نئے سماجی معاہدے کی ضرورت

tauseef

ڈاکٹر توصیف احمد خان
=================

سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے پنجاب میں الیکشن شیڈول کا اجراء کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کے 8اکتوبر کو پنجاب اور خیبر پختون خوا میں انتخابات کے انعقاد کے فیصلہ کو مسترد کر دیا۔ سپریم کورٹ نے 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کرانے کے احکامات بھی جاری کر دیے ، پھر چیف جسٹس عطاء بندیال نے 6 رکنی بینچ تشکیل دیا۔

اس بینچ نے سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس فائز عیسیٰ کے سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے قوانین کی تیاری تک ایسے تمام مقدمات ملتوی کرنے کے فیصلہ کو تین منٹ کی سماعت کے بعد کالعدم قرار دیا تھا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے اس معاملہ پر وفاقی حکومت اور سیاسی جماعتوں کے فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کیں۔

چیف جسٹس نے اس دلیل کو بھی مسترد کیا کہ پنجاب میں انتخابات کرانے کے از خود نوٹس کی سماعت کے خلاف 4 ججوں نے جو فیصلہ لکھا تھا وہ فیصلہ، اس فیصلہ کا اسی طرح حصہ ہونا چاہیے جیسا پاناما اسکینڈل کی سماعت کے دوران ہوا تھا۔ وفاقی کابینہ نے اس فیصلہ کو یکطرفہ قرار دیتے ہوئے مسترد کیا۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے پارلیمنٹ سے خطاب کے دوران پہلے ہی اس مقدمہ کی سماعت، فل کورٹ میں کرنے کی استدعا کی تھی، یوں وفاقی کابینہ کے پاس ایک فیصلہ کو مسترد کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہ تھا۔

پارلیمنٹ نے گزشتہ دنوں سپریم کورٹ کے قوانین میں ترامیم کا قانون منظور کیا۔ اس قانون کے تحت اب چیف جسٹس کے ازخود نوٹس کے اختیار کو سینئر ترین ججوں کی کمیٹی کی منظوری سے مشروط کیا گیا۔ یہ تجویز ایوان نے منظور کی کہ جو افراد ماضی میں چیف جسٹس کے ازخود نوٹس کے اختیار سے متاثر ہوئے وہ 30 دن میں اس فیصلہ کے خلاف اپیل کرسکتے ہیں۔

پارلیمنٹ سے منظور کردہ قوانین کے تحت ازخود نوٹس سے سزا پانے والے اس فیصلہ کے خلاف اپیل کرسکیں گے۔ سینیٹ کے چیئرمین نے یہ مسودہ قانون حتمی منظوری کے لیے صدر کو بھجوا دیا ہے۔ صدر ڈاکٹر عارف علوی ایک انٹرویو میں پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ غوروفکر کے بعد اس مسودہ قانون کی توثیق کے بارے میں فیصلہ کریں گے۔

زیادہ امکانات اس بات کے ہیں کہ صدر اس قانون پر 14 دن تک غوروخوص کے بعد اپنے اعتراضات کے ساتھ پارلیمنٹ کو واپس کردیں گے۔ اس دوران تحریک انصاف کا کوئی رہنما اس قانون کو براہِ راست سپریم کورٹ میں چیلنج کرے گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ سپریم کورٹ اس قانون پر عملدرآمد روک دے گی۔ سپریم کورٹ نے اس مقدمہ کی سماعت کے دوران وزارت خزانہ اور وزارت دفاع کے سیکریٹریوں کو طلب کیا تھا۔

سیکریٹری دفاع نے استدعا کی تھی کہ عدالت ان کی معروضات کو بند عدالت میں سنیں مگر معزز عدالت نے سیکریٹری دفاع کی استدعا قبول نہیں کی اور ہدایت کی تھی کہ دونوں وزارتوں کے سیکریٹری صاحبان سربمہر لفافوں میں اپنی معروضات عدالت میں پیش کریں۔ اس فیصلہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ معزز عدالت نے دونوں سیکریٹریوں کی معروضات کو مسترد کیا۔

اگرچہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عملدرآمد کا عندیہ دیا ہے مگر انتخابات کے انعقاد کے بنیادی لوازمات موجود نہیں ہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب پارلیمنٹ کا سپریم کورٹ کے قواعد کے بارے میں قانون نافذ ہوگا تو سپریم کورٹ میں ریویو کی اپیل کے بجائے وفاقی حکومت اس فیصلہ کی بنیادی حیثیت کو چیلنج کرے گی۔

شاید اس طرح کوئی نئی بینچ مقدمہ کی سماعت کرے۔ فیصلہ پر عملدرآمد میں دیر ہوئی یا فیصلہ پر عملدرآمد نہ ہوسکا تو تحریک انصاف کے رہنما، وزیر اعظم شہباز شریف اور وفاقی کابینہ کے خلاف توہینِ عدالت کی عرضداشت دائر کریں گے۔

یہ بھی ممکن ہے کہ تحریک انصاف کے بعض جذباتی رہنما پوری پارلیمنٹ کے خلاف توہینِ عدالت کی عرضداشت دائر کریں، یوں ایک دفعہ پھر یوسف رضا گیلانی اور میاں نواز شریف کے سپریم کورٹ سے نااہل ہونے کی کہانی دہرائے جانے کے امکانات پیدا ہونگے، مگر اقتدار کے لیے مقبولیت اور قبولیت کا فلسفہ بیان کرنے والے جہاں دیدہ صحافیوں کا کہنا ہے کہ بظاہر ماضی کے دو وزراء اعظم کو معزز عدالت سے سزا اور اس معاملہ میں خاصا فرق نظر آرہا ہے ۔

ان صحافیوں کا کہنا ہے کہ یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ یوسف رضا گیلانی اور میاں نواز شریف کو سپریم کورٹ سے سزا دلوانے میں خفیہ قوتوں کا بڑا کردار تھا۔

سابق وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ سال انٹرویو میں یہ انکشاف کیا تھا کہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو نااہل قرار دلانے کے عمل میں سپریم کورٹ کے حکم پر بننے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (J.I.T) میں شامل خفیہ ایجنسیوں کے دو افسروں کا زیادہ اہم کردار تھا مگر یہ جہاںدیدہ صحافی صد فی صد یقین کے ساتھ اپنے یو ٹیوب چینلز پر کہہ رہے ہیں کہ اب حکومت کے ساتھ صورتحال مختلف ہوسکتی ہے۔

اب توہینِ عدالت کے قانون کے بارے میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ سپریم کورٹ کے معزز جج جسٹس اطہر من اﷲ جب اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے تو انھوں نے توہین ِعدالت کے قانون کے تحت سزا کے تصور کو رد کیا تھا مگر ایک طرف ریاست کے دو ستونوں میں تصادم کی صورتحال پیدا ہو رہی ہے تو دوسری طرف ملک کی اقتصادی صورتحال مزید بگڑتی جارہی ہے۔

یوں ملک میں آٹے کی شدید قلت سے چاروں صوبوں میں غریبوں کے ہجوم مفت آٹے یا سستے آٹے کے لیے گھنٹوں سرکاری دکانوں پر لائن لگائے کھڑے رہتے ہیں۔

اب تک ان لائنوں میں بھگدڑ مچنے سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 20 کے قریب پہنچ گئی ہے اور بوڑھے ہلاک ہونے والے علیحدہ ہیں جو آٹے کی لائن میں صبح سے کھڑے ہوئے اور آٹا نہ ملا مگر موت کی وادیوں میں کھو گئے۔

مہنگائی صرف آٹے کی حد تک نہیں بلکہ اشیاء خورونوش سبزیوں، گوشت، دالوں، خوردنی تیل غرض کہ ہر شے کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے۔ ادویات کی قیمتوں میں گزشتہ 3 ماہ میں جتنا اضافہ ہوا ہے وہ ماضی میں سب سے زیادہ ہے۔ پھر ملک بھر میں گیس ناپید ہے۔ بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتیں ہر 15 دن بعد بڑھ رہی ہیں۔

دوست ممالک کے سرد رویہ کی بناء پر آئی ایم ایف کے حکام پاکستان کو سزا دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ حکومت پاکستان نے آئی ایم ایف کی تمام شرائط مان لی ہیں مگر آئی ایم ایف قرضہ دینے کو تیار نہیں ہے۔ بے روزگاری کا طوفان کسی صورت کم نہیں ہو پا رہا۔ ملک کے مختلف علاقوں میں خودکشی کی وارداتیں بڑھ گئی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی شہروں میں اسٹریٹ کرائم بے حد بڑھ گئے ہیں۔ اداروں کی لڑائی سے عوام میں ڈپریشن بڑھنے کے علاوہ کچھ اور نہیں ہورہا ہے۔

بعض ناقدین کا استدلال ہے کہ یہ ریاست بوسیدہ ہوچکی ہے اور بوسیدہ ریاست کے تضادات کا مختلف شکلوں میں اظہار ہورہا ہے۔ سیاسیات کے اساتذہ کا مدعا ہے کہ یہی وقت ہے کہ ایک نئے سماجی معاہدہ (Social Contract) کے لیے بات چیت شروع ہونی چاہیے۔ اس بات چیت میں ریاست کے تینوں ستونوں انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کی حدود کا اس طرح تعین ہونا چاہیے کہ ریاست کا کردار تبدیل ہوجائے۔

یہ ریاست کا سیکیورٹی اسٹیٹ کا کردار ختم کرے۔ اس کو سوشل ویلفیئر اسٹیٹ میں تبدیل کرے۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین کو اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں سے بحران حل نہیں ہوتے بلکہ مزید پیچیدہ ہوجاتے ہیں۔

1954میں پہلی قانون ساز اسمبلی کو توڑنے کے حکم کو جائز قرار دے کر ایسا ہی بحران پیدا کیا گیا تھا ۔ جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے اقتدار پر قبضہ کو قانونی جواز فراہم کیا گیا تھا۔

ایک اور متنازعہ فیصلہ نے 1979میں منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے کر بحران کو مزید شدید کیا تھا۔ میثاقِ جمہوریت میں ایک نئے وفاقی کورٹ کے قیام کی تجویز شامل تھی جو آئینی مقدمات کی سماعت کرے گی۔ یہ عدالت چاروں صوبوں سے تعلق رکھنے والے سپریم کورٹ کے ججوں پر مشتمل ہوگی۔

پارلیمنٹ کو چاہیے کہ اس تجویز پر سنجیدگی سے غور کرے۔ اب بھی وقت ہے کہ سیاسی جماعتیں نئے سماجی معاہدہ پر اتفاق کریں تاکہ یہ ملک بحران سے نکل سکے۔ اداروں کے درمیان تصادم اور ریاست کا ہر معاملہ میں ناکام ہونا نوجوانوں میں مایوسی اور انتہا پسندی کو پروان چڑھا رہا ہے۔ نئے سماجی معاہدہ سے ریاستی اداروں کو تصادم سے روکا جاسکتا ہے۔

https://www.express.pk/story/2466511/268/
=========================================