صحافت مشکل ترین پیشہ ہے لیکن یہاں جد و جہد کرنے والا ہی کامیاب ہوتا ہے۔۔۔

آج میرے قلم سے۔۔۔

========================

تحریر: محمد عامر صدیق ویانا آسٹریا
==============
صحافت کسی کی جاگیر نہیں، جو محنت کرے گا وہ کامیاب و کامران ہوگا۔ حقیقی صحافت دنیا کا مشکل ترین پیشہ بن چکا ہے ، حالانکہ حقیقی صحافت کی تعریف ہی کچھ اور ہے جس سے وابستہ رہتے ہوئے ایک صحافی نچلے اور پسے ہوئے طبقات کی آواز بنتا ہے اور ان کے مسائل اجاگر کرتا ہے ۔ صحافت شروع دن سے مشکل پیشہ رہا ہے ۔صحافت مشکل ترین پیشہ ہے لیکن یہاں جد و جہد کرنے والا ہی کامیاب ہوتا ہے۔ رائے عامہ کی تشکیل میں صحافت کے کردار اور اثر پذیری سے انکار ممکن نہیں ہے اور یہی چیز سیاسی، مذہبی، معاشی اور سماجی گروہوں اور تحریکوں کو صحافت کو بطور پراپیگنڈہ استعمال کرنے کی جانب راغب کرتی ہے اور کبھی کبھار کئی صورتوں میں بعض طاقتور گروہ اور تحریکیں مرکزی دھارے کی صحافت پر حاوی ہوکر صحافتی اقدار اور اصول کر پس پشت خبروں کا مطالبہ کرتے ہیں، صحافیوں کو پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کے دوران نہ صرف غیر ریاستی عناصر بلکہ ریاستی اداروں کی جانب سے بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ صحافیوں کا کام شہریوں کو باخبر رکھنا ہے تاکہ وہ اپنی نجی و سماجی زندگی میں بہتر فیصلے کرسکیں۔ آزادی اظہار ایک خواب ہی دکھائی دیتا ہے اور عوام تک خبر پہنچانے کی پاداش میں اب تک سیکڑوں صحافی جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ حالیہ دور صحافت میں میڈیا چینلز کم وبیش عوامی مسائل کی نشاندہی کرنے کو ترجیح دیتے ہیں لیکن جو صحافی جان جوکھوں میں ڈال کر کوئی رپورٹ حاصل کرلیتا ہے تو ادارے اس میں کسی قسم کی دلچسپی ہی ظاہر نہیں کرتے یہی وجہ ہے کہ صحافی بھی اب ایسی خبروں کی کھوج کم ہی لگاتے ہیں کیوں کہ ایسا کرنے سے انہیں جان سے مارنے تک کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ میڈیا کو درپیش بحران کا تعلق صرف مالیاتی مشکلات سے نہیں ہے۔ کچھ دوسرے عوامل بھی اس بحران میں حصہ دار ہیں۔ مثال کے طور پر آزادی اظہار رائے کا معاملہ۔ پچھلے چند سال سے صحافت کو بہت زیادہ دباؤ کا سامنا ہے۔ صحافیوں اور صحافتی اداروں کی آزادی سلب ہو کر رہ گئی ہے۔ بہت سے نامور صحافیوں کی بے روزگاری کے پیچھے مالی بحران کار فرما نہیں۔ ان کا اصل جرم سچ بولنا ہے۔ جو بہت سوں کو بے حد گراں گزرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بصد اہتمام انہیں نوکریوں سے فارغ کروایا گیا۔ یہ انتظام بھی یقینی بنایا گیا کہ کوئی اور ادارہ انہیں نوکری نہ دے۔یہ افسوس ناک صورتحال فقط خبروں اور حالات حاضرہ کے پروگراموں تک محدود نہیں۔ تفریحی (entertainment) انڈسٹری کو بھی آزدی حاصل نہیں۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ فلموں، ڈراموں اور نغموں کا مواد (content) بھی مداخلت سے مستثنیٰ نہیں۔ میڈیا کے زوال میں خود میڈیا بھی ذمہ دار ہے۔ جھوٹ، سنسنی خیزی، بہتان تراشی، جیسے عوامل نے صحافتی اداروں، پروگرام اینکروں، تجزیہ کاروں اور صحافیوں کی ساکھ کو بری طرح مجروح کیا ہے۔ عوام الناس کی اکثریت اس کھیل تماشے (بلکہ سرکس) سے بیزار ہو چکی ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا ٹیکنالوجی کے تعارف کے بعد بہت سوں کو یقین ہو چلا ہے کہ روایتی میڈیا کی اہمیت باقی نہیں رہی۔ نئی نسل کو آگے آکر صحافتی خدمات کے ذریعہ تیز و تند ہواؤں کے سامنے نئی شمع جلا نی ہوگی تب ہی اردو صحافت کا کارواں بام عروج پر پہنچےگا۔

عمومی طور پر صحافت کی تعلیم اور صنعت کو لازم و ملزوم سمجھا جاتا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اچھی صحافت کے فروغ میں جامعات کا کردار نہایت اہم ہے۔ دوران تعلیم اگر صحافت کے طالب علموں کو صحافتی اخلاقیات اور نظریاتی صحافت کی طرف راغب کر دیا جائے تو پروفیشنل فیلڈ میں ان کا کردار مختلف ہو سکتا ہے۔ اس پہلو پر بھی زور دیا جاتا ہے کہ تدریسی اور صحافتی اداروں کے مابین روابط قائم ہونے چاہئیں تاکہ ایک دوسرے کے مسائل و مشکلات کو سمجھا جا سکے۔نہایت ضروری ہے کہ تدریسی اور صحافتی اداروں کے مابین اشتراک قائم ہو۔ دنیا بھر میں یہی رواج اور رجحان ہے۔ اس کے لئے عملی کاوش ہونی چاہیے۔ لازم ہے کہ دوران تعلیم نوجوانوں کی عملی تربیت کا اہتمام ہو، انہیں صحافتی ضابطۂ اخلاق کی پاسداری اور نظریاتی صحافت کی اہمیت سے آگاہ کیا جائے، تاکہ یہ بچے جب عملی میدان میں جائیں تو واقعتاً میڈیا انڈسٹری میں کسی مثبت تبدیلی میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔
===================