سندھ کی مدرٹریسا، ڈاکٹر بلقیس ملک

================

سارنگ لطیف چانڈیو
===========

لاڑکانہ شہر میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلی عمارت جونظر آتی ہے وہ ، شیخ زید وومن ہاسپٹل ہے، جو بالائی سندھ اور جنوبی پنجاب کی خواتین کے لیئے امید کی کرن ہے۔ یہ اسپتال لاڑکانہ ضلع سمیت پورے ڈویژن کی تقریبا 80لاکھ آبادی کو صحت کی سہولیات فراہم کرتا ہے۔ عورتوں کے علاج معالجے کے لیے دن رات مصروفِ عمل رہنے والے اسپتال کا سہرا ، ڈاکٹر بلقیس ملک کو جاتا ہے۔ بلقیس ملک لاڑکانہ میں خواتین کے امراض کی پہلی خاتون پروفیسر ڈاکٹر تھیں، انہوں نے اپنی آخری سانس تک لاڑکانہ کےعوام سے وفاداری نبھائی۔

چانڈکا میڈیکل کالج بننے کے بعد شہید ذوالفقار علی بھٹو نے بہت کوشش کی کہ کراچی یا حیدرآباد سے کوئی گائنی کالوجسٹ، لاڑکانہ آ کر اس ہسپتال کو سنبھالے لیکن کوئی بھی لیڈی ڈاکٹر یہاں آنے کے لیے تیار نہ ہوئی، اسی اسی دوران سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی بیگم اشرف عباسی نے اپنی کلاس فیلو، ڈاکٹر بلقیس ملک کی ملاقات شہید ذوالفقار علی بھٹو سے کروائی تو بھٹو صاحب نے ان سے کہا کہ، وہ اپنے شہر کے لیے ایسی مخلص ڈاکٹر کی تلاش میں ہیں جو اپنی زندگی غریب بیمار عورتوں کے علاج کے لیے وقف کر سکے۔ ڈاکٹر بلقیس سے ملاقات کے بعد ان کی خو اہش تھی کہ وہ چانڈکا ہسپتال کی گائنی شعبہ کی سربراہ بن جائیں۔ ڈاکٹر بلقیس نے بھٹو صاحب کی آفر قبول کرلی۔

انہوں نے نہایت جرأت اور حوصلے سے کام شروع کیا،21 اپریل 1973ء کو اس وقت کے وزیراعلیٰ غلام مصطفیٰ جتوئی اور صحت کے صوبائی وزیر عبدالوحید کٹپر نے چانڈکا میڈیکل کالج کا افتتاح کیا، اس کے فوری بعد ہی شہید بھٹو لاڑکانہ دورے پر آئےتو انہوں نے ڈاکٹر بلقیس سے لاڑکانہ اور رحیم یار خان میں عورتوں کے لیئے ایک جدید طرز پر مخصوص ہسپتال بنانے کا منصوبہ ڈسکس کیا ،جس کو بنانے کی ذمہ داری سلطان النہیان شیخ زید پہلے ہی اپنے سر لے چکے تھے ڈاکٹربلقیس نے شہید بھٹو کی موجودگی میں دبئی کے بادشاہ شیخ زید بن النھیان کو اس منصوبے کے بارے میں بریفنگ دی، جس کے بعد انہیں اس منصوبے کا انچارج بنا دیا گیا، انہوں نے جرات اور لگن کے ساتھ اس منصوبے کو سنبھالا ،اس دوران وہ گائنی شعبے کی بھی انچارج رہیں یعنی دوہری ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے نبھائیں۔

شیخ زید ہسپتال اس وقت صرف چار بیڈز پر مشتمل تھا، اب اس میں تمام جدید آلات اور جدید طرز پر آپریشن تھیٹر،کروڑوں روپے مالیت کا انفراسٹرکچر ، جدید طبی آلات و تربیت اور مریضوں کی دیکھ بھال کی سہولیات موجود ہیں۔ اب یہ اسٹیٹ آف دی آرٹ اسپتال بن گیا ہے، جس میں ہر سال لاکھوں عورتیں علاج کی سہولیات سے استفادہ حاصل کرتی ہیں۔ لاڑکانہ کے سینئر ڈاکٹرزکے مطابق، چانڈکا اسپتال کے گائنی وارڈ کو بنانے میں ڈاکٹر بلقیس اتنی مصروف رہتی تھیں کہ بسا اوقات گھر جانے کی بجائے اسپتال میں ہی ٹیبل پر سوجاتی تھیں۔ وہ کبھی حالات سے دلبرداشتہ نہ ہوئیں۔ انہوں نے نا ممکن کو ممکن بنایا۔ یہ ان کی محنت و لگن کا پھل ہے جو آج لوگ طبی سہولیات سے مستفید ہو رہی ہیں۔

ڈاکٹر بلقیس کولاڑکانہ سے اتنی انسیت ہوگئی تھی کہ پھر انہوں نے پلٹ کر اپنے آبائی شہر لاہور کو نہیں دیکھا،وہ بس یہیں کی ہو کر رہ گئیں۔ لاڑکانہ شہر کےعوام انہیں’’ اماں‘‘ کہہ کر مخاطب کرتےتھے۔ وہ واقعی اماں تھیں انہوں نے ایک ماں کی طرح اپنے مریضوں کا خیال رکھا، ان کے در ہمیشہ کھلے رہتے تھے، اس میں رات دن کی کوئی تفریق نہیں تھی۔20 فروری 1929ء کو کراچی میں پیدا ہونے والی بلقیس ملک سیالکوٹ کی معروف فیملی سے تعلق رکھتی تھیں، انہوں نے 1958ء میں ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی کراچی سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی، بعدازاں رائل میڈیکل کالج لندن سے ایف آر سی ایس کیا اور امریکا سے میڈیکل کے ایڈوانس کورس کرکے 1972ءمیں پاکستان واپس آئیں۔

پشاور میں جاری صحت کے پروجیکٹ میں بھی اپنی خدمات انجام دیں۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی بیماروں خصوصاً عورتوں کے علاج معالجے کے لیے وقف کردی، اس وجہ سے شادی نہیں کی، لاڑکانہ کو ہی اپنا مسکن بنا لیا ،یہاں آنے کے بعد کبھی اپنے شہر واپس نہیں گئیں، یہی وجہ ہے کہ انہیں لاڑکانہ کی’’ مدر ٹریسا‘‘ بھی کہا جاتاہے۔ چانڈکا کے استاد اور طالب علم انہیں استادوں کی استاد کہتے ہیں، کیوں کہ چانڈکا میڈیکل کالج بننے سے لیکر آج تک تقریباً سب سینئر ڈاکٹرکو انہوں نے ہی پڑھایا ہے، جو آج پروفیسر ہیں، ان کے پروفیسروں کی بھی ڈاکٹر بلقیس استاد تھیں۔

ان کا نام ڈبلیو ایچ او کی ٹاپ چارٹ لسٹ میں بہترین پاکستانی لیڈی ڈاکٹرز میں شامل ہے۔ انہوں نے حقیقی معنوں میں اپنی زندگی صحت اور خواتین کی تعلیم کے لیے وقف کر رکھی تھی۔وہ کہتی تھیں کہ وہ کسی کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتیں، ہمیشہ ضرورت مندوں کی مدد کی ،لوگوں کے لیے امید کی کرن تھیں جو کسی مطلب اور لالچ کے بغیر اپنے فرائض نبھاتی تھیں۔

معروف رائٹر و سوشل ورکر زوالفقار قادری لکھتے ہیں کہ جب سکھر سینٹرل جیل میں شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی طبیعت ناساز ہوئی تو انہوں نے جیل حکام کی طرف سے علاج کی آفر ٹھکرادی اور اس بات پر زور دیا کہ وہ صرف اور صرف ڈاکٹر بلقیس ملک کی تجویز کردہ دوا لیں گی اس کے بعد جیل حکام نے ڈاکٹر بلقیس ملک سے رابطہ کیا اور انہوں نے سکھر جیل کا دورہ کرکے شہید بے نظیر بھٹو کا علاج کیا۔2 جولائی 2023ءکو 92 سال کی عمر میں اس فانی دنیا سے رخصت ہوئیں۔ ان کے جانے سے آج شیخ زید ہسپتال کے ساتھ ساتھ لاڑکانہ بھی سوگوار ہے۔

اسپتال کا عملہ اپنے شعبے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کو بھر پور طریقے سے انجام دے رہا ہے ۔ آج بھی بیمار غریب عورتوں کے علاج معالجے میں مصروف ہے اور ڈاکٹر بلقیس کی میراث کو آگے لے کراپنے سفر پرگامزن ہے۔ ان کا جلایا گیا صحت کا چراغ ان کے ہونہار شاگرد بجھنے نہیں دیں گے۔ صحت اور خواتین کے امراض کے شعبے میں ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

ڈاکٹر بلقیس، شیخ زید اسپتال کے لیے کہتی تھیں کہ یہ میری نہیں بلکہ شہید ذوالفقارعلی بھٹو کی محنت کا پھل ہے، جنہوں نے اس کارخیر میں اپنا حصہ ڈالا، مجھے تو بس خدا نے اس کا ذریعہ بنایا ہے۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو کی عوام سے والہانہ محبت تھی جو انہوں نے خواتین کے لیے صحت جیسے پے چیدہ مسائل کو سنجیدگی سے لے کر ان کے لیے جدید طرزکے اسپتال کا قیام ممکن بنایا۔
https://jang.com.pk/news/1246634?_ga=2.175332322.1199909705.1675003164-1626058160.1644523881
=======================