لڑائیاں اور جنگجو کے درمیان مقابلے وغیر شامل ہیں ۔ سب سے زیادہ جس خطرے ناک رسم کو یہاں شروع کیا گیا، وہ مجرموں کو بھوکے شیروں کے آگے پھینکنا تھا۔ جب کہ عیسائیت قبول کرنے سے پہلے رومن حکمران عیسائیوں کو سزائے موت بھی یہاں ہی دیتے تھے، جس کے لیے باقاعدہ ایک چبوترا تعمیر کیا گیا۔ لیکن 413ء میں رومنوں نے عیسائیت کو سرکاری مذہب قبول کیا تو اس چبوترے کو ختم اور اس کی جگہ یادگار گیٹ تعمیر ہوا جو عیسائیت پر ظلم کے خاتمے کے طور پر یاد رکھا جاتا تھا۔گرینڈ تھیٹر ایفیسس کے اگواڑے اور ماربل اسٹریٹ کے آخر میں واقع ہے ، یہ قدیم دنیا کا سب سے بڑا کھلا ہوا ایمی تھیٹر ہے جس میں اس وقت پچیس ہزار افراد کے بیٹھنے کی گنجائش رکھی گئی۔ تین منزلہ اسٹیج کی عمارت مکمل طور پر تباہ ہوگئی جس کے صرف آثار بتاتے ہیں کہ یہ واقعی شاہکار تھا۔
======================

https://www.youtube.com/watch?v=ak0DHASC