صوبائی سکریٹری کے بھتیجے نے خاتون وائس چانسلر کو ہراساں کیا اور دھمکیاں دیں۔

صوبائی سکریٹری کے بھتیجے نے خاتون وائس چانسلر کو ہراساں کیا اور دھمکیاں دیں۔

صوبائی سکریٹری کے بھتیجے نے خاتون وائس چانسلر کو ہراساں کیا اور دھمکیاں دیں۔

صوبائی سکریٹری کے بھتیجے نے خاتون وائس چانسلر کو ہراساں کیا اور دھمکیاں دیں۔
==============================

داؤد انجینئرننگ یونیورسٹی کے بعض ملازمین نے خاتون وائس چانسلر ڈاکٹر ثمرین حسین کی گاڑی کا گھیراؤ کر لیا اور یونیورسٹی سے باہر جانے نہیں دیا۔

جب ڈاکٹر ثمرین حسین نیچے اتریں تو ان کے ساتھ سخت بدتمیزی کی گئی اور کہا گیا کہ انہیں بحال کریں نہیں تو جانے نہیں دیں گے۔

ڈاکٹر ثمرین حسین کے مطابق انہیں بری طرح ہراساں کیا گیا ہے جس کی وہ پولیس میں ایف آئی آر درج کرائیں گی۔

انہوں نے بتایا کہ انہیں صوبائی سکریٹری رفیق برڑو کے بھتیجے جمیل برڑو نے ہراساں کیا اور دھمکیاں دیں۔

ڈاکٹر ثمرین کے مطابق میں ایک ماہ قبل ملازمین کی بحالی کی سمری وزیر اعلیٰ سندھ کو ارسال کرچکی ہوں مگر وہاں سے جواب ہی نہیں آیا۔
https://jang.com.pk/news/1223952
============================
پشاور: سرکاری و نجی تعلیمی ادارے 14 مئی تک بند رہیں گے، اعلامیہ
پشاور میں میٹرک کے جاری امتحانات بھی ملتوی کردیے گئے، محکمہ تعلیم

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے بعد کشیدہ صورتحال کے پیش نظر پشاور میں سرکاری و نجی تعلیمی ادارے 14 مئی تک بند رہیں گے۔

محکمہ تعلیم خیبرپختون خوا کے اعلامیہ کے مطابق پشاور میں نجی اور سرکاری کالجز 5 دنوں کے لئے بند رہیں گے۔ سرکاری و نجی تعلیمی ادارے 14 مئی تک بند ہوں گے۔

محکمہ تعلیم خیبرپختونخوا نے اعلامیہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیکیورٹی صورتحال کے پیش نظراسکولز بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔

اعلامیہ کے مطابق مشیرتعلیم کی ہدایت پر ہفتے تک سرکاری اسکولز بند رہیں گے جبکہ پشاور میں میٹرک کے امتحانات بھی ملتوی کردیے گئے ہیں
===================================

نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی گرفتاری پر پی ٹی آئی کارکنان کی پرتشدد احتجاج ، توڑ پھوڑ اور ہنگامہ آرائی پر اپنے شدید ردعمل دیا ہے۔ انہوں نے ٹویٹر پر اپنے ردعمل میں کہا کہ یہ سیاست نہیں بلکہ سیدھی سیدھی دہشتگردی ہے، میرا قوم سے وعدہ ہے کہ ریاست پر حملہ کرنے والوں کو نہیں چھوڑیں گے۔
اسی طرح وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے ٹویٹر پر اپنے ردعمل میں کہا کہ کوئی شبہ نہیں رہ گیا کہ فارن فنڈنگ نے پاکستان میں ملک دشمنوں کا ایجنٹ پالا ہے۔ ان مناظر سے کہاں جشن منایا جا رہا ہو گا؟ ملک دشمنی کی تمام حدیں کراس کر دی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے عوام کی بھی پاک فوج ریڈ لائین ہے۔

اسی طرح وزیرداخلہ رانا ثناءاللہ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ نیب میں القادر ٹرسٹ کے نام سے کیس تھا، جس میں عمران خان کی گرفتاری کی گئی، 190 ملین پاؤنڈ جو کہ 60 ارب کے لگ بھگ رقم بنتی ہے، یہ رقم پاکستان کے عوام کی امانت تھی، یہ قومی خزانے میں واپس آنی تھی، برطانوی حکومت نے پاکستانی حکومت سے رابطہ کیا اور رقم قومی خزانے ٹرانسفر کرنے کی بات کی۔

لیکن درمیان میں ایک دلال شہزاد اکبر درمیان میں آیا اور القادر ٹرسٹ بنایا گیا۔ پراپرٹی کی مالیت 458 کنال ہے، 240 کنال بنی گالہ میں ہے، 240 کنال بنی گالہ کی زمین فرح گوگی کے نام پر ہے، اس ٹرسٹ کے دو ہی ٹرسٹی ہیں، عمران خان اور اہلیہ ہیں، عمران خان کو چیلنج کیا تھا کہ القادر ٹرسٹ کرپشن کا جواب دیں، انتقامی کاروائیوں کا نشانہ نہیں بنائیں، عمران خان کی گرفتاری قانون کے مطابق ہوئی، عمران خان اور اس کی اہلیہ کے خلاف رجسٹریاں موجود ہیں،نیب آزاد ادارہ ہے، حکومت کے کنٹرول میں نہیں ہے، خزانے کو 60 ارب کا ٹیکہ لگا کر 6 ارب کی پراپرٹی اپنے نام لگوائی، بہتر انداز میں گرفتاری عمل میں لائی گئی، توشہ خانہ کیس بھی ثابت شدہ ہے، جب میاں نواز شریف کی بیٹی مریم نواز کی گرفتاری جھوٹے کیس میں کی گئی، میاں شہبازشریف کی بیٹیوں اور اہلیہ کے خلاف جعلی مقدمات بنائے گئے۔
اس میں عمران خان خود کرپشن میں لگا ہوا تھا۔ توشہ خانہ کیس میں ساری چیزیں ثابت ہیں، تحفے چوری کئے پھر جعل سازی کے ذریعے بیرون ملک بیچا گیا۔ یہ ساری تحقیقات میں آنے والی ہیں۔ جعلی رسیدیں بنائی گئیں، دکاندار کا سارا قصہ کھل چکا ہے۔ بڑے کیسز کرپشن کے نیب کے پاس ہیں۔ فرح گوگی کا 12 ارب روپے بینکنگ چینل بیرون ملک منتقل کیا ،ٹرانسفر پوسٹنگ سے پیسے بنائے۔
نیب نے ان کو نوٹس کیا۔ کرپشن کے الزامات ہیں، سب کچھ ثابت ہیں، اور پیش ہوں اور جواب دیں۔ اس میں لمبی چوری تحقیقات کی ضرورت نہیں تھی، لیکن یہ پیش نہیں ہوئے، ان نوٹسز کو ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ شہزاد اکبر جھوٹی پریس کانفرنسز کرتا تھا، نیب چیئرمین کو جھوٹی ویڈیوز دکھا کر اپنی مرضی سے چلاتے تھے، وزراء پہلے ہی گرفتاریاں کا بتا دیتے تھے۔ ججز نے باقاعدہ پبلک طور پر کہا ہم سے زبردستی سزا دلائی جارہی ہے، اس وقت عدلیہ اتنی متحرک نہیں تھی۔
===============================