مار نہیں ۔۔۔پیار


تحریر ۔۔۔۔۔شہزاد بھٹہ
================
(یہ تحریر کرونا وائرس کے زمانے میں لکھی گئی تھی )
محکمہ تعلیم میں ہونے والی ٹریننگز میں یہ سن سن کر کان پک گئے کہ ڈنڈا اٹھانے کا مطلب ہے کہ آپ تسلیم کر چکے ہیں کہ آپ میں سمجھانے کی اہلیت نہیں۔
اس لیے سکول میں ۔۔۔مار نہیں ۔۔۔پیار
یہ کہنے والے دانشور آج کل کرونا وائرس کے دور میں کہاں ہیں؟
لاک ڈاؤن ختم کریں، کرفیو کا سوچنا بند کریں، عوام سے نہایت ہی پیار، محبت اور شفقت کے ساتھ، بغیر گھورے، بغیر مارے، بغیر بال پکڑے، بغیر کان اور بازو مروڑے، بغیر چٹکی کاٹے ۔بغیر تھانے میں بند کئے بس گزارش کریں کہ اپ برائے مہربانی اپنے اپنے گھروں میں بیٹھ جائیں، عوام بیٹھ جائیں گے۔
اگر عوام پھر بھی اپنے گھروں نہ رھیں
تو استاد کو اپنے طالب علم کو سزا دیتے ہوئے “رنگے ہاتھوں” پکڑنے پر منہ سے جھاگ اڑاتے ہوئے اسے قرار واقعی سزا دلوانے اور نمونہ عبرت بنانے کا مطالبہ کرنے والے حکومتی عہدیدار ۔بیورکریٹ۔ اینکرز اور دانشوروں کو عوام کو گھروں میں بیٹھنے کی ذمہ داری دے کر چوکوں چوراہوں اور گلی محلے میں کھڑا کر دیں، اور تب تک وہیں کھڑا رہنے دیں جب تک یہ دانشوری سے تائب نہ ہو جائیں۔
کیونکہ اگر یہ ڈنڈے برسانے، موٹر سائیکلوں کی ھوا نکالنے، دفعہ 144، لاک ڈاؤن، کرفیو اور جرمانوں کے بغیر بڑے اور سمجھدار شہریوں کو صرف گھروں میں بیٹھنے پر قائل نہیں کر سکتے تو انہیں کوئی حق حاصل نہیں کہ یہ ان اساتذہ کے بارے میں ہرزہ سرائی کریں جنہوں نے بچوں کو صرف بٹھانا نہیں بلکہ گھروں سے پکڑ کر سکول لا کر پڑھانا بھی ہوتا ہے اور پھر ان کے بہترین رزلٹ کی ذمہ داری بھی اٹھانی ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پولیو کے قطرے، جلسے جلسوں میں حاضری ،مردم شماری مہم اور الیکشن میں ڈیوٹی بھی دینی ھوتی ھے اور اگر اس میں استاد کامیاب نہ ھوا تو پھر تبادلے اور دیگر سزائیں بھی موجود ھیں
لیکن یہ ایک حقیقت ھے کہ جب سے دنیا وجود میں ائی ھے تب سے ساری انسانی بیماریوں کا علاج صرف ڈانڈا ھے اس کے آپ کسی بھی ملک میں چلے جائیں وھاں قوانین پر عمل درآمد کروانے کے سزائیں جرمانے لاگو ھیں جس کو آپ ڈانڈا کا استعمال کہہ سکتے ھیں چلیں پاکستان کی بات کرتے ہیں آپ جی ٹی روڈ یا کسی شہر کی سڑک پر سفر کریں تو آپ کے رویوں کچھ اور ھوں گئے ٹریفک قوانین کی پابندی بہت دور کی بات ھوتی ھے ھر انسان اپنی مرضی سے بھاگ رھا ھے قوانین گئے بھاڑ میں اور جب یہی حضرت انسان موٹر وے پر سفر کرتے ہیں تو تیر کی طرح سیدھا اور ٹریفک قوانین کے مطابق گاڑیاں چلائیں گئے ساری فرعونیت غائب ھو جاتی ھے کیونکہ وھاں موٹر وے پولیس کے پاس ڈانڈا ھوتا ھے
۔تو جناب تعلیمی اداروں میں مار نہیں پیار کی بجائے پیار کے ساتھ ساتھ ڈانڈا بھی لازمی ھونا چاھیے اور ھاں ایک بات کوئی بھی استاد اپنے کسی بچے کو ناجائز سزا نہیں دیتا بلکہ صرف اصلاح کے لیے ھی سزا کا استعمال کرتا ھے تاکہ طلبہ کی زندگیوں میں ڈسپلن پیدا ھو سکے
===================