پولیس اگر چاہے تو

ویو پوائنٹ
=======
نوید نقوی
=====

پنجاب پولیس، دو لاکھ پچیس ہزار افسران و جوانوں پر مشتمل پولیس فورس کا ایک امن و امان قائم اور قانون پر عملدرآمد کروانے کا پابند ادارہ ہے جو صوبہ پنجاب میں امن و امان برقرار رکھنے کا ذمہ دار ہے۔ یہ پولیس ایکٹ 1861 اور 2002 کے تحت صوبہ پنجاب، پاکستان میں مجرموں کے خلاف کارروائی کرکے تمام فوجداری مقدمات کو کنٹرول کرتا ہے۔ اس کے علاوہ اس محکمے میں کچھ مخصوص فورسز بھی کام کر رہی ہیں جن میں چند کے نام بلاشبہ ہر خاص و عام نے سن رکھے ہیں اینٹی رائٹ فورس، پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی، سی ٹی ڈی، سی آئی اے، ایس پی یو، ایلیٹ فورس، پنجاب ڈولفن فورس، پنجاب ٹریفک پولیس، پنجاب ہائی وے پٹرول، پنجاب کانسٹبلری، پنجاب باؤنڈری فورس قابل ذکر ہیں۔ کسی بھی ملک میں امن و امان کی صورتحال کو کنٹرول کرنا پولیس کا کام ہوتا ہے اور جب پولیس کو سیاسی مداخلت سے پاک کر دیا جائے تو اس کی کارکردگی یقیناً بہترین ہوتی ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان میں ہر حکومت نے پولیس کو اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کے لیے استعمال کرنے کی کوششیں کی ہیں لیکن پولیس کے ان بہادر اور غیور افسران کو سلام جنہوں نے اپنی سروس کی قربانی دینا گوارا کیا لیکن کسی بھی قسم کی سیاسی ڈکٹیشن حاصل کرنے سے صاف انکار کیا ۔ پاکستان میں یوں تو تمام آرمڈ فورسز کا میعار عالمی طور پر تسلیم شدہ ہے اور پاک فوج کے ساتھ ساتھ پولیس کے کئی جوان اور افسران اقوام متحدہ کے امن مشنز میں اپنی گراں قدر خدمات سر انجام دے چکے ہیں اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل ہوں یا دیگر عہدیدار وقتاً فوقتاً پاکستانی فورسز کے پروفیشنل ازم کی تعریف کر چکے ہیں۔ پاکستان کے قیام کے بعد پہلی مرتبہ 2002 میں جنرل مشرف کے دورِ حکومت میں پولیس کے نظام میں بہتری لانے کے لیے قانون سازی کی گئی جس میں ضلعی مجسٹریٹ کی طاقت کو ختم کر دیا گیا اور پولیس کو غیر سیاسی اور آزاد محکمہ بنانے کے لیے مزید اصلاحات کی گئیں۔ پاکستان میں بھی نائن الیون کے بعد بڑھتی دہشت گردی اور بم دھماکوں کی وجہ سے پولیس کی روایتی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوا۔ اس میں کوئی شائبہ نہیں کہ موجودہ عالمی تناظر میں قومی، صوبائی اور مقامی سطح پر پولیس میں اصلاحات ناگزیر ہو چکی ہیں۔ مذکورہ ڈپارٹمنٹ میں بے جا سیا سی مداخلت نے قومی سلامتی کے ادارے پر مضر اثرات مرتب کئے ہیں اور پولیس کی شبیہ بگاڑ کر رکھ دی ہے۔ فرض کریں اگر کوئی ایماندار، فرض شناس سپاہی یا پولیس افسر اپنے فرائض بحسن و خوبی انجام دے رہا ہے تو بدلے میں اسے کیا ملے گا؟ اس کا متعلقہ علاقے کے حکومتی و عوامی نمائندوں کے مفادات کے خلاف نعرۂ حق بلند کرنا اگلے ہی روز اس کے تبادلے کا سبب بن جائے گا چنانچہ پولیس کے حالات موجودہ نہج تک پہنچانے میں حکومتی و سیاسی اراکین کا کردار اہم رہا ہے۔ پولیس والوں کے برے کاموں کا تو خوب شوروغوغا کیا جاتا ہے بدعنوانی، زیادتی اور اختیارات سے تجاوز کی خبریں تو بڑھ چڑھ کر نشر کی جاتی ہیں لیکن ان کی قربانیاں اور اچھے کاموں کی اس طرح کوریج نہیں کی جاتی جو ان کا حق بنتا ہے۔ پولیس کے شہدا و غازی ہنوز پذیرائی سے محروم ہیں ۔ اس سلسلے میں وہ پولیس آفیسرز مبارکباد کے مستحق ہیں کہ جنہوں نے پولیس کے شہدا کی تصاویر شہر کی اہم شاہراہوں پر آویزاں کر کے ان کو عزت و رتبہ دیا جس کے وہ اصل میں حقدار ہیں۔ مادرِ وطن پر جان نچھاور کرنے والوں کیلئے اس سے بہترخراجِ تحسین نہیں ہو سکتا۔ پولیس اہلکاروں کی فلاح و بہبود کیلئے تاریخی اقدامات کرتے ہوئے ان کی چھٹیوں، میڈیکل اور دیگر مسائل کے حل کے لیے ون ونڈو سسٹم متعارف کروا دیا گیا ہے۔ بہتر پرفارمنس اور بہادری کے جوہر دکھانے والے پولیس اہلکاروں کے لیے نقد انعامات و تعریفی سرٹیفکیٹس اور ناقص کارکردگی کی صورت میں سخت تادیبی محکمانہ کارروائی کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ یہ تمام صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ اگر حسنِ نیت ہو اور کچھ کرنے کی ٹھان لی جائے تو بہت بہتر انداز میں کام کیا جا سکتا ہے، جبکہ جدید دور کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے اگر محکمانہ اصلاحات کی جائیں تو کم وقت میں یقینا بہتر نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ چنانچہ اب وقت آگیا کہ محکمہ پولیس کو سیاست سے مبریٰ کیا جائے تاکہ پولیس کا مورال بلند ہو اور عوام کی نظر میں پولیس والوں کا ایک بہتر امیج ابھرے جس سے اس ادارے سے وابستہ شکایات کا ازالہ بھی ممکن ہو اور صحیح معنوں میں یہ قومی خدمتگار ادارہ بن سکے۔ جدید ٹیکنالوجی اور ہیومن انٹیلی جنس وسائل کا اغوا برائے تاوان اور ریپ کیسز میں استعمال سے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔ پولیس میں اس وقت اعلیٰ تعلیم یافتہ اہلکار اور افسران بڑی تعداد میں موجود ہیں اور جب بھی کوئی ہائی پروفائل کیس آتا ہے پولیس اپنا ٹیلنٹ دکھاتی ہے اور بہت مختصر عرصے میں کیس کو نہ صرف حل کیا جاتا ہے بلکہ مجرموں کو بھی کیفر کردار تک پہنچا دیا جاتا ہے۔ پنجاب پولیس میں اس وقت ضلع رحیم یار خان کی پولیس کارکردگی اور جرات میں پہلے نمبر پر ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کو ایک طرف کچے کے جرائم پیشہ افراد کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو دوسری طرف بین الاضلاعی ڈکیتوں سمیت اسمگلنگ سے وابستہ مجرمان کی بیخ کنی کا فریضہ بھی سر انجام دینا پڑتا ہے اس لیے رحیم یار خان پولیس ہر لمحہ ان ایکشن ہونے کی وجہ سے پنجاب کے باقی اضلاع کی نسبت زیادہ تجربہ کار ہو چکی ہے۔ خان پور ضلع رحیم یار خان کی سب سے بڑی اور ترقی یافتہ تحصیل ہے اور یہاں کی مٹی نے ہمیشہ نگینے لوگ پیدا کیے ہیں جنہوں نے ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کیا اور اس وقت بھی کئی کلیدی عہدوں پر تعینات افراد کا تعلق خان پور کی زرخیز مٹی سے ہے، یہاں کے لوگ اپنی مہمان نوازی اور خوبصورتی میں پورے پنجاب میں سر فہرست ہیں، ڈاکٹر حسن محمود خان پور کے عظیم بیٹے ہیں جو دن رات نادار اور مستحق مریضوں کا مفت علاج کر رہے ہیں اور ان کے ساتھ اس کار خیر میں ان کی مسز بھی جو خود بھی ڈاکٹر ہیں شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں۔ 6 اپریل خان پور کی تاریخ کا ایسا دن ہے جس نے شہر سمیت پورے ضلع کو ہلا کر رکھ دیا اور چند گھنٹوں کے اندر وزیراعظم سمیت پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھی ان ایکشن نظر آئے، ڈاکٹر صاحب کے دو کمسن بچے جب سکول کے لیے روانہ ہوئے تو راستے میں شر پسندوں نے ان کو گن پوائنٹ پر اغواء کر لیا اور فوری طور پر یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح چاروں طرف پھیل گئی، ڈی پی او رحیم یار خان رضوان گوندل صاحب نے فوری طور پر ٹیم تشکیل دی جن میں قابل ترین افسران کو شامل کیا سید قنبر نقوی سب انسپکٹر، احمد رضا سب انسپکٹر ، جام آفتاب احمد متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او اس ٹیم کے انچارج قرار پائے اور نگران وزیراعلیٰ سید محسن نقوی کی ہدایت پر تمام دستیاب وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے ڈاکٹر حسن محمود صاحب کے اغوا ہونے والے دونوں معصوم بیٹے 48 گھنٹوں کے اندر ہی احمد پور شرقیہ ضلع بہاولپور سے برآمد کر لیے۔ بلاشبہ پولیس کے لیے یہ ایک ٹیسٹ کیس تھا اور عوام کی امیدیں اس جان باز ٹیم سے وابستہ تھیں، جب دونوں بچے بازیاب ہونے کی اطلاع عام ہوئی تو عوام کی خوشی دیدنی تھی اور پولیس کے حق میں نعرے بازی کرتے ہوئے ڈی پی او سمیت پوری ٹیم کو مبارکباد پیش کی گئی۔ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا خاص کرم ہے کیونکہ ایک تو بچے چھوٹے تھے جبکہ ایک بچہ سانس کی تکلیف میں بھی مبتلا تھا جس کے باعث والدین کی تکلیف ،درد ، فکر اور پریشانی کا مزید بڑھ جانا ایک فطری امر تھا اور بچوں کی والدہ نے رو رو کر اغواء کاروں سے اپیل بھی کی تھی۔ پولیس کی کارکردگی جہاں قابل ستائش ہے وہاں سول سوسائٹی کا زندہ اور جاندار کردار بھی قابل ستائش رہا ہے۔ میرے نزدیک متعلقہ تھانے پر تعینات ایس ایچ او جام آفتاب احمد صاحب نے جس نیک نیتی ، پیشہ ورانہ مہارت ، مسلسل محنت اور ایمانی قوت سے کام لیا ہے اس نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ محکمہ پولیس میں آج بھی ایسے پڑھے لکھے نوجوان موجود ہیں جن کی تعلیم و تربیت میں فرض شناسی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے اس سلسلے میں ڈی پی او رحیم یار خان رضوان گوندل صاحب کی ستائش کرنا بھی بنتا ہے جنہوں نے والدین کے دکھ درد کی شدت کو نہ صرف محسوس کیا بلکہ اپنے فرض کی ادائیگی میں ایک پل ضائع کیے بغیر ملزمان کا پیچھا کیا جس کے نتیجے میں ملزمان کو احمد پور شرقیہ سے گرفتار کر لیا گیا۔ اسی لیے تو تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ پنجاب پولیس چاہے تو سمندر کی تہہ سے سوئی ڈھونڈنے پر بھی قدرت رکھتی ہے بہرحال ڈی پی او رحیم یار خان ، ایس ڈی پی او صاحب خان پور ، ایس ایچ او جام آفتاب احمد صاحب خانپور , پولیس افسر احمد رضا صاحب ، انچارج آئی ٹی رحیم یار خان پولیس سید قنبر نقوی اور دیگر پولیس افسران نے دو معصوم بچوں کی بخیر برآمدگی کو یقینی بنا کر ایک کار خیر رقم کی ہے جو تاریخ کا حصہ بن گئی ہے کیونکہ اس درد کو صرف وہی محسوس کر سکتے ہیں جن کے بچے اغوا ہوئے تھے یا جو بچوں سے پیار کرتے ہیں ویلڈن رحیم یار خان پولیس۔ ڈاکٹر حسن محمود صاحب اور ان کی فیملی کو ڈھیروں مبارکبادیں، اس کے ساتھ میں سول سوسائٹی اور پولیس افسران سے یہ اپیل بھی کروں گا کہ بچے سانجھے ہوتے ہیں اگر خدانخواستہ کسی غریب کے ساتھ ایسا حادثہ پیش آئے تب بھی اسی جوش و جذبے کے ساتھ فعال ہونا چاہیئے
======================