بہتان تراشی کا گناہ / بغیر ثبوت کے الزام لگانا اور اسلامی تعلیمات

تحریر۔۔۔شہزاد بھٹہ
===========
کسی پر بہتان لگانا شرعاً انتہائی سخت گناہ اور حرام ہے۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں : بے گناہ لوگوں پر الزام لگانا آسمانوں سے زیادہ بوجھل ہے، یعنی بہت بڑا گناہ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاحزاب میں بے گناہ مؤمنین اور بے گناہ مؤمنات کو زبانی ایذا دینے والوں یعنی ان پر بہتان باندھنے والوں کے عمل کو صریح گناہ قرار دیاہے۔
ایک حدیث میں ارشادِ نبوی ہے: مسلمان کے لیے یہ روا نہیں کہ وہ لعن طعن کرنے والا ہو۔ ایک اور حدیث میں ہے: جو شخص کسی دوسرے کو فسق کا طعنہ دے یا کافر کہے اور وہ کافر نہ ہو تو اس کا فسق اور کفر کہنے والے پر لوٹتا ہے۔
ایک روایت میں ہے: جس نے کسی کے بارے میں ایسی بات کہی (الزام لگایا ، تہمت ، یا جھوٹی بات منسوب کی) جو اس میں حقیقت میں تھی ہی نہیں ، تو اللہ اسے (الزام لگانے والے، تہمت لگانے والے ، جھوٹی بات منسوب کرنے والے کو) دوزخ کی پیپ میں ڈالے گا (وہ آخرت میں اِسی کا مستحق رہے گا) یہاں تک کہ اگر وہ اپنی اِس حرکت سے (دنیا میں) باز آ جائے (رک جائے ، توبہ کر لے تو پھر نجات ممکن ہے)۔
(مسند أحمد : 7/204 ، سنن أبي داود : 3597 ، ، تخريج مشكاة المصابيح : 3/436 ، ،3542 )

وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان میں پچھلے کئی سالوں سے بہتان بازی اور الزامات کی سیاست پورے جوبن پر جارھی ھے جس میں صدر وزیر اعظم اپوزیشن لیڈروں سے لیکر تاجے نائی تک سب شامل ھیں روزانہ کی بنیاد پر دوسرے لوگوں خاص طور پر اپنے مخالفین پر طرح طرح کے جھوٹے الزامات و بہتان لگانا ایک عام فیشن بن چکا ھے پرنٹ میڈیا ھو یا الیکڑانک میڈیا ھو یا سوشل میڈیا صبح سے رات گئے تک جس کی چاھیے پگڑیاں اچھالیں اور اپنے مخالفین کو چور ڈاکو کہنے کے سوائے کوئی موضوع نہیں
پاکستان میں لوٹ مار چور بازاری اور کرپشن اور بغیر ثبوت الزامات کی سیاست کو ہمیشہ کے لئے دفن کرنے کے لئے سپریم کورٹ کے موجودہ اور سابقہ غیر جانبدار معزز ججز کی سربراھی میں ھائی پاور اختیاراتی کمشن بنایا جائے جو حقائق کو دیکھتے ھوئے اس بات کا فیصلہ کرے کہ پاکستان کی مختصر 73 سالہ تاریخ میں کن لوگوں اور خاندانوں نے لوٹ مار چوری کرپشن اور اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ھوئے دولت کمائی۔۔۔
اس بات کا جائزہ لینے کے لیے ایک بڑا سادہ سا فارمولہ ھے کہ ان تمام سیاستدانوں سول و ملٹری اسٹبلشمنٹ ،جنرلز بیوروکریسی سرکاری ملازمین تاجر برادری و دیگر افراد جو آج کروڑ و ارب پتی ھیں
ان کی 1947 یا آزادی کے پہلے دس سال تک کیا مالی حالت تھی کتنی جائیدادیں تھیں اور اثاثہ جات کتنے تھے
اور جب کسی بندہ نے سیاست یا سرکاری نوکری اختیار کی تب اس کے اثاثہ جات اور جائیداد کتنی تھیں اور جب وہ ملازمت سے ریٹائرڈ ھوئے تب ان کے اثاثہ کتنے ھیں
اور جہاں تک کاروباری حضرات کی بات ھے ان کا بھی جائزہ لینے بہت ضروری ھے کہ جب انہوں نے کوئی بھی کاروبار شروع کیا ان کی کیا مالی حالت و جائیداد کتنی تھی اور آج کیا حالات ھیں وہ اپنی آمدن سے کتنا ٹیکس وغیرہ ادا کر رھے ھیں
الغرض اپنے مسلمان بھائیوں پر بہتان باندھنے یا اس پر بے بنیاد الزامات لگانے پر اسلامی تعلیمات میں بڑے واضح ہدایات آئی ہیں، اِس لیے اِس عمل سے باز آنا چاہیے اور جس پر تہمت لگائی ہے اس سے معافی مانگنی چاہیے؛ تاکہ آخرت میں گرفت نہ ہو۔
سیاسی پسند و ناپسند اپنی جگہ مگر اپنے اعمال کا حساب آپ نے خود دینا ھے
=======================