“عدل بیتی” کتاب کی صورت میں شائع ہونے کی رُوداد قبل ازیں کتاب کے دیباچہ میں “لا شعور سے شعور تک کا سفر” کے عنوان سے تفصیلاً گوش گزار کر چکا ہوں

“عدل بیتی” کتاب کی صورت میں شائع ہونے کی رُوداد قبل ازیں کتاب کے دیباچہ میں “لا شعور سے شعور تک کا سفر” کے عنوان سے تفصیلاً گوش گزار کر چکا ہوں۔ الحمد اللہ عدل بیتی کا دوسرا ایڈیشن شائع ہو چکا ہے۔ ایک سال سے کم عرصہ میں اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن شائع ہونا ازخود ایک ایسا سنگِ میل ہے جس پر تشکر و ستائش کے لیے مناسب الفاظ بھی نہ مل رہے ہیں۔ نہایت غیر سنجیدہ انداز سے شروع ہونے والا یہ کام سنجیدگی، متانت، پختگی، ستائش، پسندیدگی اور شہرت کے اتنے زینے اتنی سُرعت سے طے کر جائے گا یہ اپنے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ یہ سب کچھ خدائے بزرگ و برتر کی شان کریمی کا کمال اور آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ و آل وسلم کی محبت و عقیدت کا صدقہ ہے کہ اتنے تھوڑے وقت میں ہماری کتاب عدل بیتی کو فقیہ المثال اور نا قابلِ یقین پذیرائی ملی کہ عزم و یقین نہ صرف ایک قلبی و روحانی تسکین و طمانیت کا پیکر بن گیا بلکہ عقل و فہم ششدر درماندہ تصویر حیرت بن گئے۔ عدل بیتی جہاں بنیادی طور پر مصنّف کے طویل عدالتی سفر اور ذاتی زندگی کی حسین و دلکش یادوں کا مرقّع اور مجموعہ ہے وہیں ہمارے نظام عدل پر اُٹھنے والے بے شمار سوالات، اعتراضات اور اُنکے ممکنہ حل اور ڈسٹرکٹ جوڈیشری کو درپیش مسائل، اُن کی نشاندہی اور نوجوان ججز اور وکلاء کی راہنمائی کے لیے چند مفید مشورے اور گائیڈ لانئز پر مشتمل ہے۔ یہ مصنّف کہ جس نے سول جج سے سیشن جج تک کے طویل سفر میں صوبہ پنجاب کے طول و عرض کی صحرا نوردی کرتے ہوئے اتنی محبتیں اور اتنا پیار سمیٹا کہ شوق کی یہی بے تابیاں اور جذب کی یہی سرمستیاں عدل بیتی کے الفاظ میں ڈھل گئیں۔

22 دسمبر 2021 کی سہ پہر شدید سردی اور دُھند سے لپٹی فضا مگر شدّتِ جذبات سے پُر کیف اور نشاط انگیز سیالکوٹ کے چیمبر آف کامرس سے ملحقہ ٹریڈ سنٹر کا خوبصورت و دلکش ہال عدل بیتی کی رونمائی کے لیے ایک عجب سحر انگیز منظر پیش کر رہا تھا۔ تقریباً چار سو سے کچھ زائد مہمانوں کی گنجائش والا یہ ہال اپنی تنگ دامانی کا منظر پیش کر رہا تھا۔ مصنّف اپنی خوش بختی پہ نازاں تھا کہ ہال میں سبھی پرانے آشنا چہرے براجمان تھے جن کے ساتھ بچپن اور جوانی کے بے فکری کے ایّام گزرے اور جن کے ساتھ بے تکلفی کی کوئی حدیں نہ تھیں۔ اپنے پرانے کلاس فیلوز، قریبی دوست احباب، قریبی رشتہ دار اور اپنے آبائی گاؤں چٹی شیخاں، لاہور اور گجرانوالہ سے دوست احباب اور عزیزوں کی ایک کثیر تعداد۔ سیالکوٹ بار سے وکلاء کی ایک بڑی تعداد برادرِ عزیز خالد حسین قریشی ایڈووکیٹ صدر بار کی قیادت میں پورے جوش و جذبے کے ساتھ موجود تھی۔ سیالکوٹ کالج آف لاء کے طالب علموں کا ایک نمائندہ وفد اور سیالکوٹ کی بزنس کمیونٹی اور سول سوسائیٹی کی خاطر خواہ نمائندگی۔ گویا قوس و قزاح کے حسین رنگوں سے مزیّن ایک دلکش و دلفریب کہکشاں اس ہال میں اپنے رنگ بکھیر رہی تھی۔ پھر ہماری دعوت پر لاہور سے بڑے قریبی دوست اور ساتھی، ضلحی عدلیہ میں ہر دلعزیز جن میں ہائی کورٹ کے چار سابق رجسٹرار صاحبان سیّد ناصر علی شاہ، محبوب قادر شاہ، خورشید انور رضوی اور بہادر علی خان تشریف لائے۔ بڑے عزیز دوست اور بھائی جاوید وڑائچ اور بڑے وضع دار میاں مرید حسین بھی موجود تھے۔ سیالکوٹ میں کام کرنے والے جج صاحبان بھی بڑی تعداد میں موجود تھے۔ چھوٹی بہنوں کی طرح عزیز محترمہ جزیلہ اسلم ڈسڑکٹ اینڈ سیشن جج سیالکوٹ تقریب کی صدارت کے لیے تشریف لائیں اور میرا مان بڑھایا۔سیالکوٹ کے بڑے ہونہار اور محنتی ڈپٹی کمشنر طاہر فاروق بھی سٹیج پر رونق افروز تھے۔ تقریب کی نظامت معروف شاعر و کالم نگار طارق حسین بٹ شان کے ذمہ تھی جو اُنہوں نے کمال خوبصورتی سے نبھائی۔
نوجوان قانون دان عدنان صفدر، با کردار جرنلسٹ عبدالشکور مرزا، بڑے لائق فائق جج امجد علی شاہ، سیالکوٹ بار کے دبنگ لیڈر ارشد بگو ایڈووکیٹ، ممتاز کالم نگار، معروف ادبی و علمی شخصیت آصف بھلّی ایڈووکیٹ، فیصل آباد سے ممبر پنجاب بار کونسل دوستوں کے دوست چنگیز خان کاکڑ، عدل بیتی کے محرّک اور مخلص دوست سردار طاہر صابر، ہمدم دیرینہ (ر) ایڈیشنل آئی جی پولیس میاں محمّد آصف، چیف انفارمیشن کمشنر پنجاب بڑے ٹیلینٹڈ، ذہین و فطین اور خوبصورت بات کرنے کا گُر جاننے والے سیّد محبوب قادر شاہ اور پھر تقریب کی روح رواں صدرِ مجلس ایک دلیر اور قانون پر گہری دسترس رکھنے والی نیک نام جج محترمہ جزیلہ اسلم ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج سیالکوٹ۔ ہر ایک نے دل کھول کر عدل بیتی اور اس خاکسار و مصنّف عدل بیتی کو بھرپور خراج تحسین پیش کیا۔ اس تقریب میں ہمارے بارے میں جو کچھ کہا گیا کاش اس معیار پر ہم پورا اترتے۔ اکثر مقررین نے مصنّف کے ساتھ elevation میں ہونے والی زیادتی کا اتنا بھرپور اور کھل کر اظہار کیا کہ گمان ہونے لگا کہ عدل بیتی مستقبل میں ہمارے سیشن جج صاحبان کے ساتھ اس طرح کی کسی زیادتی کے تدارک کے لیے ایک بھرپور آواز ہو گی۔
عدل بیتی شائع ہونے کے بعد عدالتی،قانونی اور صحافتی حلقوں نے جس بھرپور انداز میں اس کی پذیرائی کی الفاظ میں انکا ذکر کرنا شاید میرے بس میں نہیں۔ دسمبر کے آخری ہفتہ میں جب یہ کتاب بڑے باوقاراور قواعد و ضوابط کے پابند نہایت قابل احترام لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس شاہد وحید صاحب کو پیش کی اور نئے سال کی آمد پر اُنکے یہ الفاظ
” سال نو مبارک ۔ آئیے فقط باتیں اندھیروں کی اور محض قصے اجالوں کے چھوڑ کر ، امسال چراغ آرزو لے کر نکلتے ہیں ۔۔۔۔ میں نے نئے سال میں قدم “عدل بیتی” پڑھ کر رکھا ہے ۔۔۔اسلئیے یہ میرا عہد سعی ہے ۔” عدل بیتی پر یہ ایک خوبصورت اور مؤثر تبصرہ تھا جو آنے والے دنوں میں کتاب کی پذیرائی کا رُخ متعیّن کر گیا۔