ایک تہذیب کا عبرت ناک انجام۔ ہیراپولس کا خزانہ(69) “اسلامبول سے استنبول” سے اقتباس

دنیا بھر سے آئے ہوئے ہزاروں لاکھوں لوگ اس کھردرے پہاڑ کے رنگ برنگے جوہڑوں میں پاؤں اتارتے، ہیں یا چلتے پھرتے نیچے دور وادی تک چلے جاتے ہیں۔ یادگار اور ریکارڈ کے لیے سیلفی لیتے ہیں، لیکن وہ انتہائی اہم معلومات، ایک تہذیب کا عبرت ناک انجام اور ہیریٹج دیکھنا ضائع کر رہے ہوتے ہیں۔ جن کو دراصل اس کے پس منظر کا ہی پتا نہیں ہوتا کہ پاموکالے کے ساتھ ہیراپولس کا خزانہ بھی چھپا ہوا ہے۔ وہ صرف ظاہری خوب صورتی کو دیکھتے ہیں کیونکہ پاموکالے کا پہاڑ سفید ہے اور اس سفیدی کے اوپر گرم مگر نیلا پانی بہتا ہے، کبھی وہ آبشار کی شکل اختیار کرتا ہے کبھی پرنالوں کی صورت میں گرتا ہے اور کبھی قدرتی جوہڑوں میں ایسا ساکت کھڑا، لگتا ہے کہ حوض میں جمع کیا گیا ہو۔ نئے آنے والے افراد پانی کی انہی بھول بھلیوں میں گم اور خوش ہوتے رہتے ہیں، جب جی بھرتا ہے سواری میں بیٹھ کر رفو چکر ہوتے ہیں۔ وہ دیکھنا سمجھنا اور اس سے لطف اندوز ہونے سے ہی رہ جاتے ہیں کہ اسی پانی کے سر پر ایک اور خزانہ ہے اور وہ ہے قدیم شہر ہیراپولس کے آثار جو یہاں ہی سے شروع ہوتے ہیں جہاں ایک کپ کافی یا قہوہ کے چنا منا گلاس کا لطف لیا تھا۔ ہزاروں سال پرانے شہر کی دریافت کے بعد اسے عوام کے لیے کھول دیا گیا ہے اور اس میں سمجھ دار کو سمجھنے کے لیے بہت ساری نشانیاں ہیں۔ اب یہ پرسکون مقام ہے جہاں سے چمکتا پانی بہتا ہے اور اس میں سے معدنیات کی جھاگ کی تہہ بُنتی ہے جس سے یہ پہاڑ سفید سے سفید تر ہوتا جاتا ہے۔ تاریخ کے طالب علموں اور ہیریٹج سے دلچسپی رکھنے والوں کو یاد ہو گا کہ ہیراپولس ایک عظیم شہر تھا جو دو صدی قبل مسیح میں اتالد بادشاہ نے قائم کیا۔ پھر 133ء میں رومن سلطنت نے اس گوہر نایاب پر قبضہ کر لیا۔یہ بھی ایک معمہ ہے کہ ایک بلند مقام پر قائم ہونے والا پختہ اور بھاری پتھروں کی کئی گز چوڑی دیوار کے حصار میں بند یہ شہر ختم کیسے ہوا۔ اس کے باسیوں کو تین سروں والی بلا کھا گئی جیسا کہ اس شہر کے حوالے سے مشہور ہے کہ زیر زمین تین سروں والی بلا اپنے خدا کے حکم پر ہر جاندار کو کھا جاتی تھی جو اس غار میں تعمیر کئے گئے مزار پر عبادت کی غرض سے جاتا۔ یہی مخلوق کی جانب سے جعلی خدا کے حضور دی جانے والی قربانی تھی۔ یا اس شہر کی تباہی و بربادی کا ساماں، زلزلے اور طوفان بنے جو وقفے وقفے سے اس سرزمین کو لپیٹ میں لیتے رہے۔ جب کہ اس وقت یہ ماڈرن اور پھیلتا پھولتا شہر تھا جہاں دنیا کی تمام جدید سہولتیں مہیا کی گئی تھیں۔ ایسے آثار تو نہیں ملتے کہ کسی بڑے جنگ جو اور جنگ آزما نے اسے تار تار کیا ہو، پھر یہ میلوں پھیلے پتھر، یہ دیواریں اور کسی بڑے شہر کے کھنڈرات اور آثار کیسے ہیں؟۔ اس کے کھنڈرات بتاتے ہیں کہ یہ ایک کامیاب شہر تھا جو ٹاون پلانگ کے تحت قائم ہوا۔ تراشے ہوئے بھاری پتھروں کی ایکڑوں میں پھیلی چار دیواری اس وقت کے سنگ تراشوں کی مہارت کو سلام کرتی ہے۔ شاندار آرچ گیٹ، سفید سنگ مرمر کے بڑے بڑے پتھروں پر نقش و نگار اور پھول پتے اور بیل بوٹوں کی کشیدہ کاری، مرکزی شاہراہ جدید ایمپی تھیٹر اور اس کا پیولین ایک وسیع و کشادہ اسٹیڈیم اور بہت ساری تعمیرات جو اس قوم کی ہنرمندی، تہذیب یافتہ اور معزز ہونے کی گواہی دیتی ہیں جس کا تہذیب و تمدن وسیع و کشادہ اور صاف ستھرا تھا، جس کے آثار ابھی بھی موجود ہیں اور ہزاروں سال بعد میں بھی رہیں گی۔ کیوں کہ ان کی تعمیر میں مقامی ٹراونٹین پتھر استعمال ہوا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ لوہے کی موت تو زنگ سے ہے لیکن اس پتھر کو موت بھی نہیں آتی۔ یہ پھتر سورج کی کرنوں سے چمکتا ہے تو پہاڑ اور نشیب میں رنق پھیل جاتی ہے جیسے وادی میں کپاس کے پودے پھول گئے ہوں۔ یہ پہاڑ روشنی کو جزب نہیں کرتا پھیلاتا ہے جو چیز پھیلتی ہو، وہ اپنا رنگ جماتی ہے۔ آج اس کی روشنی وادی پاموکالے تک ہی نہیں رہی دنیا پھر میں پھیل چکی، مغرب و مشرق، ایشیا و افریقہ، عرب و عجم سب ہی لوگ کشاں کشاں اس پہاڑ پر آتے ہیں کچھ دیر ٹھہر کر پانی میں پاوں ڈالتے ہیں یا چھوتے ہیں اور آگئیں بڑھ جاتے ہیں۔۔
==============================

https://www.youtube.com/watch?v=ak0DHASC