یونیورسٹی پروفیسر کے قتل کا ذمہ دار کون ؟ بلاول آنکھیں کھولو ؟ حکومت اور عدالتی نظام جواب دہ ہے ، فرانس پلٹ پروفیسر سمجھا شاید سندھ بدل چکا ہے مگر افسوس ۔۔۔!

یونیورسٹی پروفیسر کے قتل کا ذمہ دار کون ؟ بلاول آنکھیں کھولو ؟ حکومت اور عدالتی نظام جواب دہ ہے ، فرانس پلٹ پروفیسر سمجھا شاید سندھ بدل چکا ہے مگر افسوس ۔۔۔!

========================


سندھ میں ’قبائلی تنازعے‘ میں ہلاک ہونے والے ڈاکٹر اجمل ساوند کون ہیں؟

میں ثانوی سطح کا طالب علم تھا۔ ان ہی کپڑوں (شلوار قمیض) میں انگریزوں کو فرینچ میں پڑھاتا تھا۔ ایک گھنٹے کے 30 ہزار روپے پاکستانی ملتے تھے۔ پھر میں نے فیصلہ کیا کہ اپنے ملک جا کر اپنوں کو پڑھاؤں گا۔‘

ڈاکٹر اجمل ساوند کی یہ ویڈیو گزشتہ روز سے سوشل میڈیا پر وائرل ہے، جس میں وہ طالب علموں کو لیکچر دے رہے ہیں۔

فرانس سے کمپیوٹر سائنس میں پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹر اجمل ساوند کو جمعرات کی صبح کندھ کوٹ کے گھٹ تھانے کی حدود میں فائرنگ کر کے ہلاک کیا گیا۔

وہ فرانس کی یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے، جہاں سے وہ کچھ عرصہ قبل وطن واپس آ گئے تھے۔

کندھ کوٹ کشمور پولیس، ڈاکٹر اجمل کے قتل کو قبائلی تنازعے کا شاخسانہ قرار دیتی ہے۔ ایس ایس پی کشمور عرفان سموں نے بی بی سی کو بتایا کہ قتل سندرانی اور ساوند قبائل میں تصادم کا نتیجہ ہے، جس میں اس وقت تک سات افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

’ساوند قبیلے نے سندرانی قبیلے کے شخص پر کاروکاری کا الزام عائد کیا تھا۔ اس کے بعد اس نے قبائلی تنازعے کی شکل اختیار کی جس میں ایک عورت اور اجمل ساوند سمیت سات افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔‘

’مخالفین نے اکیلا دیکھ کر حملہ کیا‘
اجمل ساوند کے بڑے بھائی ڈاکٹر طارق ساوند بتاتے ہیں کہ ان کے بھائی اپنی آبائی زمینیں دیکھنے گئے اور صبح جب واپس آ رہے تھے تو انھیں روک کر حملہ کیا گیا۔

ان کا دعویٰ ہے کہ ’کوئی قبائلی یا برداری تنازعہ نہیں تھا۔ کچے میں رہنے والے ساوند اور سبزوئی دو گھرانوں میں کاروکاری کا تنازعہ تھا، ہماری کسی سے کوئی دشمنی نہیں تھی۔ جب کوئی بے قصور ہوتا ہے تو اس کو کوئی خوف خطرہ نہیں ہوتا اسی لیے ہی ڈاکٹر ساوند رات کو وہاں کچے میں گئے تھے۔‘

سکھر کے صحافی ممتاز بخاری بتاتے ہیں کہ اجمل ساوند رات کو 12 بجے کچے میں اپنی زمینیں دیکھنے گئے تھے دوسرے روز صبح ان کی آئی بی اے سکھر میں کلاس تھی۔

’وہ جس علاقے میں گئے تھے وہاں ساوند اور سبزوئی لوگوں میں تنازعہ تھا، سبزوئی کمیونٹی کے لوگوں نے انھیں تحفظ فراہم کرنے کا کہا لیکن انھوں نے انکار کیا۔ مخالفین نے انھیں اکیلا دیکھ کر ان پر حملہ کیا۔‘

صحافی ممتاز بخاری کے مطابق ساوند قبیلے کا اس سے پہلے سبزوئی قبیلے سے تنازعہ تھا جو 2007 سے 2017 تک جاری رہا۔

انھوں نے بتایا کہ ’اس تنازعے کی وجہ سے جو پڑھے لکھے خاندان تھے وہ سکھر منتقل ہو گئے، جن میں ڈاکٹر اجمل ساوند کا خاندان بھی شامل تھا۔‘

ساوند قبیلے کے مسلح لوگ ڈاکٹر اجمل کی لاش لے کر ہسپتال پہنچے جہاں ان کا پوسٹ مارٹم کیا گیا۔

ڈاکٹر اجمل کی ہلاکت کے بعد ایک اور ویڈیو بھی وائرل ہوئی، جس میں ڈاکٹر اجمل کی ہلاکت کے بعد موٹر سائیکل سوار خوشی میں ہوائی فائرنگ کر رہے ہیں۔

پولیس کی کچے میں ملزمان کے خلاف کارروائی کی بھی ویڈیو منظر عام پر آئی ہیں، جس میں نظر آتا ہے کہ بکتر بند گاڑی مکانات مسمار کر رہی ہے۔

اس بارے میں ایس ایس پی عرفان سموں کا کہنا ہے کہ ملزمان کے کچے گھر، ان پر دباؤ ڈالنے کے لیے گرائے جاتے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ’ان میں وہ گھر شامل ہوتے ہیں جن کو مورچے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ پولیس کے اس روایتی حربے سے ملزمان دباؤ میں آکر سرنڈر کرتے ہیں۔‘

ایس ایس پی عرفان سموں کے مطابق واقعے کے بعد مشتبہ ملزمان کے گھروں پر چھاپے مارے گئے لیکن وہ فرار ہو چکے ہیں، پولیس جیو فینسنگ بھی کر رہی ہے تاکہ ملزمان تک پہنچا جا سکے۔

ڈاکٹر اجمل ساوند کون تھے؟
کندھ کوٹ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر اجمل ساوند کی بنیادی تعلیم کیڈٹ کالج لاڑکانہ میں ہوئی۔ ادب سے لگاؤ کی وجہ سے وہ وہاں ادبی رسالے اور سووینئر میگزین کے سب ایڈیٹر رہے۔

مہران یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی جامشورو سے سافٹ ویئر انجینئرنگ میں بیچلر آف انجینئرنگ کے بعد وہ سکالرشپ پر فرانس چلے گئے۔

2011 میں یونیورسٹی جین مونیٹ سینٹ ایٹین، فرانس سے کمپیوٹر سائنس (ویب انٹیلیجنس) میں ماسٹرز کیا، اس کے بعد پیرس کی ڈیکارٹس یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

ان کی پیشہ ورانہ تحقیقی دلچسپیوں میں وائرلیس میڈیکل سینسر نیٹ ورکس، وائرلیس باڈی ایریا نیٹ ورکس، وائرلیس سینسر نیٹ ورکس میں سیکورٹی اور وسائل کا انتظام تھا۔

وہ یونیورسٹی آف ڈیکارٹس، پیرس میں ریاضی اور کمپیوٹر سائنس کی فیکلٹی میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر کام کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ پیرس کی سرکاری لیبارٹری میں وائرلیس ہیلتھ کیئر سسٹمز اور ایپلی کیشنز پر تحقیق سے بھی وابستہ رہے اور ایک روز یہ سب کچھ چھوڑ کر وطن لوٹ آئے۔

سکھر میں انھوں نے آئی بی اے میں ملازمت اختیار کی، جہاں وہ کمپیوٹر سائنس فیکلٹی سے وابستہ رہے۔

اجمل ساوند کے ایک دوست سکندر بلوچ نے بی بی سی کو بتایا کہ جب وہ فرانس میں تھے تو انھیں دوستوں نے مشورہ دیا تھا کہ وہ وہاں فیملی سمیت مستقل طور پر رہائش پذیر ہو جائیں۔

’لیکن ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے جو علم سیکھا، اس کی روشنی اپنے علاقے اور اپنے لوگوں میں پھیلانا چاہتے ہیں۔‘

سکندر بلوچ کے مطابق آئی بی اے سکھر کا کندھ کوٹ میں کیمپس قائم ہونے کی منظوری ہو چکی ہے اور اجمل کا خواب پورا ہونے کے قریب تھا۔

کراچی کی این ای ڈی یونیورسٹی کی پروفیسرشہنیلا زرداری مہران یونیورسٹی میں اجمل ساوند کی ہم جماعت رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے ایک دوست کھو دیا۔

’وہ انتہائی شفیق و مددگار انسان تھے۔ وہ طالب علموں کی رہنمائی اور بعض اوقات ان کی مالی مدد بھی کرتے تھے۔‘

شہنیلا زرداری کے مطابق جب وہ پی ایچ ڈی کے بعد وطن واپس آئیں تو یہاں ریسرچ کا اتنا ماحول نہیں تھا تو انھوں نے اجمل سے رابطہ کیا جس کے بعد ان کے کچھ مشترکہ تحقیقی پیپر شائع ہوئے۔

شہنیلا زرداری کے مطابق اجمل ساوند اپنے والدین کی وجہ سے وطن لوٹ آئے تھے۔

ایس ایس پی بدین شاہ نواز چاچڑ ان کے کالج سے دوست رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ سنہ 2019 میں اپنی والدہ کے انتقال کے بعد اجمل نے درویشی اختیار کر لی تھی اور وہ کسی تقریب، ڈنر میں شرکت نہیں کرتے تھے۔

شاہ نواز کے مطابق اجمل اپنی والدہ سے بہت پیار کرتے تھے اور کئی کئی گھنٹے وہاں قبر پر بیٹھے رہتے تھے۔

’وہ لبرل خیالات کے مالک تھے اور بعد میں صوفی ازم کی طرف آ گئے اور نمازی بھی بن گئے۔ انھوں نے سی ایس ایس کی بھی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہو سکے۔ بعد میں وہ فرانس سکالرشپ پر چلے گئے۔ وہ والدین کی وجہ سے واپس آئے۔ اس کے علاوہ ان کو اپنے ہم وطنوں سے بھی بہت محبت تھی۔‘

’ہم اعلیٰ تعلیم یافتہ اور روشن خیال لوگوں کے قابل نہیں‘
ڈاکٹر اجمل ساوند نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنی شناخت میں صوفی لکھ رکھا تھا۔ اپنی ایک ٹویٹ میں وہ لکھتے ہیں کہ ’فرعون، نمرود اور ابوجہل شخصیات نہیں بلکہ کردار تھے، آج بھی یہ کردار کسی نہ کسی شکل میں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں۔ بس ان کو پہچان لیجیے۔‘

ٹوئٹر پر جسٹس فار اجمل ساوند کے عنوان سے ٹرینڈ بھی چلایا گیا، جس میں ملزمان کی گرفتاری کے علاوہ قبائلی سرداری نظام پر بھی تنقید کی گئی۔

سورٹھ سندھو لکھتی ہیں کہ ’ہمارے پڑھے لکھے طبقے کو نشانہ بنانے کے لیے قبائلی تنازعات کو منظم طریقے سے بھڑکا دیا جاتا ہے۔ یہ قوم کا قتل ہے اور ہم اس قوم کے لیے انصاف چاہتے ہیں جس نے ایک سرپرست کھو دیا۔‘

اقصیٰ کینجھر لکھتی ہیں کہ ’ہم واقعی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور روشن خیال لوگوں کے قابل نہیں۔ قبائلی قتل و غارت نے سندھ میں کسی بھی جنگ سے زیادہ خاندانوں کو تباہ کیا۔‘

پارس ابڑو لکھتی ہیں کہ ’وہ صوفی روح اور مہربان طبیعت کے ساتھ انتہائی ذہین انسان بھی تھے۔ وہ ایک قبائلی تنازعہ میں مارے گئے جس کا وہ حصہ نہیں تھے، یہ بحیثیت قوم ہمارے لیے بہت بڑا نقصان ہے۔‘

ماروی لطیفی لکھتی ہیں کہ دن کی روشنی میں پروفیسر کو بے دردی سے قتل کرنا آسان لیکن سندھ میں جڑے قبائلی نظام کو ختم کرنا مشکل ہے۔

خالد حسین کوری لکھتے ہیں کہ اجمل ساوند کا قتل قبائلی تنازعے نے نہیں بلکہ حکومت اور اداروں نے کیا، جو سندھ میں برسوں گزرنے کے باوجود بھی جرائم پیشہ افراد کا خاتمہ نہیں کر سکے۔

فرزانہ علی لکھتی ہیں کہ ’ایک تعلیم یافتہ انسان، ایک شعور کا قتل دیکھ کر دل شدید دکھ و درد کے گھیرے میں ہے۔ اگر بے گناہوں کے قاتلوں کو سزائیں ہوتیں تو ایک اور انسان قتل نہ ہوتا۔‘

سندھ میں ’قبائلی تنازعے‘ میں ہلاک ہونے والے ڈاکٹر اجمل ساوند کون ہیں؟


======================================================

سندھ میں قبائلی تصادم نے ہیرے کو نگل لیا

سلیم احمد مگسی
=====

میری بینک میں ملازمت کے دوران دوست سدھیر ساوند سے ملاقات ہوئی۔ سدھیر تو میرے لیے نیا تھا لیکن لفظ ساوند کئی مرتبہ اخبارات اور ٹیلی ویژن پر سننے کو ملا تھا۔ سندھ کے شہر کندھ کوٹ میں جاری ساوند، سبزوئی قبائلی تصادم کی خبریں روز بروز سننے کو ملتی تھیں جس میں سینکڑوں افراد لقمہ اجل بن چکے تھے۔ انہی قبائلی تصادم کے باعث کئی خاندان اپنے آبا و اجداد کا شہر و زمینیں چھوڑ کر کئی میلوں دور دیگر شہروں میں بسنا شروع ہوئے تاکہ وہ اس قبائلی تصادم جسے میں بلا بھی کہتا ہوں سے چھٹکارا حاصل کر سکیں اور اپنی آنے والی نسلوں کو بہتر سہولیات کے ساتھ تعلیم بھی مہیا کر سکیں۔
میری سدھیر کے ساتھ دوستی ہو چکی تھی، میرا خوشی و غمی پر ان کے یہاں آنا جانا رہتا تھا۔ وہاں میں نے پروفیسر محمد اجمل ساوند کو دیکھا جو فیس بک پر میرے دوست تھے معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ وہ میرے دوست کے قریبی رشتہ دار ہیں جو اس قبائلی تصادم والے ماحول سے نکل کر لاڑکانہ کیڈٹ کالج سے ہوتے ہوئے مہران یونیورسٹی حیدرآباد سے سافٹ ویئر انجینئرنگ کے بعد فرانس سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد سکھر کی نامور آئی بی اے یونیورسٹی میں بطور پروفیسر اپنے فرائض انجام دے رہے تھے۔

کندھ کوٹ سے شروع ہونے والا سفر لاڑکانہ کیڈٹ کالج، مہران یونیورسٹی حیدرآباد سے ہوتا ہوا فرانس تک جاری رہا۔ ویسے یہ سفر ناممکن تو نہیں تھا لیکن قبائلی تصادم میں آئے دن اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھانے کے ساتھ ساتھ جاری رکھنا ناممکن سا لگتا تھا لیکن پروفیسر محمد اجمل ساوند نے ہمت مرداں مدد خدا یہ کٹھن مرحلہ کامیابیوں کے ساتھ پورا کیا۔ فرانس سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہاں مستقل رہائش پذیر والے آپشن کو ختم کرتے ہوئے وہ واپس اپنے وطن کو لوٹے تاکہ اندھیرے میں رہنے والے اپنے لوگوں کو وہاں سے نکال کر جدید تعلیم سے ہمکنار کر سکے کیونکہ وہ اپنے لوگوں کے ہاتھوں میں ہتھیاروں کے بجائے قلم دیکھنا چاہتے تھے اور وہ ایسا کر بھی رہے تھے۔ سننے کو یہ بھی ملا ہے کہ ساوند، سبزوئی قبائلی تصادم جس کا میں اوپر ذکر بھی کرچکا ہوں حل کروانے میں پروفیسر صاحب کا بڑا ہاتھ تھا انہوں نے اپنی صلاحیتوں سے یہ بھی ممکن کر دکھایا تھا۔

سکھر و لاڑکانہ ڈویژن میں صدیوں سے جاری قبائلی تصادم کا مکمل خاتمہ اب تک نہیں ہوسکا ہے۔

ایک تصادم ختم ہوتا ہے تو دوسرا شروع، کیونکہ یہاں جہالت نے جڑیں بے حد مضبوط کی ہوئی ہیں۔ آج بروز جمعرات طبیعت میں ناسازی کے باعث میں کورٹ بھی نہیں جا سکا تھا۔ جونہی نیند سے اٹھا، موبائل سے فیس بک اکاؤنٹ جیسے ہی استعمال کیا تو پہلی ہی خبر پروفیسر محمد اجمل ساوند کی ہلاکت کی پڑھنے کو ملی، ایسا لگا جیسے پیروں تلے زمین نکل گئی ہو۔ پروفیسر صاحب کو کندھ کوٹ سے سکھر واپسی آتے ہوئے راستے میں سندرانی، ساوند تصادم کے تناظر میں نشانہ بنایا گیا۔

اطلاعات کے مطابق یہ قبائلی تصادم حال ہی میں شروع ہوا ہے اور پروفیسر صاحب اس کی نظر اس لئے ہوئے کیونکہ ان کے نام کے آخر میں ان کے قبیلہ کا نام ”ساوند“ آتا ہے، باقی اس تصادم سے ان کا دور دور تک کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ اپنی دھرتی سے محبت کرنے والے صوفی منش انسان پروفیسر محمد اجمل ساوند جو واپس آئے تھے اپنے لوگوں کو اندھیروں سے نکالنے لیکن وہ بدقسمتی سے انہی اندھیروں کی بھینٹ چڑھ گئے۔

پروفیسر صاحب ہیرا کے مانند تھے، ولایت سے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے باوجود بھی نہ رہن سہن بدلا، نہ زبان بدلی اور نہ ہی رویے میں کوئی بدلاؤ آیا۔

گزشتہ پندرہ سالوں سے سندھ میں شہید ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی کی حکومت ہے۔ جن کا نعرہ تھا سرداری نظام کا خاتمہ، اس نعرے کی تکمیل تو نہ ہو سکی لیکن یہ نعرہ پیپلز پارٹی کا جیسے منشور ہی بن چکا ہو کیونکہ مشکل سے سندھ کے ایک یا دو سردار گھرانوں کے علاوہ تمام پاکستان پیپلز پارٹی کا حصہ ہیں۔ یہ بات تو بچہ بچہ جانتا ہے کہ سندھ میں جاری قبائلی تصادم کی بنیاد تو سردار و وڈیرے ہیں اس کے باوجود بھی سندھ حکومت اس بیماری کا خاتمہ اپنے ہاتھ میں اختیارات ہوتے ہوئے بھی نہیں کر سکی۔

اس سے اندازہ لگائیں کہ وہ اپنے لوگوں کے تحفظ کے متعلق کتنے سنجیدہ ہیں۔ آئے دن کئی ماؤں کے بچوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے لیکن مجال ہے حکومت اس لعنت کے خاتمے کے لئے کوئی اقدامات اٹھائیں۔ حکومت اس اہم معاملے کے حل کے لئے کبھی سنجیدہ دکھائی نہیں دی اور جو اس معاملے کے حل کے لئے کوشاں رہے ہیں انہیں بھی راستوں سے ہٹایا جا رہا ہے جیسے پروفیسر صاحب کو ہمیشہ کے لئے ہٹا دیا گیا۔ سندھ کے عوام کو سوچنا ہو گا کہ انہیں کن کے ساتھ کھڑا ہونا ہے؟

ان کے ساتھ جو چاہتے ہوئے بھی انہیں اس قبائلی تصادم جیسی بلا سے جان چھڑوانے کو تیار نہیں اور دوسرے وہ جو اپنی پر آسائش زندگی کو ایک طرف رکھ کر ان کے روشن مستقبل کے متعلق سوچتے ہیں۔ بہرحال سندھ کے لوگوں کو سوچنا ہو گا اس سے قبل کہ کوئی اور پروفیسر محمد اجمل ساوند نہ بنے۔ پس پروفیسر صاحب کا قتل لمحہ فکریہ ہے اور یہ بات سندھ کی حکومت کو بھی سمجھنی چاہیے۔

سندھ میں قبائلی تصادم نے ہیرے کو نگل لیا


================================================================


سندھ میں جاری قبیلائی دہشتگردی اور پروفیسر اجمل ساوند کا قتل!

علی انس گھانگھرو
=====

سندھ کے علاقے کندھ کوٹ میں 6 اپریل جمعہ رات صبح کے وقت قبیلائی دہشتگردی میں آئی بی اے یونیورسٹی سکھر کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر اجمل ساوند کو برادری /ذات کے بنیاد پر فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا۔ قتل کے بعد سندرانی دہشتگردوں نے خوشی میں فائرنگ کرتے ہوئے ویڈیو بھی رکارڈ کرلی، کہ شاید اس مرتبہ کوئی پڑھا لکھا افسر قتل کیا ہے۔ انہیں پتا ہی نہیں تھا کہ انہوں نے فرانس کی یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس / آئی ٹی میں پی ایچ ڈی ڈاکٹر پروفیسر کو قتل کر دیا ہے۔

ڈاکٹر اجمل کا تعلق کندھ کوٹ کے نواحی علاقے سے ہے، لیکن اس وقت وہ اپنے خاندان سمیت سکھر کی سوسائٹی میں رہائش پذیر ہیں۔ ڈاکٹر اجمل کے بڑے بھائی طارق ساوند اور چچا ڈاکٹر ہیں، جبکہ کزن وغیرہ ایف آئی اے اور دیگر محکموں میں افسر ہیں، ان کا خاندان ساوند قبیلے میں معزز پڑھا لکھا ہے جسے آپ سرداری گھرانا کہ سکتے ہیں مگر انہوں نے اپنے نام کے ساتھ کبھی لفظ سردار یا وڈیرہ نہیں لگایا۔

ڈاکٹر اجمل کا قتل کیوں ہوا؟ کندھ کوٹ کے نواحی علاقے میں کچھ عرصہ قبل دو قبائل سندرانی اور ساوند میں کارو کاری کے فرسودہ نظام کے تحت ساوند فریق نے اپنی ایک خاتون اور سندرانی شخص کو الزام کے تحت قتل کر دیا۔ جوابی طور پر سندرانی قبائل نے پلاند میں ایک ساوند کو قتل کر دیا، جوابی طور پر دو سندرانی افراد کو قتل کر دیا گیا۔ لیکن یہ جھگڑا دو خاندانوں کے بیچ میں تھا۔ اس جھگڑے سے ڈاکٹر اجمل یا ان کے خاندان کے کسی فرد کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ ڈاکٹر اجمل اپنی زمینیں گھومنے اور گوٹھ کا چکر لگانے چلے گئے انہیں پتا نہیں تھا شاید وہ اپر سندھ کو فرانس کا شہر پیرس سمجھ بیٹھا تھا۔ جیسے ہی وہ واپسی سکھر کے طرف آ رہے تھے صرف برادری ذات قبائل کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا اور موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

ڈاکٹر اجمل ساوند صوفی ازم، تصوف پر یقین رکھنے والے نوجوان تھے، ان کی اپنی زبانی ہے کہ وہ فرانس میں ایک گھنٹہ پڑھانے کے 30 ہزار روپے لیتے تھے۔ لیکن انہوں نے فرانس یورپ میں رہنے کو ترجیح دینے کے بجائے واپس اپنے ملک میں آیا، تاکہ وہ یہاں پر تعلیم دے سکیں۔ وہ چاہتے تھے کہ اپر سندھ جہاں قبیلائی دہشتگردی، اغوا برائے تاوان، چوری، ڈکیتی، قتل و غارت، کارو کاری جیسی فرسودہ رسومات ہیں، ان کا خاتمہ ہو، اور یہاں کے بچے لڑکے لڑکیاں انفارمیشن ٹیکنالوجی میں اعلی تعلیم حاصل کر کے ملک و قوم کا نام روشن کریں۔ اور جہالت کا خاتمہ ہو سکے، ڈاکٹر اجمل ساوند کی میت کندھ کوٹ سے سکھر لائی گئی تو بڑی تعداد میں شہری، سول سوسائٹی، مختلف سیاسی سماجی جماعتوں کے کارکن، اساتذہ، طلبہ نے پہنچ کر نماز جنازہ میں شرکت کی۔

سندھ میں گزشتہ 15 سالوں سے پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ شہید بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سندھ میں پیپلز پارٹی کو اقتدار ملا اس وقت بھی حکومت ان کے پاس ہے۔ سندھ میں سکھر لاڑکانہ ڈویژن پر مشتمل بیلٹ کو اپر سندھ کہا جاتا ہے۔ ان میں سکھر، گھوٹکی، کندھ کوٹ، کشمور، گھوٹکی، جیکب آباد، لاڑکانہ، قمبر شہداء کوٹ، خیرپور شامل ہیں۔ دریائے سندھ کے دونوں جانب کچے کا علاقہ لگتا ہے، کشمور سے صوبہ پنجاب اور کندھ کوٹ سے لے کر جیکب آباد اور قمبر شہداد کوٹ تک بلوچستان کی سرحد لگتی ہے۔

سندھ میں جتنے برادری تکرار، قتل و غارت، اغوا برائے تاوان، زمینوں پر قبضہ کے جھگڑے ہوتے ہیں وہ ان ہی علاقوں میں ہوتے ہیں۔ یہاں پر سرداری نظام، جاگیرداروں کا نظام ہے، ان علاقوں سے ہمیشہ حکمران جماعت کے ایم این اے ایم پی اے بھی سردار منتخب ہوتے ہیں اور وہ اس وقت تمام کے تمام پیپلز پارٹی میں شامل ہیں۔ کچے کے علاقے میں فاریسٹ کی لاکھوں ایکڑ زمین پر سرداروں کا قبضہ ہے، ڈاکوؤں ان زمینوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور ساتھ میں وہ منتخب نمائندے، سردار کی پشت پناہی پر انتخابات میں پولنگ جتواتے ہیں۔

جعلی ٹھپے لگا کر بیلٹ باکس بھرتے ہیں اور ہر کام سرداروں کے لئے سرانجام دیتے ہیں۔ جب کسی قبائل کا جھگڑا ہوتا ہے تو ان میں آج تک نہ کوئی سردار قتل ہوتا ہے نہ ان کا بیٹا، نہ کوئی ایم این اے قتل ہوتا نہ ایم پی اے نہ ہی سینیٹر قتل ہوتا ہے۔ قتل عام غریب لوگ ہوتے ہیں اور پڑھے لکھے افراد کو قتل کیا جاتا ہے۔

سندھ میں قبیلائی دہشتگردی میں ملوث عناصر کے خلاف نہ کارروائی ہوتی ہے نہ کوئی ملزم گرفتار کیا جاتا ہے۔ ان جھگڑوں کا فیصلہ بھی سردار کرتے ہیں قتل قتل میں برابر کر کے فریقین کی صلح کرائی جاتی ہے۔ کچھ سال قبل سندھ ہائی کورٹ سکھر بینچ میں جسٹس صلاح الدین پنہور نے جرگوں پر پابندی عائد کردی تھی۔ وقتی طور پر عمل ہوا لیکن عدالتی نظام سلو اور سست ہونے کی وجہ سے جرگے شروع ہو گئے۔ لیکن ایک فائدہ یہ ہوا کہ قتل کے بدلے بچیوں کی کم عمری میں شادی کرائی جاتی تھی وہ عمل رک گیا ہے۔

سندھ میں اس وقت سندھ حکومت کی جانب سے ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن شروع کی جا رہی ہے، مگر پولیس سے زیادہ جدید اسلحہ راکٹ لانچر، جی تھری جیسے ہتھیار ڈاکوؤں کے پاس ہیں۔ یہ جدید اسلحہ ڈاکوؤں کے پاس کیسے پہنچتا ہے؟ ان کی مالی سپورٹ کون کر رہا ہے؟ کیوں کہ اسی کشمور میں درانی مہر تھانے کے حدود میں پولیس آپریشن کے دوران ڈاکوؤں کے حملے میں ایک ایس او شہید ہو گا جبکہ ڈی ایس پی سمیت 4 اہلکار زخمی ہو گئے۔ سندھ ہائی کورٹ سکھر بینچ میں جسٹس صلاح الدین پنہور نے فیصلہ دیا تھا کہ جہاں کوئی قتل یا نقصان ہو جائے وہاں کے سردار کو گرفتار کیا جائے۔

ڈاکوؤں قاتلوں کے سرپرست، بینیفشریز، سہولت کار وائٹ کالر پکے کے ڈاکوؤں کو ختم کیا جائے۔ اس وقت جہاں پر الیکشن کرانے کے لئے سیاسی کشمکش چل رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری، وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ، آصف علی زرداری کو چاہیے کہ وہ سندھ کی طرف توجہ دیں، جہاں پر سندھ جل رہی ہے لوگو ڈاکوؤں، قاتلوں، کے رحم و کرم پے ہیں۔ کبھی آنکھوں کا ہندو سرجن ڈاکٹر بیربل قتل ہوتا ہے تو کہیں آئی بی اے یونیورسٹی سکھر کا پروفیسر ڈاکٹر اجمل قتل ہو رہا ہے۔

سندھی لوگ آج تک پیپلز پارٹی کو ووٹ دے رہے ہیں، وہ پنجاب یا کے پی کی طرح ہر مرتبہ حکومت بھی تبدیل نہیں کرتے۔ آئے دن بے نظیر بھٹو قتل ہوتی ہے تو کبھی مرتضیٰ بھٹو قتل ہوتا ہے تو کبھی ذوالفقار علی بھٹو بھوک کی وجہ سے پھانسی پر لٹکا دیا جاتا ہے۔ لیکن حکومت ٹس سے مس نہیں ہوتی۔ سندھ میں ڈاکٹر اجمل کے قتل پر سوگ چھایا ہوا ہے۔ سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ چل رہا ہے۔ حکومت فوری طور پر سندھ کی طرف توجہ دے امن امان کی صورتحال بہتر بنائی جائے۔ قتل میں عناصر کو گرفتار کر کے کیفر کردار تک پہنچایا جائے تاکہ کل کسی اور پروفیسر کو قتل نہ کیا جائے۔

سندھ میں جاری قبیلائی دہشتگردی اور پروفیسر اجمل ساوند کا قتل!


==========================================================