چین اور ہنگری تعلقات میں نیا باب صدر شی کا دورہ ہنگری

تحریر: زبیر بشیر
دو ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کی نوعیت خاصی پیچیدہ ہوتی ہے۔ ان تعلقات کا اندازہ مشترکہ امنگوں، باہمی مفادات اور تزویراتی تعاون کی مدد سے لگایا جاتا ہے ۔ چین اور ہنگری کے معاملے میں، یہ متحرک پارٹنرشپ کئی دہائیوں کی محنت کا نتیجہ ہے ، جس میں اہم سنگ میل اور مختلف شعبوں میں تعاون پر مبنی منصوبوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔ اقتصادی تعاون سے لے کر ثقافتی تبادلے تک، ان دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعامل جغرافیائی حدود سے ماورا ہے، جو اعتماد، باہمی احترام اور خوشحال مستقبل کے لیے مشترکہ وژن پر مبنی ہم آہنگی کی عکاسی کرتا ہے۔
نو مئ کو ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر اوربان نے چائنا میڈیا گروپ کو دئے گئے خصوصی انٹرویو میں چینی صدر شی جن پھنگ کے دورہ ہنگری کو تاریخی قراردے دیا۔ دورے کے دوران دونوں ممالک کے رہنماؤں نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا جس میں چین ہنگری تعلقات کو جامع اسٹریٹجک شراکت داری سے نئے دور میں چار موسموں کی جامع اسٹریٹجک شراکت داری میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا گیا۔ اس کے علاوہ فریقین نے تعاون کی 10 سے زائد دستاویزات پر بھی دستخط کیے جس سے مستقبل میں دوطرفہ تعاون کو نئی قوت محرکہ ملے گی۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس اپ گریڈ کا مطلب یہ ہے کہ چین اور ہنگری سیاسی باہمی اعتماد، تزویراتی اتفاق رائے اور ہم آہنگی اور تعاون کے لحاظ سے نئی بلندیوں پر پہنچیں گے۔
رواں سال چین ہنگری سفارتی تعلقات کے قیام کی 75 ویں سالگرہ ہے۔موجودہ دورے کے دوران صدر شی جن پھنگ نے ہنگری کو اس کے قومی حالات کے مطابق ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے چین کی بھرپور حمایت کا اظہار کیا جبکہ ہنگری نے کہا کہ وہ بنیادی مفادات اور جائز حقوق کے تحفظ میں چین کی حمایت کرتا رہےگا اور ماضی، اس وقت اور مستقبل میں بھی ایک چین کے اصول پر سختی سے عمل پیرا رہےگا۔ اس سے فریقین کے درمیان سیاسی باہمی اعتماد کو تقویت ملے گی۔ چین یورپ سے باہر ہنگری کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ حالیہ برسوں میں دونوں ممالک کے درمیان نئی توانائی کے شعبے میں تعاون خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ جیسا کہ ہنگری کے وزیر خارجہ سزجرتو نے کہا کہ ہنگری اور چین کے درمیان تعاون ثابت کرتا ہے کہ چین یورپی ممالک کے لئے ترقی کے زبردست مواقع پیش کرتا ہے.
فی الحال ، ہنگری -سربیا ریلوے کا ہنگری سیکشن مکمل ٹریک بچھانے کے مرحلے میں داخل ہوگیا ہے ، جو وسطی اور مشرقی یورپ میں نقل و حمل کے مرکز کے طور پر ہنگری کی پوزیشن کو مزید مستحکم کرے گا۔ وزیر اعظم اوربان کا ماننا ہے کہ ہنگری میں بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کی کامیابیاں پورے یورپ میں بے مثال ہیں، جس سے ہنگری میں ہزاروں ملازمتیں اور معاشی خوشحالی آئی ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اوربان نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ نام نہاد “حد سے زیادہ پیداوار” یا “ڈی رسکنگ” سمیت دیگر بیانات سے متفق نہیں ہیں، ان کا ماننا ہے کہ چین کی ترقی یورپ کے لئے خطرے کے بجائے موقع ہے. چین اور ہنگری کے تعلقات، جو “سنہری آبی گزرگاہ میں داخل ہوئے ہیں” نے نئے مواقع پیدا کیے ہیں۔
ہنگری کے تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ صدر شی جن پھنگ کا ہنگری کا سرکاری دورہ ،چین اور ہنگری کے تعلقات کی ترقی کے لیے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔عمومی رائے ہے کہ اس دورے سے دونوں ممالک کے درمیان دوستی کی ایک نئی داستان رقم ہوگی اور تعاون کا ایک نیا باب لکھا جائے گا جس میں عالمی امن ، ترقی اور انصاف کا فروغ ہو گا ۔
چین میں ہنگری کے سابق سفیر کوشوئے سینڈور نے کہا کہ صدر شی کا ہنگری کا دورہ ایک تاریخی دورہ ہے جو اقتصادی، سیاسی، ثقافتی اور دیگر شعبوں میں مفید نتائج حاصل کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ دورہ چین اور ہنگری کے درمیان قریبی تعاون کو بھی ظاہر کرتا ہے جو تیزی سے ترقی کرے گا اور چین اور ہنگری کا مستقبل بہت روشن ہوگا۔
ہنگری میں لِیزٹ کنزرویٹری میں پیانو کے پروفیسر بارانیا نے کہا کہ ہم صدر شی جن پھنگ کے دورے پر بہت خوش ہیں، اگر ہم صدر شی جن پھنگ کی تجویز کے مطابق مزید ثقافت اور خیالات کا تبادلہ کریں گے ، تو اس سے دونوں ممالک کے عوام کو مزید فائدہ ہوگا۔
ہنگری چائنا فرینڈ شپ ایسوسی ایشن کی چیئرپرسن ناگی جوڈٹ نے مقامی وقت کے مطابق نو تاریخ کو چائنا میڈیا گروپ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ صدر شی جن پھنگ کا دورہ، چین-ہنگری تعلقات کی تاریخ میں ایک بہت اہم سنگ میل ہے اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات تاریخ کے بہترین دور میں داخل ہو چکے ہیں۔
صدر شی کے حالیہ دورے کے دوران چین اور ہنگری کے رہنماؤں نے چین-ہنگری تعلقات کو نئے عہد میں چاروں موسموں اور جامع تزویراتی شراکت دارانہ تعلقات تک اپ گریڈ کرنے کا اعلان کیا۔ اس حوالے سے ہنگری چائنا فرینڈ شپ ایسوسی ایشن کی چیئرپرسن ناگی جوڈٹ کا خیال ہے کہ اس دورے سے نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان سفارتی اور سیاسی تعلقات مضبوط ہوں گے بلکہ اقتصادی، تجارتی اور ثقافتی تعلقات پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔