نظامِ انصاف کے نام

نظامِ انصاف کے نام

(حصّہ دوئم)

عابد حسین قریشی

اپنی دو پوسٹنگ میرے لیے روحانی اور قلبی تسکیںن کا باعث بھی رہیں۔ جن میں انصاف کے ساتھ ساتھ خلق خدا کی خدمت کرنے کا موقع بھی ملا۔

ان میں سے ایک بطور ڈائریکٹر صوبائی محتسب پنجاب جہاں میں 2001 تا 2003 رہا۔ میری خوش بختی کہ اس وقت ایک نہایت اعلٰی انسان، درد دل رکھنے والے، با اُصول مگر دبنگ جناب جسٹس (ر) سجاد احمد سپرا صوبائی محتسب تھے۔ اُنکے ساتھ کام کرنے کا ایک الگ ہی مزا تھا۔ وہ اپنی ذات میں ایک جھونکا جانفزا اور انجمن ہیں۔ جو ہر آن انسانی خدمت پر کمر بستہ نظر آئے۔ وہاں پوسٹنگ کے دوران بے شمار بے کس و لاچار سائلین کی داد رسی ہوئی۔ ایک یتیم لڑکی جو تقریباً 35-40 سال کے درمیان عمر کی ہو گی ہمارے پاس ڈی۔سی آفس لاہور سے بہبود فنڈ حاصل کرنے کی درخواست لیکر پیش ہوئی۔ کہ اسکے مرحوم والد سرکاری ملازم تھے۔ اُسکی والدہ بھی فوت ہو چکی ہیں اور وہ ابھی تک غیر شادی شدہ ہے۔ محمکہ نے اعتراض اٹھایا کہ بہبود فنڈ رولز کے مطابق لڑکا 18 سال تک اور لڑکی 21 سال تک اس فنڈ کی حقدارہ ہے۔ ہم نے سماعت کے بعد یہ حکم لکھا کہ تمام رولز انسانی فلاح و بہبود کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ لہٰذا ان رولز میں ترمیم ضروری ہے۔ اور لڑکی کے لیے عمر کی شرط ہٹا کر اُسکی شادی تک یہ فنڈ اُسے دینے کے الفاظ درج ہونے چاہیں۔ یہ میرا ڈرافٹ آرڈر جب جناب جسٹس سپرا صاحب کے روبرو پیش ہوا تو انہوں نے مجھے بلا کر ستائش کی۔ فوری طور پر اس وقت کے چیف سیکرٹری پنجاب حفیظ اختر رندھاوا کہ جن کے ساتھ جج صاحب کے دیرینہ ذاتی اور خاندانی مراسم بھی تھے کو فون پر یہ صورت حال بتائی۔ انہوں نے ایک ہفتہ کے اندر ترمیم کرا کے یہ رول بنا دیا کہ اب کسی متوفی سرکاری ملازم کی بیٹی اپنی شادی تک یہ رقم وصول کرنے کی حقدارہ ہو گی۔


اسی طرح ایک دیگر اس سے بھی حسّاس مسلۂ ایک سکول ٹیچر کی بیوہ کی طرف سے پیش ہوا۔ بڑے ہی باوقار اور درویش منش چوہدری سلامت علی مرحوم ریٹائرڈ سیشن جج نے سماعت کی۔ اور سول سرونٹس ایکٹ کی دفعہ 17 اے میں ترمیم بھی صوبائی محتسب کی ہدایت پر کرائی گئی کہ اگر متوفی ملازم کا کوئی بچہ نوکری کے قابل نہ ہو تو اُسکی بیوہ کو بھی اس میں شامل کر لیا گیا۔ ہم نے ضلع جھنگ کے محکمہ تعلیم میں جان بوجھ کر تاخیر کردہ ایسے ہی معاملہ میں جب ای۔ڈی۔او ایجوکیشن کو ذاتی طور پر طلب کرا کے حکم کی تعمیل کرائی تو اُس سائل یتیم بچے نے چند یوم بعد آ کر یہ خوش کن اور جاں فزاں خبر سنائی کہ ہمارے ایک حکم کی وجہ سے صرف ضلع جھنگ کے محکمہ تعلیم سے ایک ہفتہ کے اندر تمام روکے گئے تقرری کے حکم زیر دفعہ17 اے جو کہ 38 کی تعداد میں تھے جاری کر دیے گئے۔ یہ کوئی معمولی واقع نہ تھا کہ ایک دن میں ہماری مداخلت سے 38 یتیم بچوں کو سرکاری نوکری مل گئی۔ صرف پرُ نم آنکھوں سے خدائے بزرگ و برتر کا شکر ہی ادا ہو سکتا تھا۔


ذاتی تشہیر و صلہ ستائش کے لیے نہیں بلکہ اپنے دوستوں اور ساتھی ججز کی راہنمائی کے لیے عرض کرنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ سات آٹھ اضلاع میں بطور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عرصہ تعیناتی میں اگر کوئی عدالتی اہلکار وفات پا جاتا تو اپنی مدد آپ کے تحت فوری مالی امداد کے علاوہ متوفی اہلکار کے چہلم سے پہلے اُس کے ایک بچے کو متذکرہ سیکشن 17 اے کے تحت ملازمت فراہم کرنا اپنا اخلاقی، قانونی فریضہ سمجھا اور نبھایا۔ ہمارے سبھی جج انصاف کرتے ہیں۔ انصاف کو ثواب اور عبادت بھی سمجھتے ہیں۔ کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد عالی شان ہے کہ کسی قاضی کا انصاف کرنے کی تگ و دو میں گزرا ہوا ایک لمحہ ساٹھ سال کی نفلی عبادت سے افضل ہے۔ لیکن اگر یہ انصاف احسان کے ساتھ ہو…….Justice with mercy ہو ۔ کسی دُکھی، یتیم، بیوہ، بے کس و لاچار، مظلوم کے آنسو پونچھ دیے جائیں، کسی ظالم اور جابر شخص کا ہاتھ ظلم و جبر سے روک دیا جائے تو یہ یقیناً قاضی کے لیے باعث نجات ہو گا کہ انصاف کرنا خدائی صفات میں سے ہے۔


یہ بات پوری تحقیق اور ذمّہ داری سے عرض کر رہا ہوں کہ ہمارے ہاں سرکاری ملازم خواہ وہ کسی گریڈ یا سکیل کا ہو بنیادی طور پر سفید پوش ہی ہوتا ہے۔ جب تک کسے عہدہ یا سیٹ پر ہوتا ہے تو لگتا ہے کہ اس سے خوشحال کوئی اور نہ ہے۔ مگر جب یہ چیزیں نہیں رہتیں یا خدا نخواستہ وہ دنیا سے ہی چلا جاتا ہے تو سارا بھرم کھل جاتا ہے۔ یہ بنیادی طور پر ون مین شو ہوتا ہے۔ میں اپنے ساتھی کئی جج صاحبان جو دوران سروس ہمیں داغ مفارقت دے گئے جب وفات کے بعد ان کے گھروں میں گیا تو واپسی بڑے بوجھل دل سے ہوئی۔ خصوصاً جب گھر کا سارا منظر ہی بدلا ہوا دیکھا اور وہ فیملی جو کبھی بڑے ناز و نعم اور آرام و آسائش میں زندگی گزار رہی تھی اب دکھ، کرب اور ابتلا میں گھری نظر آئی۔ بہت سے واقعات کا عینی شاہد اور آمین ہوں صرف ایک دل دہلا دینے والے واقع کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ جب گجرانوانہ میں تعینات ایک بڑے ہی درویش منش اور نیک سیرت ایڈیشنل سیشن جج جو میرے کسی زمانے میں سینئر سول جج بھی وہاں رہ چکے تھے کی نماز جنازہ میں شرکت کے تقریباً ایک ماہ بعد اپنی اہلیہ کے ہمراہ مرحوم جج صاحب کی بیوہ سے تعزیت اور پُرسہ دینے کے لیے ان کی سرکاری رہائش گاہ گجرانوالہ پہنچے تو گھر میں داخل ہوتے ہی ایک دل گرفتگی کے عالم میں گھر کا سارا نقشہ ہی بدلا ہوا دیکھا اور پھر مرحوم جج صاحب کے بڑے بھائی کی موجودگی میں ہماری بھابھی محترمہ نے جو اتفاق سے بے اولاد بھی تھیں جب یہ کہا کہ بھائی مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ اس سرکاری گھر کو چھوڑنے کے بعد میں کس کے پاس اور کہاں جاؤں گی تو بے اختیار میرے آنسو نکل گئے اور لاہور تک واپسی کا سفر چشم نم کے ساتھ اتنی دل شکستگی اور افسردگی میں کیا کہ بیان سے باہر ہے۔ پھر پتہ چلا کہ اُن کی کوئی بھانجی انہیں اپنے ساتھ کسی دوسرے شہر میں لے گئی ہیں۔ اس تناظر میں چھوٹے عدالتی مرحوم اہلکاروں کے لواحقین کی کسمپرسی کا تو نہ ہی پوچھیں۔

ہمارے کئی ریٹائرڈ جج صاحبان پچھلے کئی سالوں سے جوڈیشل الاؤنس کو پنشن کا حصہ بنوانے کے لیے تگ و دو کر رہے ہیں اور اس سلسلہ میں عدالتی چارہ جوئی بھی کر رکھی ہے جو اس بات کی واضح غمازّی ہے کہ ریٹائرمنٹ پر کوئی مانے یا نہ مانے بہرحال معاشی مشکلات درپیش ہوتی ہیں۔ اور انکی یہ کاوش کسی خود غرضی کی بنا پر نہیں بلکہ جائز، قانونی اور اصولی ہے۔ حکومت وقت کو بھی یہ مطالبہ خوشی دلی سے منظور کرنا چاہیے کہ یہ اس کی نیک نامی کا باعث بھی بنے گا۔
پھر دوسری پوسٹنگ جسکا قبل ازیں ذکر اسی قسط میں کر چکا ہوں بطور سپیشل جج سنٹرل لاہور تھی۔ وہاں کام کرنے کا ایک الگ ہی تجربہ اور لطف تھا۔ کام کی بھرمار۔ تقریباً بارہ اضلاع کے لیے اکیلا جج۔ چار پانچ ہزار مقدمات زیر سماعت۔ عوام اور وکلاء کا جمّ غفیر اور ہمارا حوصلہ اور بُردباری۔ سبھی کچھ دیکھنے کے لائق تھا۔ یہاں کس طرح کام کیا یہ ایک قابل فخر کہانی ہے اور اپنے ساتھیوں اور دوستوں کے لیے سبق کے کئی مواقع۔ ہم نے جلد ہی یہ بھانپ لیا کہ یہاں معاملہ لڑائی مارکٹائی کا نہ ہے۔ نہ ہی عزت و غیرت کی گھمبیرتا ہے۔ یہاں تو ایک فریق اپنی جمع پونجی لُٹا کر اپنی غربت مٹانے کے لیے اپنے بیٹے یا بھائی کو بیرون ملک روزگار کے لیے بھیجنا چاہتا تھا۔ مگر ایجنٹ مافیا کی بھینٹ چڑھ کر سب کچھ لٹا دیتے ہیں۔ بہرحال طوالت سے بچتے ہوئے اتنا کہنے پر اکتفا کرتا ہوں کہ اپنی اس تقریباً اڑھائی سالہ پوسٹنگ کے دوران اس وقت کے ڈائریکٹر لاہور FIA کے مطابق تقریباً ڈیڑھ دو ارب روپے کی خطیر رقم میں نے متاثرین کو ایجنٹ مافیا سے واپس کرائی۔ اس دوران تقریباً دس ہزار درخواست ہائے ضمانت جن میں تقریباً 95 فیصد بعد از گرفتاری اور اُن میں ایک بہت بڑی تعداد میں ملزمان کی رہائی بشرط ادائیگی واپسی رقم اور پھر سات ہزار سے زائد ریگولر ٹرائل بھی فیصلہ کیے۔ جو سکون، طمانیت، قرار اور آسودگی ان متاثرین کو رقم واپس کرا کے ملی وہ شاید بقیہ سروس میں اس بڑے پیمانے پر اور اس بھرپور انداز میں نہ مل سکی۔

اب جسکے جی میں آئے وہ پائے روشنی
ہم نے تو جی جلا کے سر عام رکھ دیا

(کالم نگار کی کتاب “عدل بیتی” سے ایک اقتباس)

==========================================

عابد حسین قریشی
ڈسڑکٹ اینڈ سیشن جج لاہور (ر)
=======================================