شبانہ اعظمی کی زنگی میں پیش آمدہ حیرت انگیز واقعات و حادثات؟؟؟؟

“آخری قسط”

کراچی (تحریرو ترتیب*آغاخالد)

………………….
شبانہ اعظمی کی والدہ شوکت کیفی اپنی سوانح “یادوں کی رہ گزر” میں لکھتی ہیں کہ ہمارے گھر اس زمانے کے معروف دانشور ادیب اور شعرا آیا کرتےتھے بلکہ کیفی کی وجہ سے کئی کئی روز مہمان بھی بنتے ان کی صحبت نے بھی شبانہ کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کئے ایسی شخصیات میں سجاد ، ظہیر، جوش ملیح آبادی ، فراق گورکھ پوری اورایک بار مخدوم محی الدین بھی ٹہرے،شبانہ نے اداکاری سکھانے والے انسٹیٹیوٹ میں پہلی پوزیشن حاصل کی، اس کی ذہانت سے متاثر ہوکر اسےانسٹیٹیوٹ کی طرف سے اسکالرشپ بھی مل گئی، اس کی پہلی فلم “انکور” نےنیشنل ایوارڈ حاصل کرلیا، ایک فلم میں شبانہ کا کردار اسی طبقے کی عورت کا تھا اس لیے شبانہ نے اپنے کردار کو سمجھنے اور یادگار بنانے کے لیے اس جگہ جمعدارنی کا کام کرنے والی اس لڑکی سے دوستی کرلی ایک دن وہ لڑکی شبانہ کو اپنے گھر لے گئی اس کی غریبی دیکھ کر شبانہ کا سر چکرا گیا وہ لڑکی اور اس کے گھر والے جس حال میں زندگی بسر کر رہے تھے اسے دیکھ کر شبانہ کا دل کٹ کے رہ گیا، ، جب شوٹنگ ختم ہوئی تو شبانہ نے سوچا کہ مجھے اس لڑ کی کے لئے کچھ کرنا چاہیے، 1997 میں شبانہ راجیہ سبھا میں ممبر آف پارلیمنٹ بنی اندر کمار گجرال صاحب جو اس وقت کے پرائم منسٹر اور وینکٹ رام جو اس وقت صدر جمہوریہ تھےان دونوں کی مرضی سے شبانہ کو ایم پی نا مزد کیا گیاتھا، شبانہ کی سیاسی زندگی میں دوسرا ٹرننگ پوائنٹ صفدر ہاشمی کا بہیمانہ قتل تھا، شبانہ کی پہلی انگلش فلم amam nousatzka کا پریمیر ہونے والا تھا شبانہ کو اسٹیج پر بلایا گیا شبانہ نے جب اپنے ہاتھ میں مائک لیا لوگوں نے سمجھا کہ اب وہ اپنی فلم کے متعلق کچھ کہے گی لیکن اسے تو کچھ اور ہی کہنا تھا بہت ہی نڈر ہو کر اس نے کہا ایک طرف تو یہ گورنمنٹ انٹر نیشنل فلم فیسٹیول کراتی ہے اور دوسری طرف ہمارے صفدر ہاشمی کو جب بر سر اقتدار پارٹی کے غنڈے جان سے مار دیتے ہیں تو اس کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیتی یہ سنتے ہی سامعین میں بیٹھے ہوئے منسٹر آف انفارمیشن اینڈ براڈ کاسٹنگ مسٹر ایچ کے ایل بھگت نے فوراً ہی اسٹیج پر پہنچ کر شبانہ کے ہاتھ سے مائک لے لیا اور کہا کہ یہ بات بلکل غلط ہے، اس کے بعدایچ کے ایل بھگت نے سر کاری ریڈیواور ٹی وی چینل پر شبانہ کے پروگرام بند کر دیے پھر کچھ دن بعد راجیو گاندھی نے جو اس وقت وزیر اعظم تھے کہا یہ بیوقوفی ہے اور شبانہ پر سے یہ پابندی ہٹا دی جائے،جھونپڑ پٹی مسمار کرنے کے خلاف بھوک ہڑتال میں شبانہ نے بھی حصہ لینے کافیصلہ کیا، مئی 1986 کی شام کو جب میں اپنی بچی سے ملنے گئی تو اس جگہ کو دیکھ کر میری جان نکل گئی لب سڑک کچھ پھٹی چادروں سے برائے نام چھت بنائی گئی تھی دھوپ بہت تیز تھی نیچے لکڑی کے تختوں پر موٹی سی دری بچھی ہوئی تھی نہ گدا نہ تکیہ، بس اوڑھنے کے لیے کچھ پرانی پھٹی چادریں اس چھوٹی سی جگہ پر پانچ چھ لوگ لیٹے ہوئے تھے، ہڑتال کا پانچواں دن تھا ششی کپور شبانہ سے ملنے آئے اس وقت تک شبانہ بہت کمزور ہو گئی تھی بلڈ پریشر بے حد گر چکا تھا وہ فوراً ہی چیف منسٹر ایس بی چوہان سے ملے اور شبانہ کی بھوک ہڑتال کے متعلق بتایا،
…………………….
(بالی وڈ سےشہرت حاصل کرنےوالی برصغیرکی بیک وقت معروف اداکارہ اورسیاستداں شبانہ اعظمی کا بچپن صنفی عصبیت کاشکار رہا اور اپنے بھائی کی نسبت انہیں نظراندازکئے جانے پر انہوں نے لڑکپن میں دومرتبہ خودکشی کی کوشش کی مگر شاید تقدیر کی لکھی کہانی کی تکمیل کی خاطر دونوں مرتبہ وہ حیرت انگیز طور پر بچ گئیں اور ایسا رویہ ان کی اپنی والدہ کی جانب سے روا رکھا گیا جنہوں نے بعد ازاں اپنے اس رویہ کی تصدیق اپنی جانب سے شائع کردہ سوانح عمری میں کیا شبانہ اعظمی کا بچپن بھی غربت، مفلسی اور کسم پرسی کی آخری حدود کوچھوتے گزرا، ان کی پیدائش (یعنی دنیاء میں آمد) کی بھی ان کے والدین کی پسندیدہ “کمیونسٹ پارٹی” نے شدید مخالفت کی، آج شہرت اوردولت ان کےگھرکی لونڈی ہےمگران کابچپن مایوسیوں، آزمائشوں محرومیوں کےایسےماحول میں بیتاہےکہ ان کی اپنی والدہ اورممتاز اداکارہ صداکارہ ادیب ادب پرست شوکت کیفی کی “سوانح حیات” پڑھ کرروح تک کانپ اٹھتی ہےاورجس ماحول میں شبانہ اعظمی کا بچپن گزرا اورخواب بننے کے دن انہوں نے جیسے گزارے اسے جہد مسلسل کی شاندار مثال کہاجا سکتا ہے آج کی سہل پسند نسل کے لیے وہ مثال ہے، کامیابیوں کی سیڑھیاں چڑھتے مشکل سفرکےساتھ تعلیم حاصل کی وہ بھی آج کی پیڑھی کےلئے سبق آموزہے درحقیقت محترمہ شوکت کیفی کی ”یادکی رہ گزر“ ایک ایسی داستاں ہےجس کا ہر کردار اپنی ذات میں انجمن ہے چہ جائکہ شوکت کیفی کی تحریر میں ایک غیر جانبدار مصنف سے زیادہ الفت مادری نمایاں ہے کیا بہتر ہوتا کہ وہ ممتا کا انس ایک طرف رکھ کر ایک ناقد کی حیثیت سے یہ تصنیف تحریر کرتیں تو شبانہ اعظمی کی شاندار سوانح تاریخ کامستند ورق بن جاتا اس کامطلب ہرگز یہ نہ لیاجائے کہ محترمہ شوکت کیفی نے شبانہ اعظمی کی بے مثال خدمات اور کارناموں کا جوذکر کیاہے وہ درست نہیں شبانہ جیسی قابل فخر بیٹی کے لئے جو لکھا وہ بہت کم ہے نہ ہی میں ایک ناقد کے کردار میں اس وقت ہوں مگر ہر بندہ بشر ہے اور بشری کمزوریاں ہی اسے نظام کائنات میں ممتاز بناتی ہیں مگر “یاد کی رہ گزر” میں شاید ایک ماں کو عمر کے آخری حصہ میں اپنی لائق فائق بیٹی سے اس کے بچپن میں برتے رویہ پر ندامت ہو اور وہ اس کے ازالہ میں یوں حد سے گزر گئیں پھر بیٹی نے بھی ماں اور باپ کا آخری سہارے کا وہ عظیم کردار نبھایا جو مشرقی بیٹیوں کی انفرادیت ہے اس لیے “یادوں کی رہ گزر” پر تبصرہ کرنے والا اس کا تعین کرنے میں عقل کھو سکتاہے کہ ان کرداروں میں زیادہ عظیم کون ہےاورکسے وہ مرکزی کردار سونپے، آہ کیا شاندار خاندان ہے جس کا سفر ڈیڑھ صدی سےجاری ہے اور شاید صدیوں تک یاد رکھا جائے گا ترقی پسندوں کاجوچہرہ ہمیں پاکستان میں دیکھنے کو ملا شوکت نے ہمیں اس کے بلکل برعکس وہ کردار کے غازی دکھائے جنھیں بے داڑھی کے فرشتے کہا جائے تو انصاف ممکن ہے بغیر تیمم کے انسانیت کی عظمتوں کو چھونے والے یہ لوگ ہی ترقی پسندوں کے سالار قافلہ بننے کے لائق تھے اور انہی کی وجہ سے یہ تحریک روس کے بعد برصغیر میں اس قدر مقبولیت حاصل کر پائی)
:میرے پیروں تلے تو جیسے زمین نکل گئی میں رونے لگی:
پر تھوی راج جی نے فورا آرڈر دیا کہ بس واپس لے چلو دس میل پلٹ کر مندر پہنچے تو دیکھا میری بچی ایک بڑے سے درخت کے نیچے اکیلی کھڑی رو رہی تھی مجھے اس کا سہما ہوا چہرہ آج بھی یاد ہے، زیورس کالج سےبی اے کرنے کے بعد شبانہ نے ابا سے کہا میں آگے پڑھنا نہیں چاہتی بلکہ پونا انسٹی ٹیو ٹ سے ایکٹنگ کورس کرنا چاہتی ہوں اس نے کہا، شاید میں فلموں میں کام نہ کروں لیکن ٹیچر بن کر ایکٹنگ سکھائوں گی کالج میں بھی شبانہ نے اسٹیج پر کافی کام کیا تھا کیفی اپنی بیٹی کو اتنا چاہتے تھے کہ فوراً راضی ہوگئے اسے خود اپنے ساتھ پونا لے گئے میں بھی ساتھ تھی انٹر ویو کے دوران ٹیچر اس کی صلاحیت سے حیرت میں پڑ گئے اور اسے فورا منتخب کر لیا گیا کچھ ہی دنوں بعد اسے ڈھائی سو روپوں کی اسکالر شب بھی مل گئی اس کی فیس دو سو روپیہ مہینہ جو مجھے دینی پڑتی تھی اب اسکالر شپ سے دی جانے لگی شبانہ کی رپورٹ اتنی اچھی تھی کہ پہلے ہی سال میں اسے فلم کی آفر بھی آگئی لیکن اس نے یہ کہ کر صاف انکار کردیا کہ میں پہلے اپنا دوسال کا کورس ختم کرنے کے بعد ہی سوچوں گی دوسال بعد اس نے فرسٹ کلاس میں کورس مکمل کیا اور اسے انسٹی ٹیوٹ نے گولڈ میڈل سے نوازا، شیام بینیگل نے اسے اپنی فلم “انکور” کے لیے آفر دی یہ شبانہ کی پہلی فلم تھی اور پہلی ہی فلم میں اسے نیشنل ایوارڈ مل گیا پھر فلموں کی قطار لگ گئی لیکن شبانہ نے ہمیشہ بہت سوچ سمجھ کر فلمیں سائن کی ہیں اس نے کچھ کمرشل فلموں میں کام کرنا اس لیے منظور کیا تاکہ جب وہ کسی آرٹ فلم میں کام کرے تو لوگ اس کے نام پر ایسی فلم بھی دیکھنے آئیں جن دنوں فلموں میں وہ بے پناہ مصروف تھی اس کے سارے کانٹریکٹ اور پیسے میں ہی سنبھالتی تھی اس نے کبھی بھول کر بھی نہیں پوچھا کہ میں نے اس کے پیسے کہاں رکھے کیا کیے ایک مرتبہ احمد آباد میں شوٹنگ کے دوران شبانہ نے کچھ چاندی کے زیورات خرید لیے مجھ سے کہنے لگی ممی مجھ سے کافی فضول خرچی ہوئی ہے یہ چاندی کے زیور خرید لیے میں نے سمجھایا بیٹے یہ فضول خرچی نہیں ہے تمہارا شوق ہے اتنی محنت کرتی ہو پیسے کماتی ہو جو چیز تمہیں پسند آئے خرید لیا کرو بچپن میں شبانہ کو کیفی کبھی کبھی اپنے ساتھ مزدوروں کی بستی یا میٹنگوں میں بھی لے جایا کرتے تھے اس کا اثر بھی اس پر تھا کیفی کی وجہ سے بڑے بڑے ادیب اور شاعر ہمارے گھر آیا کرتے تھے اور ہمارے ساتھ رہا بھی کرتے تھے مثلا سجاد ، ظہیر، جوش ملیح آبادی ، فراق گورکھ پوری ایک بار مخدوم محی الدین بھی ہمارے مہمان ہوئے تھے شبانہ نے اپنے بچپن میں ان لوگوں کی محفلیں دیکھی ہیں ان کی باتیں سنی ہیں مجھے یقین ہے کہ آگے چل کے شبانہ کی جوشخصیت بنی اس میں گھر کے ایسے ماحول کا بھی بڑا حصہ ہے 1985 میں شبانہ بنگال کے مشہور ڈائرکٹر گوتم گھوش کی فلم “پار” کی شوٹنگ کے لیے کل کتے گئی “پار” کی کہانی بنگال اور بہار کے گائوں کے ان بے روزگار اور غریب لوگوں کے بارے میں تھی جو دو وقت کی روٹی کی تلاش میں شہر آکے گندی بستیوں میں اور فٹ پاتھوں پر رہتے ہیں شبانہ جس گیسٹ ہائوس میں ٹھہری تھی وہاں جھاڑو دینے والی لڑکی بھی ایسی ہی ایک بستی کی تھی کیونکہ فلم میں شبانہ کا کردار اسی طبقے کی عورت کا تھا اس لیے شبانہ نے اپنے کردار کو سمجھنے اور یادگار بنانے کے لیے اس لڑکی سے دوستی کرلی ایک دن وہ لڑکی شبانہ کو اپنے گھر لے گئی اس کی غریبی دیکھ کر شبانہ کا سر چکرا گیا وہ لڑکی اور اس کے گھر والے جس حال میں زندگی بسر کر رہے تھے اسے دیکھ کر شبانہ کا دل کٹ کے رہ گیا وہ لوگ اپنی غریبی کے باوجود کتنے مہمان نواز تھے جب شوٹنگ ختم ہوئی تو شبانہ نے سوچا کہ مجھے اس لڑ کی کے لئے کچھ کرنا چاہیے کیونکہ مینے اس لڑکی سے مل کر یہ سیکھا ہے کہ مجھے اپنا رول کس طرح کرنا چاہیے کل یہ فلم ریلیز ہوگی میری تعریف ہوگی مجھے ایوارڈ ملیں گے لیکن اس لڑکی کو کیا ملے گا کیا یہ سچ نہیں ہے کہ میں اسے اپنے کام اپنے کیرئیر اپنی شہرت کے لیے استعمال کر رہی ہوں کل میں بمبئی واپس چلی جائوں گی اور اپنی دنیا میں جا کے بھول جائوں گی کہ وہ لڑکی جو مجھے اپنا ہمدرد سمجھ کے اپنے گھر لے گئی تھی آج بھی اسی حال میں ہے اور شاید ہمیشہ یونہی رہے گی کیا اسے بھول جانا میری خود غرضی نہیں ہوگی نہیں ، میں اسے بھولنا نہیں چاہتی مجھے اس لڑکی کے لیے اور اس طرح جینے والے لوگوں کے لیے ضرور کچھ نہ کچھ کر نا چاہیے اس نے اپنے دل میں فیصلہ کر لیا شبانہ کی سیاسی زندگی میں دوسرا ٹرننگ پوائنٹ صفدر ہاشمی کا بہیمانہ قتل تھا صفدر جو خود ایک سماجی کارکن اور بہت اچھے رائٹر تھے نکو نا ٹک کیا کرتے تھے دہلی کے قریب ایک انقلابی نکو ناٹک کے دوران انہیں کچھ سیاسی غنڈوں نے دن دہاڑے سڑک پر بڑی بے دردی سے قتل کردیا اس وقت دہلی میں انٹر نیشنل فلم فیسٹیول ہو رہا تھا جس میں شبانہ کی پہلی انگلش فلم amam nousatzka کا پریمیر ہونے والا تھا شبانہ کو اسٹیج پر بلایا گیا شبانہ نے جب اپنے ہاتھ میں مائک لیا لوگوں نے سمجھا کہ اب وہ اپنی فلم کے متعلق کچھ کہے گی لیکن اسے تو کچھ اور ہی کہنا تھا بہت ہی نڈر ہو کر اس نے کہا ایک طرف تو یہ گورنمنٹ انٹر نیشنل فلم فیسٹیول کراتی ہے اور دوسری طرف ہمارے صفدر ہاشمی کو جب بر سر اقتدار پارٹی کے غنڈے جان سے مار دیتے ہیں تو اس کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیتی یہ سنتے ہی سامعین میں بیٹھے ہوئے منسٹر آف انفارمیشن اینڈ براڈ کاسٹنگ مسٹر ایچ کے ایل بھگت نے فوراً ہی اسٹیج پر پہنچ کر شبانہ کے ہاتھ سے مائک لے لیا اور کہا کہ یہ بات بلکل غلط ہے اور پتہ نہیں کیا کیا، ہم ٹی وی دیکھ رہے تھے شبانہ کی یہ جرات دیکھ کر جاوید اور کیفی تو بہت خوش ہوئے لیکن میں کچھ گھبرا سی گئی بعد میں مجھے پتہ چلا کہ اس فلم فیسٹیول میں بمبئی فلم انڈسٹری کے دوسرے ڈیلی گیٹس اور بڑے بڑے پروڈیوسر و ایکٹر بھی شریک تھے جو بعد ازاں شبانہ سے ایسے لاتعلق ہو گئے جیسے پہنچانتے ہی نہیں، بیچارے سوچتے ہوں گے کہیں اس کے ساتھ ہم پر بھی سرکاری بجلی نہ گر پڑے شبانہ بلکل تنہا ہوگئی اخباروالوں نے شبانہ کی ہمت و جرات کی خوب داد دی لیکن ایچ کے ایل بھگت نے سر کاری ریڈیواور ٹی وی چینل پر شبانہ کے پروگرام بند کر دیے پھر کچھ دن بعد راجیو گاندھی نے ، جو اس وقت وزیر اعظم تھے کہا یہ بیوقوفی ہے اور شبانہ پر سے یہ پابندی ہٹا دی جائے اسی عزم و حوصلے سے قدم بہ قدم چلتے ہوئے شبانہ راجیہ سبھا کی ایم پی کے مقام تک پہنچیں، 1997 میں شبانہ راجیہ سبھا میں ممبر آف پارلیمنٹاگست بنی اندر کمار گجرال صاحب جو اس وقت کے پرائم منسٹر اور وینکٹ رام جو اس وقت صدر جمہوریہ تھے، ان دونوں کی مرضی سے شبانہ کو ایم پی نا مزد کیا گیاتھا، بمبئی واپس آکر اس نے آنند پٹوردھن کی فلم “ہماراشہر” دیکھی جو جھونپڑپٹی کے بارے میں تھی وہ فیصلہ جو اس نے کلکتے کی شوٹنگ کے دوران کیا تھا، اس کے دل میں اور مضبوط ہو گیا وہ نیواراحق سر کشا سمیتی سے جڑ گئی یہ بمبئی میں فٹ پاتھوں اور جھونپڑپٹی میں رہنے والوں کے لیے کام کرنے والی ایک انجمن ہے اتفاق کی بات کہ اسی زمانے میں قلابہ میں پچیس سال پرانی ایک جھونپڑ پٹی کو جس کا نام سنجے گاندھی نگر تھا، میونسپلٹی کے بے رحم لوگوں نے راتوں رات بلڈوزر چلا کر تہس نہس کر دیا تھا نواراحق کے لوگ تڑپ گئے ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ انہیں یہاں سے نکال رہے ہیں کہ جہاں وہ پچیس سال سے رہ رہے تھے تو یہ زمین کے بدلے جھوپڑ پٹی والوں کو دوسری جگہ ملنی چاہیے لیکن سرکا ر نے اسے نہیں مانا تب “نوارا حق” کے لوگوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اس کے خلاف بے مدت بھوک ہڑتال کریں گے فیصلہ یہ ہوا کہ یہ بھو ک ہڑتال آنند پنوردھن اور جھونپڑ پٹی کے تین افراد کریں گے شبانہ نے سوچا کہ ایسے وقت میں مجھے ان کا ساتھ دینا چاہیے اس کے دل نے گوارہ نہیں کیا کہ ان لوگوں کو اس حال میں چھوڑ کر چلی جائے اس نے جاوید سے ذکر کیا اس وقت تک ان دونوں کی شادی ہوچکی تھی جاوید نے سنجیدگی سے سوچ کر جواب دیا، تم ایک مشہور ایکٹرس ہو جس جگہ وہ لوگ بھوک ہڑتال کر رہے ہیں وہ بہت ہی تکلیف دہ جگہ ہے تمہیں بہت مشکل پیس آئے گی لیکن اگر تم یہ مشکل برداشت کر سکو تو ان لوگوں کو بے حد فائدہ ہوگا جب میں نے سنا تو میرے پیروں تلے زمین سرک گئی میں بے مدت ہڑتال کرنے کے حق میں بلکل نہیں تھی لیکن چپ رہی کیفی پٹنہ میں تھے شبانہ نے ابا کو فون پر بتایا تو انہوں نے کہا بیسٹ آف لک کا مریڈ صبح کا وقت تھا وہ سب سے گلے مل کر بھوک ہڑتال کے لے چلی گئی یہ واقعہ مئی 1986 کا ہے شام کو جب میں اپنی بچی سے ملنے گئی تو اس جگہ کو دیکھ کر میری جان نکل گئی لب سڑک کچھ پھٹی چادروں سے برائے نام چھت بنائی گئی تھی دھوپ بہت تیز تھی نیچے لکڑی کے تختوں پر موٹی سی دری بچھی ہوئی تھی نہ گدا نہ تکیہ، بس اوڑھنے کے لیے کچھ پرانی پھٹی چادریں اس چھوٹی سی جگہ پر پانچ چھ لوگ لیٹے ہوئے تھے جن میں ایک میری شبانہ بھی تھی میرا دل دھک سے رہ گیا بھوک ہڑتال کا پانچواں دن تھا ششی کپور شبانہ سے ملنے آئے اس وقت تک شبانہ بہت کمزور ہو گئی تھی بلڈ پریشر بے حد گر چکا تھا وہ فوراً ہی چیف منسٹر ایس بی چوہان سے ملے اور ان سے کہا آپ لوگوں سے وقت پڑنے پر چیر یٹی شو و غیرہ کر وا کر پیسے جمع کرنے کے لیے کہتے ہیں لیکن اس وقت ہمارا ایک ساتھی زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہے تو آپ کو اس کی کوئی فکر نہیں ششی کپور نے انہیں تمام حالات سے آگاہ کیا اور شبانہ کی طبعیت کے بارے میں بتایا چیف منسٹر نے اسی وقت بھوک ہڑ تالیوں کی مانگ پوری کرنے کا حکم دیا اب وہی ظالم افسران جو کل تک کہہ رہے تھے کہ ان لوگوں کے لیے کہیں کوئی جگہ نہیں ہے ، سنترے کا رس لائے اور وعدہ کیا کہ سنجے گاندھی نگر والوں کو دوسری زمین دی جائے گی اس طرح بھوک ہڑتال ختم ہوئی اور میری بچی بچ گئی میری جان میں جان آئی کچھ عرصے بعد سرکار نے انہیں دوسری زمین دے دی جہاں انہوں نے اپنے گھر بنا لیے یہ بھوک ہڑ تال ، ایک سوشل ورکر کی حیثیت سے شبانہ کا پہلا قدم تھاایم پی بننے کے بعد شبانہ نے بمبئی اور یوپی میں بہت کام کیے سب سے پہلے بہت سے جھگی جھوپڑی والوں کے لیے گھروں کا انتظام کیا ان کے لیے بجلی اور پانی کی سہولت مہیا کروائی باندرہ میں کار ٹر روڈ اور بینڈ اسٹینڈ پر لوگوں کی تفریح اور چہل قدمی کے لیے چار کلو میٹر لمباromenade بنوا دیا جو ہو بیچ بھی بہت گندہ تھا مجھے سویرے چہل قدمی کی عادت ہے میں نے اس سے ایک دن کہا بیٹے صبح جب میں جو ہو بیچ پر چہل قدمی کے لیے جاتی ہوں تو دیکھتی ہوں کہ وہاں کتنی گندگی ہے بمبئی کے امیر لوگوں کے لیے تو فائیو اسٹار ہوٹل ہیں لیکن غریبوں کے گھومنے پھرنے کے لیے یہی جگہیں ہیں ان کا خیال رکھا جانا چاہیے اس نے اس بات کو غور سے سنا اور بیچ کو صاف کرنے کی مہم چلائی جس پہ ہر شام نہ جانے کتنے غریب اور متوسط طبقے کے لوگ اپنی فیملی کے ساتھ آتے ہیں اس کے لیے مجھے شبانہ کا شکریہ ادا کرنا چاہیے شبانہ نے اپنے ایم پی فنڈ سے ایک بڑی رقم جو ہو میں ایک ایسے پارک کو بھی دی جہاں بچوں کے کھیلنے اور شام کو بڑے بوڑھوں کے بیٹھنے کا انتظام کیا گیا ہے بمبئی میونسپل کار پورشن نے اس پارک کا نام کیفی اعظمی پارک رکھا ہے ویسے ایک پارک کیفی کے نام پر پھول پور، اعظم گڑھ میں بھی بنا ہے جس میں مختلف قسم کے پودے اور بیج وغیرہ ملتے ہیں پھول پورکے لوگ جانتے ہیں کہ کیفی کو باغبانی کا کتنا شوق تھا شبانہ ایک بہت ہی incere اور ایماندار ورکر ہے اس کے شوہر اس کے ہم سفر جاوید اختر اس کی ہمت افزائی اور اس کے ہر کام میں بھر پور مدد کرتے ہیں-
“ختم شد”
=========================