ڈاکٹر طاہر شمسی

تحریر سہیل دانش

====================


آج کی شام بڑی بوجھل تھی۔ خنک اور اداس ‘بے شمار افسردہ چہرے ‘ڈاکٹر صاحب کا جسد خاکی قبر کے حوالے کیا جارہا ہے۔ وہ خدائے بزرگ و برتر کے حضور پیش ہوگئے۔ دعائے مغفرت کے بعد جب میں قبرستان سے باہر نکل رہا تھا۔ تو چاروں طرف قبروں کا ہجوم ان کے سرہانے تعارفی کتبے اور ہر سو سناٹا۔ یہی بالآخر ہم سب کا آخری ٹھکانہ ہے۔ خیالات اور سوچوں کی یلغار انسان کا مقصدر کیا ہے۔ جی ہاں صرف اس کے اعمال۔ وقت گزر گیا۔ اب کسی پچھتاوے کی نہ ضرورت ہے نا گنجائش۔ وہ جو سب جانتا ہے۔ وہی مالک کل ہے۔ پھر یکدم میرے ذہن میں ڈاکٹر صاحب کا چہرہ نمایاں ہوتا چلا گیا۔ ڈاکٹر طاہر شمسی مسیحا ہی نہیں تھے۔ ایثار اور ہمدردی کے مرقع تھے۔ میں ماضی میں کھوگیا۔ ڈاکٹر صاحب سادگی’ شرافت اور ایمانداری کے پیکر تھے۔ شکل و صورت’ قول و فعل’ نشست و برخاست’ چال ڈھال اور خیالات و احساسات کیا بے مثال تھے۔ یہ ڈاکٹر صاحب کی وہ خوبیاں تھیں جو ان سے متعدد ملاقاتوں میں بتدریج اجاگر ہوتی گئیں۔ وہ بحیثیت انسان کیسے تھے۔ ایک دن میں نے ان سے پوچھا۔ آپ اس وقت ملک کے سب سے بڑے ہیماٹولوجسٹ ہیں۔ آپ کی فیس اتنی کم کیوں ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا جواب تھا۔ میرا ایمان ہے کہ یہ نیکی ہے اور ایسی نیکیاں اللہ کو بہت پسند ہیں۔ اس لئے اس نے مجھے سب کچھ دے رکھا ہے۔ میں نے کہا۔ ڈاکٹر آپ سادہ کیوں ہیں۔ کہنے لگے۔ میڈیکل کی تعلیم یہ تو اللہ کا ایک تحفہ ہے۔ ایک ڈاکٹر مسیحا ہوتا ہے۔ ہمارے پاس دکھ اور تکلیف میں مبتلا لوگ ہی آتے ہیں۔ صحت کا شعبہ بہت اہم ہے۔ آپ لوگ اس پر تحقیق نہیں کرتے۔ صحت کے معاملے پر حکمران بھی غور و فکر نہیں کرتے۔ لیکن ایک بات لکھ لو تمہارے پاس قلم بھی ہے اور کاغذ بھی۔ جب تک ہم پاکستان میں صحت کے نظام کو بہتر نہیں کرتے۔ آپ کو مفلسی اور غربت کے مارے غریب لوگ ایک ڈسپرین کیلئے بھی ترستے رہیں گے۔ انہوں نے بڑے رازدانہ انداز میں کہا۔ کہ میں نے طے کیا ہوا ہے کہ اپنے مریضوں میں سے دس فیصد لوگوںکا علاج مفت کروں گا۔ جب مجھے علم ہوجاتا ہے کہ کسی مریض کے پاس اخراجات کے حوالے سے رقم نہیں ہے۔ تو وہ میری اسی فہرست میں شامل ہوجاتا ہے۔ ڈاکٹر طاہر شمسی تھیلے سیمیا کے موذی مرض کا شکار سیکڑوں بچوں کیلئے امید اور سہارا تھے جن کا وہ مفت علاج کرتے تھے۔ آج سے دس سال قبل جب میں تھروم بوسس جیسے مرض کا شکار ہوا۔ جس میں خون کا گاڑھا ہونا اور کلاٹنگ جیسے خطرات منڈلانے لگتے ہیں تو میرے ایک دوست جو آغا خان اسپتال میں جلدی امراض کے ماہر ہیں مجھے ڈاکٹر طاہر شمسی کے پاس لے گئے۔ یہ میری ڈاکٹرصاحب سے پہلی ملاقات تھی۔ وہ این آئی بی ڈی اسپتال میں ایک چھوٹے سے کمرے میں بیٹھے مریضوں کو دیکھ رہے تھے۔ ان کے کمرے کے باہر خون کے امراض میں مبتلا مریضوں کا ایک جھمگٹا تھا۔ ڈاکٹر صاحب بہت ہی شفیق’ ملنسار اور ہنس مکھ انسان دکھائی دیئے۔ انہوں نے فوری دوائی لکھ دی اور چند ٹیسٹ۔ میں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ تھروم بوسس کا عارضہ اتنی برق رفتاری سے کیسے ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا یہ بتدریج ہوتا ہے۔ لیکن زیادہ تر یہ بیماری فربہ لوگوں کو ہوتی ہے۔ خصوصاً موٹی خواتین کو۔ اس کا علاج یہی ہوتا ہے کہ ہم مریض کو Blood Thiner خون کو پتلا رکھنے والی ادویات دیتے ہیں اور ہر ماہ اس کی INR رپورٹ دیکھتے ہیں کہ اس کا خون جسم میں ایک مطلوبہ رفتار سے چل رہا ہے۔ اس کی رفتار عام رفتار سے کم و بیش دگنی ہونی چاہئے۔ اس کی ادویات بڑی احتیاط سے استعمال کرائی جاتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ اس بیماری کی وجوہات میں زیادہ سفر کرنے والے یا زیادہ دیر تک بیٹھ کر کام کرنے والوں کو یہ عارضی لاحق ہوسکتا ہے۔ اس بیماری کے متعلق تفصیل سے لکھنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ اگر آپ میں سے کوئی خدانخواستہ اس عارضے میں مبتلا ہو تو اس کا سنجیدگی سے علاج کرائیں۔ اب ڈاکٹر صاحب اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن وہ اس شعبے میں اپنے بے شمار جانشین پیدا کرگئے ہیں کہ ان کا اسپتال این آئی بی ڈی خون کے مرض میں مبتلا لوگوں کیلئے مسیحائی کا کام کرتا رہے گا۔
ڈاکٹر صاحب اس پائئے کے ہیماٹولوجسٹ تھے جنہوں نے پاکستان میں 1995ء میں پہلی بار میرو ٹرانسپلاٹ متعارف کرایا تھا۔ ان 26 سالوں میں وہ ہزاروں مریضوں کا میرو ٹرانسپلانٹ کرچکے ہیں۔ اگر ڈاکٹر طاہر شمسی کے طب کے شعبے میں کارنامے دیکھیں تو مجھے جنوبی افریقہ کے شہرہ آفاق ڈاکٹر کرسچن برنارڈ یاد آجاتے ہیں جنہوں نے 55 سال پہلے ہارٹ ٹرانسپلانٹیشن کا پہلا آپریشن کیا تھا۔ مجھے ڈاکٹر پاپ کنز یاد آگئے جنہوں نے پہلی بار مچھر کے کاٹنے کے توڑ کیلئے ملیریا کا انجکشن ایجاد کیا تھا۔ مجھے اپنے ہی ملک کے ڈاکٹر محمد علی شاہ یاد آجاتے ہیں جنہوں نے پاکستان میں کٹے ہوئے ہاتھ اور پیر کو جوڑ کر آرتھوپیڈک سرجری میں مقامی طور پر ایک بڑا بریک تھرو کیا تھا۔ ایسے سیکڑوں ڈاکٹرز کی ایک فہرست ہے جنہوں نے میڈیکل سائنس میں بنی نوع انسان کی تاریخ میں حیرت انگیز ایجادات کرکے دکھی انسانیت کی ناقابل فراموش خدمات انجام دیں۔ ڈاکٹر طاہر اسی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ سیکھنا اور سکھانا ان کی زندگی کا مقصد تھا۔ انہوں نے بین الاقوامی جرائد و رسائل میں سیکڑوں تحقیقی مقالے لکھے۔ یہ ان کی انتھک ریسرچ کا نتیجہ تھا کہ انہوںنے کرونا کی پہلی شدید لہر کے دوران پلازمہ سے علاج کا طریقہ دریافت کیا۔ انہوں نے این آئی بی ڈی میں باقاعدہ ایک ایسی تحقیقی لیبارٹری بنائی تھی جس میں وہ انسانی خلیوں اور میں پائے جانے والی بے ترتیبی پر قابل قدر ریسرچ کی۔ ریڈ سیلز اور وہائٹ سیلز کی ترتیبی جس کو عرف عام میں لیکیومیا یا بلڈ کینسر بھی کہا جاتا ہے۔ ڈاکٹر طاہر نے یہ انکشاف کیا کہ لیکیومیا کا مریض کس طرح سے ایک نارمل زندگی گزار سکتا ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے مختلف ادویات کی اجزا ترکیبی کو اس طرح بنانے کی کوشش کی کہ جسم میں بڑھتے ہوئے وائٹ سیلز کی یلغار کو کیسے روکا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر طاہر شمسی کو طب کے شعبے میں ان کی قابل قدر خدمات کیلئے امریکہ میں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر کی غیر سرکاری تنظیم ”ڈائو” گریجویٹ ایسوسی ایشن آف نارتھ امریکہ (ڈوگانا) نے ڈاکٹر طاہر شمسی کو لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دیا گیا۔ ڈاکٹر طاہر شمسی کی کرونا کے خلاف پلازمہ طریقہ علاج پر آج کل امریکہ کی کئی سائئنس لیبارٹریوں میں مزید تحقیق ہورہی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو اس وقت لاہور بلایا گیا جب پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف کو جب Platelates کی کمی اور زیادتی کا سامنا کرنا پڑا اور ان کی زندگی کو خطرات بڑھ رہے تھے۔ ڈاکٹر طاہر شمسی نے اس کا ایک کامیاب علاج کیا جس کے سبب ان کے پلیٹ لیٹس ایک مخصوص ہندسے سے نیچے نہیں جانے دیئے جو ان کیلئے خطرہ بنے ہوئے تھے۔
اب ڈاکٹر شمسی ہم میں موجود نہیں لیکن ان کی طب کے شعبے میں خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ایسے قابل قدر ڈاکٹر ‘شاندار اور نفیس انسان کے ساتھ اپنے رحم و کرم کا معاملہ فرمائے جنہوں نے طب کے شعبے کو خدمت کے طور پر اپنایا اور اپنی قابلیت اور تحقیق سے اپنے مخصوص شعبے میں ناقابل فراموش خدمات انجام دیں۔