سندھ کی تمام جامعات میں فوڈ لیب قائم کی جائیں گی

سندھ کی تمام جامعات میں فوڈ لیب قائم کی جائیں گی

=====================

سندھ کی تمام جامعات میں فوڈ لیب قائم کی جائیں گی

سندھ کی تمام جامعات میں فوڈ لیب قائم کی جائیں گی

======================

کراچی ( 21مئی (ڈائریکٹر جنرل سندھ فوڈ اتھارٹی آغا فخر حسین نے کہا ہے کہ صوبائی وزیر خوراک مکیش کمار چاؤلہ کی ہدایت پر سندھ بھر کی جامعات میں فوڈ لیب قائم کی جائیں گی اور صوبے میں کھانے پینے کی اشیاء کے معیار کو بہتر بنانے کیلئے سندھ فوڈ اتھارٹی تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کام کررہی ہے۔ یہ بات انہوں نے سندھ فوڈ اتھارٹی اور فوڈ سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی ڈیپارٹمنٹ کراچی یونیورسٹی کے درمیان یاداشت پر دستخط کرنے کی تقریب کے موقع پر کہی۔ اس موقع پر سندھ فوڈ اتھارٹی کے ڈائریکٹر ٹیکنیکل احمد علی، فوڈ سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ ڈاکٹر شاہینہ ناز، نیوٹریشن انٹرنیشنل کے صوبائی مینیجر معین قریشی اور دیگر افسران بھی موجود تھے۔اس یاداشث کا مقصد سندھ فوڈ اتھارٹی کے افسران و عملے کو فوڈ سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی ڈیپارٹمنٹ کی لیب تک رسائی دینا ہے تاکہ وہ بازار سے لیے گئے کھانے پینے کی اشیاء کے نمونوں کے معیار کو چیک کرسکے واضع رہے کہ اس لیب کے لیے نیوٹریشن انٹرنیشنل نے سندھ فوڈ اتھارٹی کو آلات دیے تھے جو سندھ فوڈ اتھارٹی نے فوڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ڈیپارٹمنٹ کے حوالے کیے۔ ڈائریکٹر جنرل آغا فخر حسین نے مزید کہا کے اس لیب کے قیام سے سندھ فوڈ اتھارٹی کی کارکردگی مزید بہتر ہوگی اور پہلے مرحلے میں کراچی یونیورسٹی میں یہ لیب قائم کی جارہی ہے جبکہ اگلے مرحلے میں سندھ کی دیگر جامعات میں اسی طرز پر لیبارٹریز قائم کی جائینگی اُنہوں نے نیوٹریشن انٹرنیشنل اور فوڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ڈیپارٹمنٹ کی انتظامیہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے صوبے میں کھانے پینے کی اشیاء کے معیار کو بہتر بنانے میں انکے کردار کو سراہا۔ اس موقع پر ڈاکٹر شاہینہ ناز، معین قریشی اور احمد علی نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
=======================
وفاقی حکومت کی جانب سے سبسڈی میں کمی پر غور کے باعث گیس مزید مہنگی ہونے کا امکان پیدا ہوگیا۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق وزارت توانائی نے آئندہ بجٹ میں گیس سبسڈی کی مد میں 230 بلین روپے مختص کرنے کی درخواست کی تاہم حکومت گیس سیکٹر کیلیے 76 بلین روپے کی سبسڈی رکھنے پر غور کر رہی ہے، وزارت توانائی نے خیبر پختونخواہ اور پنجاب کے گھریلو صارفین کو سبسڈی فراہم کرنے کیلیے ایل این جی پر 125 بلین روپے سبسڈی مختص کرنے کی سفارش کی تھی، جو کہ محض 25 بلین روپے مختص کی گئی ہے۔
رپورٹ میں ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ وزارت خزانہ نے گھریلو صارفین کیلیے صرف 30 بلین روپے کی سبسڈی مختص کی ہے، وزارت توانائی نے ایکسچینج ریٹ لاسز کی مد میں 10 بلین روپے سبسڈی کی درخواست کی تھی لیکن اس مد میں کوئی سبسڈی نہیں رکھی گئی ہے، جس کے بعد امکان ہے کہ حکومت ان نقصانات کا ازالہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھا کر کرے گی۔

اسی طرح حکومت نے آر ایل این جی گیس پر کوئی سبسڈی مختص نہیں کی جب کہ وزارت توانائی نے اس مد میں 50 بلین روپے کی سبسڈی کی سفارش کی تھی تاکہ ایکسپورٹرز کو رعایت دی جاسکے، ایکسپورٹرز کی جانب سے حکومت پر فیصلے میں تبدیلی کے لیے دباؤ ڈالا جارہا ہے، رواں مالی سال کے لیے حکومت نے ایکسپورٹرز کو سبسڈی فراہمی کیلیے 40 بلین روپے مختص کیے تھے، جو کہ استعمال ہوچکے ہیں۔

ذرائع کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ حکومت نے سبسڈی کا یہ تخمینہ اس مفروضے کے تحت لگایا ہے کہ او گرا بروقت گیس کی ویٹڈ ایوریج کوسٹ کا تعین کرے گا لیکن اگر اوگرا ایسا کرنے میں ناکام رہا تو گیس سیکٹر کے سرکولر ڈیبٹ میں مزید اضافہ ہوجائے گا، جیسا کہ گزشہ مالی سال کے دوران یہ 1.6 ٹریلین سے تجاوز کرگیا تھا، حکومت نے حال ہی میں گیس سیکٹر کا ڈیبٹ ختم کرنے کے لیے گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے لیکن عملدرآمد میں تاخیر کی وجہ سے ڈیبٹ میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
===========================

صوبہ پنجاب کے شہر فیصل آباد میں اوباش افراد نے ملازمت دلوانے کا جھانسہ دے کر اور سبز باغ دکھا کر دو لڑکیوں کو بے آبرو کر دیا جب کہ ماں بیٹی سمیت 6خواتین کو اغواء کر کے لے گئے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق متاثرہ نوشین کوثر نے کوتوالی پولیس کو بتایا کہ اوباش ملزمان لیاقت اور سجاد وغیرہ نے کام پر رکھنے کا جھانسہ دے کر بھوآنہ بازار بلوایا اور گاڑی میں بیٹھا کر نامعلوم مقام پر لے جا کر باری باری زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا، 499 گ ب کے رہائشی حق نواز کی جواں سالہ بیٹی کو ملزمان کاشف وغیرہ نے اغواء کرکے ہوس کا نشانہ بنایا، ٹھیکری والا کے علاقہ 38 ج ب میں جاوید کی بیوی اور بیٹی کو اغواء کر لیا گیا۔
دوسری طرف نوشہرہ میں بچی سے زیادتی اور قتل کا مجرم انجام کو پہنچا‘ جس کو عدالت نے پھانسی کی سزا سنادی، نوشہرہ کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج چائلڈ پروٹیکشن کورٹ نے 9 سالہ معصوم بچی مناہل قتل کیس کا فیصلہ سنا دیا، جس میں عدالت نے ملزم یاسر پر جرم ثابت ہونے پر 2 بار پھانسی اور مجموعی طور پر 40 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے، جرمانے کی عدم ادائیگی کی صورت میں ملزم کے ریونیو ریکارڈ اور دیگر اثاثے متاثرہ خاندان کو دینے کا حکم دیا گیا ہے۔

بتایا گیا ہے کہ کہ مجرم یاسر نے 28 دسمبر 2018ء کو نوشہرہ کے علاقے نواں کلی قبرستان میں 9 سالہ بچی مناہل کو جنسی زیادتی کے بعد بہیمانہ طریقے سے سر پر پتھر مار کر قتل کردیا تھا، ساڑھے 4 سال تک اس مقدمے کے ٹرائل جاری رہا، ملزم نے پولیس کے سامنے اور عدالت میں بھی اپنے جرم کا اعتراف کیا۔ یہ دلخراش واقع اس وقت پیش آیا جب مناہل دختر شاہ سید گھر سے قران کا سبق پڑھنے مدرسے گئی اور پھر گھر واپس نہ آئی، پولیس نے واقعے کے شواہد اکھٹے کیے، ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد ملزم کا سراغ لگایا جس کے نتیجے میں ملزم یاسر کو گرفتار کیا گیا۔
ادھر نادرا نے بچوں اور خواتین کے خلاف جنسی جرائم کرنے والوں شناخت کی نئی سہولت متعارف کرا دی، نادرا کی جانب سے جنسی مجرموں کی قومی رجسٹری تیار کرلی گئی، اس سلسلہ میں ایس ایم ایس کے ذریعے تصدیق کی سہولت بھی فراہم کی جا رہی ہے، جنسی جرائم میں سزا یافتہ افراد کی ڈیٹا سے شناخت اور ٹریکنگ کی جا سکے گی۔ چیئرمین نادرا طارق ملک نے کہا ہے کہ سہولت کا مقصد جنسی تشدد کی روک تھام کیلئے اداروں کو ایک بہترین پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے، ملازم رکھنے والے اداروں اور محکموں کو تصدیقی ایس ایم ایس کے ذریعے خبردار کر دیا جائے گا، شہری گھر، مسجد، کالج، یونیورسٹی میں ملازم رکھنے سے پہلے تسلی کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ شناختی کارڈ نمبر شارٹ کوڈ 7000 پر ایس ایم ایس سے تصدیق کی جا سکتی ہے، ریکارڈ یافتہ شخص کا شناختی کارڈ نمبر بھیجنے پر جو جواب موصول ہو گا وہ کچھ اس قسم کا ہوگا کہ “نام اور ولدیت، خبردار! یہ شخص ایک مجرم ہے، اسے بچوں کے قریب جانے کی اجازت نہ دی جائے”۔

===================================

امریکہ کی وسکونسن یونیورسٹی میں افغانستان کے سابق صدارتی ترجمان نجیب آزاد اور ان کی اہلیہ ثروت نجیب کی کوششوں سے پشتو کے روایتی اتنڑ ڈانس کو یونیورسٹی کے رقص کے شعبے میں بطور کورس متعارف کروا دیا گیا ہے۔

افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد نجیب آزاد اپنی اہلیہ سمیت ملک چھوڑ کر امریکہ چلے گئے تھے، جہاں اب وہ وسکونسن یونیورسٹی کے پولیٹیکل سائنس کے شعبے میں پڑھا رہے ہیں۔

اتنڑ ڈانس پشتو کا روایتی رقص ہے، جو شادی بیاہ سمیت ماضی میں جنگوں میں فوجی جوانوں کے جذبے کو ابھارنے کے لیے کیا جاتا تھا۔ اسے افغانستان کا قومی ڈانس بھی سمجھا جاتا ہے، جس کے لیے باقاعدہ پریکٹس اور مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔

نجیب آزاد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کورس متعارف کرنے کے پیچھے کہانی یہ ہے کہ یونیورسٹی کے فائن آرٹس کے شعبے میں ڈانس کے حوالے سے ایک تقریب منعقد ہوئی تھی، جس میں انڈیا کے کلاسیکل ڈانس اور مصر کے بیلی ڈانس سمیت مختلف ثقافتوں کے ڈانس پرفارم ہوئے۔

انہوں نے بتایا: ’اسی دوران ہم نے وہاں کے پروفیسرز کے ساتھ اتنڑ ڈانس کے بارے میں بات کی اور اس کی کچھ تاریخ بھی انہیں بتائی اور ان کو یہ بات پسند آگئی۔‘

نجیب آزاد کے مطابق بعد میں اتنڑ کو شعبے کے ڈانس کورس میں شامل کیا گیا۔ اس شعبے میں دو سو تک طلبہ ہیں اور سارے اب یہ ڈانس سیکھ رہے ہیں۔

ڈانس سکھانے والوں کے حوالے سے نجیب آزاد نے بتایا کہ ان کی اہلیہ خود بھی گرافکس اینڈ فیشن ڈیزائنر ہیں اور انہوں نے اس ڈانس کی تحقیق میں شعبے کی مدد کی اور بعد میں اسے بطور کورس متعارف کروایا گیا۔

نجیب آزاد نے بتایا: ’یہ چھ مہینے کا کورس ہے اور کورس مکمل کرنے کے بعد طلبہ اس ڈانس کو تحقیقی مقالے کے مضمون کے طور پر لے سکتے ہیں۔ ڈانس کے شعبے میں ہر ایک طالب علم اپنی مرضی کا ڈانس منتخب کرکے اس پر تحقیقی مقالہ لکھتا ہے۔‘

اتنڑ ڈانس کی تاریخ کیا ہے؟

اتنڑ ڈانس کو پشتون موسیقی کی روایت کا ایک اہم جزو سمجھا جاتا ہے اور زیادہ تر خوشی کے تہواروں، شادی بیاہ اور دیگر تقاریب میں یہ ڈانس کیا جاتا ہے، جسے جوانوں اور بزرگوں سمیت خواتین بھی پرفارم کرتی ہیں۔

خیبر پختونخوا کے قبائل میں شادیوں کی تقاریب میں علاقے کے مشران ایک گول دائرے میں کھڑے ہو کر ڈھول کی تھاپ پر اس ڈانس کو پرفارم کرتے ہیں اور باقی لوگوں کی جانب سے داد وصول کرتے ہیں۔ یہ وہاں کی شادیوں کا اہم جزو ہے۔

ریحان محمد کا تعلق ضلع کرم سے ہے۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہاں مشران اور نوجوانوں کی جانب سے اتنڑ ڈانس کو غلط نہیں سمجھا جاتا بلکہ اس کو وہاں کے کلچر کا حصہ سمجھتے ہیں اور خوشی کے موقعے پر باقاعدہ صبح کے وقت اتنڑ ڈانس کی تقریب منعقد کی جاتی
ریحان نے بتایا: ’مردوں کے علاوہ گھروں کے اندر شادی بیاہ کی تقریبات میں بھی خواتین ڈھول کی تاپ پر اتنڑ ڈانس پرفارم کرتی ہیں، جسے ضلع کرم کی مقامی زبان میں ’ببریرہ‘ کہا جاتا ہے۔‘

تاریخ دانوں کے مطابق اتنڑ ڈانس تقریباً دو ہزار سال پرانا ہے۔

اس رقص کی رفتار آغاز میں ہلکی ہوتی ہے لیکن ڈھول کی تاپ کے ساتھ ہی اس کی رفتار میں بھی تیزی آ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ہر ایک علاقے میں اتنڑ ڈانس مختلف طرح سے کیا جاتا ہے، مثلاً: وزیرستان، کرم اور دیگر اضلاع میں یہ ڈانس الگ الگ طریقے سے پرفارم کیا جاتا ہے۔

مختلف طریقے سے پرفارم کیے جانے کی وجہ سے اسے مختلف نام سے پکارا جاتا ہے جیسے محسودی اتنڑ، کابلی اتنڑ، وزیرستانی اتنڑ، خٹکی، ہیراتی، پکتیاکی، مزاری، شینواری، قندہاری، سستانی، پشائی اور نورستانی اتنڑ وغیرہ۔

سوئٹزرلینڈ میں سوئس ایجنسی فار ڈویلپمنٹ اینڈ کو آپریشن کے افغانستان کے رقص پر لکھے گئے تحقیقی مقالے کے مطابق اتنڑ ڈانس میں ایک ویرینٹ کو ’غبرگ‘ اتنڑ کہا جاتا ہے، جو مرد و خواتین دونوں ایک ساتھ پرفارم کرتے تھے۔

غبرگ اتنڑ میں مرد محبت کے گیت گاتے تھے اور رقص کرتے ہوئے خواتین محبت کے گیت کے ساتھ ہی اس کا جواب دیتی تھیں، لیکن اب اتنڑ ڈانس زیادہ تر مردوں تک ہی محدود ہوگیا ہے۔

اتنڑ ڈانس کا آغاز کب اور کہاں سے ہوا؟

سوئس ایجنسی کے تحقیقی مقالے کے مطابق اتنڑ ڈانس کی کڑی یونان سے ملتی ہے کیونکہ اتنڑ ہی کی قسم کا ڈانس یونانی دیوتا ڈیانائسس کے لیے ڈرامے میں پرفارم کیا گیا تھا۔ اس یونانی ڈرامے میں ڈانس کے سٹیپس اور میوزک اتن ڈانس ہی کی طرح ہیں۔

مقالے کے مطابق یہ ابھی واضح نہیں ہے کہ یہ ڈانس پھر یونان سے افغانستان کیسے منتقل ہوگیا تاہم تاریخ دان سمجھتے ہیں کہ اتنڑ کا لفظ’ athens‘ سے نکلا ہے جو یونانیوں کے ’عقل و دانش‘ کے دیوتا کا نام تھا۔

اس کے بعد افغانستان میں اتنڑ کی یونان سے منتقلی کی واضح تاریخ نہیں ہے لیکن افغانستان میں یہ آریائی قوم کے وقت سے متعارف ہوا ہے اور بعد میں افغانستان کے مختلف علاقوں میں پھیل گیا۔

اتنڑ ڈانس کے افغانستان کے قومی ڈانس کے حوالے سے مقالے میں لکھا گیا ہے کپ ’اس ڈانس میں استعمال ہونے والے سمبلز، سٹرکچر، ردھم میں پشتون قبائل کی نمائندگی ہوتی ہے لیکن قومی سطح پر اس میں ایسا کچھ نظر نہیں آتا کہ اس کو افغانستان کا قومی ڈانس قرار دیا جائے۔‘

اسی مقالےکے مطابق اتنڑ میں ایک خٹک اتنڑ بھی ہے، جس کو افغانستان کا روایتی اتنڑ ڈانس کہا جاتا ہے اور اس کی تاریخ تقریباً 2200 سال پرانی ہے، لیکن اس دعوے کے باقاعدہ طور پر تاریخی ثبوت موجود نہیں ہے۔ خٹک اتن کا بہت پرانا ویرینٹ سمجھا جاتا ہے، لیکن یہ اب پرفارم نہیں کیا جاتا۔

مقالے کے مطابق: ’خٹک ڈانس کو جنگجوؤں کا ڈانس بھی کہا جاتا ہے جس کو ابھی تک بعض لوگوں نے محفوظ کر رکھا ہے اور خصوصاً غیلزئی قبیلے کے لوگ اس ڈانس کو پرفارم کرتے ہیں۔ خٹک ڈانس کو مغلوں کے زمانے میں بھی پرفارم کیا جاتا تھا اور زیادہ تر اسے تلوار ہاتھ میں پکڑ کر پرفارم کیا جاتا ہے۔‘

اسی بارے میں: پشتون روایترقصڈانسافغانستانامریکہ