جامعات میں زیر تعلیم نوجوانوں کی ایسی تربیت کی جا سکتی ہے جس کی مدد سے ایک ترقی یافتہ، انسان دوست اور مستحکم معاشرے کی تشکیل کا خواب پورا ہو سکتا ہے۔

جامعات میں زیر تعلیم نوجوانوں کی ایسی تربیت کی جا سکتی ہے جس کی مدد سے ایک ترقی یافتہ، انسان دوست اور مستحکم معاشرے کی تشکیل کا خواب پورا ہو سکتا ہے۔
======================

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر

تحریر: ڈاکٹر کنول

قوموں کی تعمیر میں باصلاحیت افراد بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ سائنس کے کمالات ہوں، فلسفہ کا جہاں ہو، فنون لطیفہ ہوں، طب کی دنیا ہو یا پھر مستحکم معاشرے کی تشکیل، تمام شعبہ ہائے زندگی کی ترقی کا انحصار ان باصلاحیت اذہان پر ہوتا ہے جو ذاتی غرض سے بالاتر ہو کر اپنی تمام تر توانائیاں ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں لگا دیتے ہیں۔ یہ فرد باہم ملتے ہیں تو قطرہ قطرہ قلزم کی صورت اختیار کر لیتے ہیں جس کی طلاطم خیز موجیں وہ سب کر دکھاتی ہیں جس کے بارے میں باقی صرف سوچتے رہ جاتے ہیں۔
وطن عزیز میں جہاں کئی تعلیمی ادارے مشکل وقت سے گزر رہے ہیں۔ مسائل کا انبار مایوسی کیوجہ بن رہا ہے تو ایسی صورتحال میں ایسے گوہر نایاب بھی موجود ہیں جن کی چمک تاریک راہوں میں سمت کا تعین کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔
یوں تو تمام شعبہ ہائے زندگی میں ایسے افراد موجود ہیں جن کی محنت اور لگن نے ان کے اداروں کو بہتر سے بہترین کی راہ پر گامزن کردیا تاہم کچھ لوگ ایسے ہیں جن کی خدمات نے اس ملک کی تقدیر بدلنے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ ان نمایاں شخصیات میں سب سے معتبر نام محسن پاکستان، ایٹمی سائنسدان جناب ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کا ہے جن کی خدمات نے ملک کے دفاع کو ناقابل تسخیر بناتے ہوئے دنیا کو باور کرایا کہ حالات خواہ کیسے ہی کیوں نہ ہوں پاکستان کی قومی سلامتی یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن اقدام اٹھایا جائے گا۔بین الاقوامی دباو، سازشیں، دھمکیاں، جان لیوا خطرات سمیت کوئی بھی خطرہ اس مرد آہن کی راہ میں رکاوٹ نہ ڈال سکا اور ایٹمی دھماکوں کے تجربات کی صورت دنیا کو باور کرادیا گیا وطن عزیز کے دفاع پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ پوری قوم محسن پاکستان کی صلاحیت، تجربے، جرائت مندی اور حب الوطنی کی گواہ ہے اور ان کی خدمات پر ان کی شکر گزار ہے۔
ملک کے کسی بھی کونے میں انسان دوستی ، مصیبت زدہ بھائیوں کی دلجوئی ، یتمیوں کو چھت کی فراہمی، بھوکوں کو کھانے کی اور بے سہاروں کو سہارا دینے کی بات ہوگی تو ایک ہی شخصیت کی بات سب سے پہلے ہوگی جس نے اپنا آج اس قوم کے کل پر قربان کردیا۔ یہ عظیم شخصیت جناب عبدالستار ایدھی صاحب ہیں جنہوں نے دنیا کو باور کرایا کہ خدمت خلق کے لیے صرف جذبہ چاہیے۔ خلق خدا کی خدمت کے لیے اخلاص کے ساتھ گھر سے نکلیں تو خدا خود منزلیں آسان کردیتا ہے۔ عبدالستار ایدھی کی انسان دوستی، خدمت خلق میں ان کے مقام کو کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ ایدھی صاحب نے اس معروف شعر کی عملی تصویر بن کر دکھایا۔۔۔
یہی ہے عبادت ، یہی دین و ایماں
کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں
ایدھی صاحب کی خدمات صرف پاکستان میں ہی نہیں دنیا بھر میں تسلیم کی گئیں۔ زندگی کے ہر شعبے سے وابستہ شخص انہیں سلام پیش کرتا ہے۔
اسی طرح غربت کے خاتمے، معاشی استحکام اور حقیقی فلاحی معاشرے کے لیے خدمات سرانجام دینے والوں کاذکر کیا جائے تو اس حوالے سے جو سب سے پہلا نام سامنے آتا ہے وہ اخوت کے بانی ڈاکٹر محمد امجد ثاقب کا ہے ۔ ڈاکٹر امجد 1985 میں پاکستان سول سروس کا حصہ بنے ۔پنجاب رورل سپورٹ پروگرام کا حصہ بننے کے بعد انہیں پاکستان میں مائیکروفنانس کی خرابیو ں کا اندازہ ہوا۔ 2003میں ڈاکٹر امجد ثاقب نے سول سروس سے استعفیٰ دے دیا اور اپنے سول سروس کے ساتھیوں اور قرابت داروں کے تعاون سے اخوت کی بنیاد رکھی، جو غریبوں کو بلا سود مائیکرو کریڈٹ فراہم کرتی ہے۔ اخوت فاؤنڈیشن کا آغاز 2001ء میں پہلے چند بلاسود قرضوں کے ساتھ ہوا جو غریبوں کو باعزت طریقے سے روزی کمانے میں مدد کرنے کے لیے دیے گئے۔ اخوت کے پانچ بنیادی اصول ہیں جن پر اس کے تمام پروگرام کام کرتے ہیں۔ ان میں بلا سود مائیکرو فنانس، مذہبی مقامات کا استعمال، غیر امتیازی سلوک، رضاکارانہ جذبہ اور قرض لینے والوں کو عطیہ دہندگان میں تبدیل کرنا شامل ہیں۔
گزشتہ چند دہائیوں میں مذکورہ بالا شخصیات نے ملک کے لیے وہ کارہائے نمایاں سرانجام دیے جن کی دنیا میں کم ہی مثال ملتی ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر کی سائنس کی دنیا میں قابل قدر خدمات، ڈاکٹر عبدالستار ایدھی کا فلاحی مشن اور ڈاکٹر محمد امجد ثاقب کا انقلابی منصوبہ قابل تعریف ہونے کے ساتھ قابل تقلید بھی ہیں۔
گذشتہ دنوں خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی رحیم یار خان کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیمان طاہر سے ملاقات ہوئی اور ان کے خیالات جاننے کاموقع ملا تو انتہائی خوش گوار حیرت کا احساس ہوا کہ وہ نہ صرف مذکورہ شخصیات کی خدمات کے معترف ہیں بلکہ انہوں نے اپنی جامعہ میں ان کو بطور رول ماڈل اپنایا ہوا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیمان طاہر کی قیادت میں تین سال کے مختصر عرصے میں خواجہ فرید یونیورسٹی میں جدید ترین ٹیکنالوجی کی حامل ہائی ٹیک لیبارٹریز کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جہاں طالب علموں کو سائنسی علوم میں مہارت دی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ ریسرچ پبلی کیشن، سائنسی تجربات ، ان کی رونمائی، انڈسٹری ایکڈیمیا لنکجز جیسی سنہری پالیسیوں کے ساتھ طلبہ کو معاشرے کا ایسا کارآمد فرد بنایا جا رہا ہے جو مستقبل میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی طرح ملک کا نام روشن کرنے کے قابل بنا دے گا۔
اسی طرح پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیمان طاہر نے رمضان المبارک میں افطار دسترخوان جیسی منفرد مہم اساتذہ، طلبا اور کمیونٹی کے تعاون سے شروع کی جہاں یومیہ 500افراد کو باوقار انداز سے افطار کرایا گیا۔انہوں نے حالیہ سیلاب کے دوران راجن پور کے متاثرہ علاقوں میں طبی کیمپ لگوائےمتاثرین میں راشن، خوراک، اور دیگر بنیادی ضرورت کی اشیا تقسیم کروائیں اور کھلے آسمان تلے رہنے والےطلبہ کے لیے ہاسٹلز کی مفت فراہمی کا اعلان کرکے جہاں داد رسی کی نئی مثال قائم کی وہیں انہوں نے ایدھی صاحب کی یاد کو بھی تازہ کردیا جو ایسے مشکل حالات میں سب بھول کر بے سہاروں کی مدد کو آجاتے تھے۔ رحیم یار خان اور اس سے متصل علاقوں میں بسنے والے لوگوں کی اکثریت کے پاس مالی وسائل نسبتاً کم ہیں، ایسے خاندانوں کے بچوں کے لیے اعلیٰ تعلیم ایک خواب کے سوا کچھ نہ تھی۔ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیمان طاہر نے اس ضمن میں بھی نہ صرف قابل تقلید پالیسیاں متعارف کرائیں بلکہ ان کے ثمرات بھی طلبہ تک پہنچائے ۔ گزشتہ تین سالوں میں ان کی ہدایت پرملکی و غیر ملکی ڈونرز سے روابط بڑھائے گئے، مربوط طریقہ کار وضع کیا گیا جس کے بعد ہزاروں طالب علموں کومجموعی طور پرتقریبا ایک ارب پچیس کروڑ روپے کے سکالر شپ فراہم کرکے طلبہ اور ان کے خاندانوں کی مدد ی کی گئی۔ ان کی علم دوست پالیسیوں کی بدولت آج خواجہ فرید یونیورسٹی نہ صرف تدریسی و تحقیقی میدانوں میں نمایاں ہو رہی ہے بلکہ قومی و بین الاقوامی اداروں کی رینکنگز میں بھی امتیازی پوزیشنز سنبھال رہی ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر سلیمان طاہر کے وژن میں میں ڈاکٹر عبد القدیر کا سائنسی ہنر، ڈاکٹر امجد ثاقب کی اخوت اور عبدالستار ایدھی کی انسان دوستی نظر آتی ہے۔ انہوں نے تینوں گرانقدر شخصیات اور ان کی خدمات کو ہمیشہ سامنے رکھا وہ چاہتے ہیں کہ ان تینوں شخصیات کا عکس ان کے ہر طالب علم کے اندر نظر آئے۔ اگر دیگر تعلیمی ادارے بھی پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیمان طاہر کے کثیر الجہتی وژن کو اپنا لیں تو جامعات میں زیر تعلیم نوجوانوں کی ایسی تربیت کی جا سکتی ہے جس کی مدد سے ایک ترقی یافتہ، انسان دوست اور مستحکم معاشرے کی تشکیل کا خواب پورا ہو سکتا ہے۔
علامہ اقبال ؒ نے کیا خوب فرمایا ہے:
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملّت کے مقدر کا ستارا
============================================