آزادی کا بیس کیمپ منشیات اور جرائم کا گڑھ بن رہا ہے؟۔

سچ تو یہ ہے،
=========

بشیر سدوزئی،
===========

کہا جاتا ہے کہ ماوزے تنگ کے انقلاب سے قبل چین کے بزرگ اور سنجیدہ طبقہ اپنے جوانوں کو افیم کے نشے میں دھت سڑکوں اور فٹ ہاتھوں پر تڑپتے دیکھتے تو سوائے رونے اور اپنے اچھے وقت کو یاد کرنے کے ان کے بس میں کچھ نہ ہوتا۔ ان کا بادشاہ بھی افیم کے نشے میں دھت تھا یا خواب غفلت میں لیکن اسے اس عظیم قوم کی عظمت رفتہ کی نا کوئی خبر تھی اور نہ قوم کی حالت زار کی کوئی فکر۔ بزرگ اور صاحب شعور قوم کی اس حالت پر ہان خاندان کے دور کو یاد کر کر کے روتے جس دور میں چینیوں نے بے شمار فتوحات کی، علم و ادب اور فلسفہ میں بلندیوں تک پہنچے۔دیوار چین ہی نہیں، شاہراہ ریشم بھی تعمیر ہوئی جو قراقرم کو چیرتی سمندروں کو پھلانگتی  ایشیائے کوچک اور بحیرہ روم تک پہنچی۔اس دور میں چین کی ترقی نے عظمت کے ڈنکے بجتے رہے۔ مارکو پولو نے چین کی ترقی کے یہ قصے سنائے تو اہل یورپ نے اسے جھوٹوں کا سردار کہا۔ 8 ہزار کلو میٹر پر پھیلی شاہراہ ریشم کی گزرگائیں نہ صرف تجارت کے فروغ کا ذریعہ بنیں، بلکہ اس سے چین، مصر، فارس،برصغیر اور روم کی تہذیبوں کو ترقی ملی۔چین کے شہر چنگن سے شروع ہونے والا یہ کوری ڈور وسط ایشیائی ریاستوں، ایران، ترکی سے گزرتا ہوا یورپ تک پہنچا جس کے ساتھ اس وقت دنیا کے 33 بڑے اور ترقی یافتہ شہر منسلک ہوئے۔ان میں چین کا شہر ڈنجنگ، ترکمانستان کا شہر میرو،ازبکستان کے تاریخی شہر بخارا، سمرقند، افغانستان کا بلخ،پاکستان کا قدیم ثقافتی اور گندھارا تہذیب و تمدن کا مرکز ٹیکسلہ، ایران کے رئے، نیشاپور، ہمدان، شام کا دمشق، عراق کے بغداد، موصل، ترکیہ کے تاریخی شہر قسطنطنیہ، ازمیر،مصر کا اسکندریہ سمیت کئی دیگر شامل تھے۔پھر دنیا نے دیکھا کہ اس عظیم قوم کے نوجوانوں کو افیم کی ایسی لت پڑی کہ عظمت رفتہ کو بھول کر اپنے ہی اعمال کی گرفت میں سڑکوں پر تڑپنے لگے۔ بادشاہ حکمرانی کے نشے میں مست تھا اور اسے مٹنے کی کوئی نوید نہ تھی بلا آخر وہ مٹا اور جدید چین کے بانی ماوزے تنگ انقلاب لایا۔ افیمچی ،قائل اور سست قوم کو ہان خاندان کا بھولا ہوا سبق یاد کرنے کا کہا، جس کو یاد نہ ہوا اس کا نشان ہی مٹا دیا جو باقی رہ گئے انہوں نےطوطے کی طرح ہان کا سبق رٹا اور فرفر بولنے لگے۔ ان کی آواز اتنی پختہ ہو گئی کہ صرف 74 سال میں ہی 250 سال پرانے امریکا کی ترقی چین کی ترقی کے مینارے کے پیچھے چھپنے لگی۔کیفیت بیان کرنے کا اجمال یہ ہے کہ قوموں کی ترقی و تنزلی کا دارمدار لیڈر پر ہے، چین ماضی بعید میں عظیم قوم تھی کیوں کہ ان کا لیڈر ویژنری تھا ،زوال کی طرف گئی تو پستی میں چلی گئی کیوں کہ قیادت مفاد ہرست جہل اور کاہل تھی چون لائی کا انقلاب قوم کو دلدل سے نکال باہر لایا۔آج جموں و کشمیر کے عوام منجدھار میں پھنسے ہیں۔ان کا کوئی رہبر و رہنما نہیں جو قوم کو منجدھار سے نکلنے کا راستہ بتائے۔مقبوضہ کشمیر کے عوام بہت مصیبت زدہ ہیں ان پر جو قیامت ڈھائی جا رہی ہے وہ قابل بیان نہیں۔ ان کی جان،عزت،عصمت، چادر اور چاردیواری سب پاش پاش ہو چکی۔ صوفیانہ معاشرے کی اخلاقی اور سماجی و دینی قدریں پامال کی جا رہی ہیں۔ ان کی امدیں آزاد کشمیر کے نوجوانوں سے تھی کہ مشکل وقت میں مدد کو آئیں گے لیکن یہاں تو احساس ہی نہیں کہ وہ ہمارے وجود کا حصہ ہیں۔آزاد کشمیر کے نوجوان اپنی بنیادی ذمہ داری بھول کر منشیات سمیت ہر قسم کی برائی میں غرق ہو رہے ہیں۔ ان کو معلوم ہی نہیں اور نہ احساس ہے کہ ان کے بھائی بہن کس مشکل میں ہیں۔یہ اپنی موج مستی ہیں اور جو کام نہ کرنے کے تھے ان میں مصروف ہیں۔ 16 مارچ 2023 کو خبر شائع ہوئی کہ چوکی پولیس سٹی راولاکوٹ نے مسمی نسیم سے آدھا کلو چرس 3 پستول اور میگزین جب کہ ایک اور کارروائی میں نبیل سے دو کلو چرس بندوق اور کلپ مکہ برآمد کرلیا گیا۔دوسرے روز 17مارچ 2023 کو پھر خبر شائع ہوئی کہ سی آئی اے پولیس راولاکوٹ نے ملزم فیصل شبیر سے ڈیڑھ کلو چرس ایک خنجر برآمد کر لیا۔جب کہ حبیب خادم سے پانچ کلو چرس پکڑی گئی۔ یعنی ایک ہی کارروائی میں ساڑھے چھ کلو سے زائد اور دو یوم کے دوران 9 کلو سے زائد چرس برآمد کی گئی۔مختلف میڈیا چینل سے موصول ہونے والی خبروں کے مطابق سال 2022 کے دوران پونچھ ڈویژن کے تین اضلاع میں 150کلو چرس 8 کلو ہیروئن977 بوتلیں شراب 189 گرام آئس پکڑی گئی، یقینا جو نہیں پکڑی گئی وہ اس سے گئی گنا زیادہ ہو گی۔ سب سے زیادہ منشیات راولاکوٹ میں پکڑی گئی جس میں 74 کلو چرس، ساڑھے 3 کلو ہیروئن،671 بوتلیں شراب اور 93 گرام آئس شامل ہے، باغ میں چرس41 کلو،ہیروئن353 گرام شراب22 بوتلیں اورآئس11 گرام ضبط کی گئی۔سدھنوتی سے چرس 21 کلو گرام، ہیروئن 386 گرام شراب کی 48 بوتلیں 85 گرام آئس برآمد کی گئی۔ بظاہر تو یہ لگتا ہے کہ آزاد کشمیر کی پولیس بہت زیادہ ذمہ دار اور متحرک ہے تب ہی کثیر تعداد میں منشیات پکڑی گئی ہے۔لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ چھوٹے سے خطہ میں چار من سے زیادہ چرس کا ضبط اور مجرموں کو قابل اصلاح سزا کا نہ ہونا المیہ سے کم نہیں۔ اس پر غور کیا جانا چاہیے کہ صرف ایک ڈویژن میں منشیات کی یہ مقدار ضبط ہوئی ہے تو مزید دو ڈویژن میں کتنی منشیات آئی ہو گی اور مافیا کا نٹ ورک کس قدر مضبوط ہے۔ ڈرگ مافیا کے کارندے یہ منشیات دریا جہلم کو عبور کر کے لاتے ہوں گے یا سرحد پار سے دونوں جگہوں پر اسکورٹی اداروں کے اہلکار متحرک اور چوبند کھڑے ہیں تو ڈرک مافیا کے کارندے آزاد کشمیر میں کہاں سے داخل ہوتے ہیں۔سول سوسائٹی کو شکایت ہے کہ اسکورٹی اداروں کے اہلکار محض فوٹو سیشن کے طور پر ایسی کارروائیاں کرتے ہیں تاکہ عوامی دباؤ کو کم کیا جائے۔ اگر اسکورٹی ادارے واقعی منشیات کی روک تھام میں مخلص ہوتے تو یہ وباء آزاد کشمیر کے ہر گاوں تک نہ پہنچ سکتی۔ گاوں کی رابطہ سڑکوں کے کنارے اور چوراہوں پر سر شام مشکوک گاڑیوں میں کچھ افراد گھومنا شروع ہوتے ہیں جو رات گئے تک سرگرم نظر آتے ہیں جب تک نوجوان لڑکتے اور ڈھلکتے نہیں مشوک افراد گاوں سے باہر نہیں جاتے۔ اسی اثنا صبح ہو جاتی ہے اور کچھ خمار بھی ٹوٹنا شروع ہوتا ہے۔ اس صورت حال کے اثرات ہر شعبہ زندگی پر پڑھے، ریپ اور قتل کے واقعات بھی تیزی سے رونما ہو رہے ہیں ۔مظفرآباد میں چودہ سالہ بچی کی زچگی اور لڑکی کا بیان اور ڈی این اے ٹیسٹ باپ اور بھائی پر الزام ۔ باغ میں ایسے کئی واقعات، راولاکوٹ کے نواحی علاقے علی سوجل ایک کی وارداد میں دو لرزا خیز قتل اور اس نوعیت کے سیکڑوں اور واقعات رونگٹے کھڑے کر دینے کے لیے کافی ہیں۔ ان سرگرمیوں کا سیزن شروع ہوا چاہتا ہے مارچ تا نومبر ان کارروائیوں کے لیے آئیڈیل سیزن ہوتا ہے۔ اب مستقبل کا معمار رات گئے کسی نالی اور کسی سڑک کے کنارے تڑپتا نظر آئے گا۔ اس قوم کے نوجوان کی اب یہی حالت بنتی جا رہی ہے جیسے ماوزے تنگ کو قوم ملی تھی۔وہ چوں کہ حکومت میں آ چکا تھا اس لیے اس نے قوم کو ڈنڈے کے زور پر صحیح کیا۔۔ یہاں اقتدار مسخروں کے قبضے میں اور قوم کی اخلاقیات اس قدر تباہ ہو چکی کہ بڑے بزرگوں کی نصیحت کی اہمیت ہی نہیں رہی۔آزادی کا بیس کیمپ منشیات اور جرائم کا گڑھ بن رہا ہے اور کسی کو فکر فاقہ نہیں ایسی قوم کے نوجوان آزادی کی جنگ لڑ سکتے ہیں جو منشیات اور جرائم میں ملوث ہو جائیں؟ اس سوال کو آپ کےلئے چھوڑتے ہیں۔
=========================