سب ٹھیک ہے یا کچھ پک رہا ہے

( تحریر: نصرت لغاری)

پی ٹی آئی اور وزیر اعظم عمران خان کی نظر میں سب اچھا ہے ملک میں تبدیلی آرہی ہے ملک ترقی کر رہا ہے لیکن کیا کیا جائے اگر آنکھوں میں غلط فہمی کا موتیا اتر آئے تو اس کا علاج ممکن نہیں ہے صرف متاثرہ شخص کو سمجھایاہی جاسکتا ہے کہ آپ کی بینائی ہی نہیں بلکہ شعوری آنکھ بھی خراب ہے اس لئے آپ کو حقیقی منظر دھندلا نظر آرہا ہے
پی ٹی آئی کی برگیڈ سوشل میڈیا پر حقیقی منظر نامہ پر جھوٹ کی دھند ڈال کر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہے لیکن مشکلات اور مصائب میں گھری عوام بھی اب ان جھوٹے مناظر کی حقیقت جان چکی ہے اور آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ آئندہ الیکشن میں ووٹرز جھوٹوں کو گھروں تک چھوڑ کر آئیں گے یا تبدیلی کے نام پر پھر اپنی زندگیوں کو مصائب کے سپرد کردیں گے
صوبہ سرحد کے الیکشن کے نتائج نے تو ثابت کردیا کِہ جھوٹ کے پیر نہیں ہوتے لیکن شاید جھوٹوں کے پیر کامل نہیں بلکہ پیر نیاں ہوتی ہیںٗ
جن کی خواہش پر اگر کوئی شخص وزیر اعلی نامزد ہوجائے تو پھر یہ ہی مثل صادق آتی ہے کہ خدا مہربان گدھا پہلوان۔
سب اچھا ہے کا بیانیہ آپ نے نعرہ بنادیا اور آپ کی سوشل بر گیڈ نے سوشل میڈیا پر ملکی حالات کی لغو منظر کشی کرکے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی لیکن قبر کا حال تو مردہ جانتا ہے کہ مصداق عوام کو سمجھ میں آنا شروع ہوگیا کہ اقتدار کی صورت میں بندر کے ہاتھ میں جھجنا آگیا ہے اور وہ ایک پیڑ سے دوسرے پیڑ پر مستی میں کلاٹیاں مار رہا ہے
ابھی آپ کے ڈرامے ملک میں پہلے ہی جاری تھے کہ آپ نے ترکی کے ڈراموں کی سرکاری حوصلہ افزائی شروع کردی ۔ترکی کے ڈراموں پر کوئی اعتراض نہیں لیکن آپ ترک طرز عمل کو ملک میں فروغ دیکر عوام کے ذہنوں کو آلودہ نہ کریں
امریکہ مخالف بیانیہ اگر مسائل کا حل ہوتا تو ترکی آج ترقی یافتہ ملک ہوتا لیکن امریکہ کو آنکھیں دکھانے اور اس پر غرانے کا کیا فائدہ ہوا
آج امریکہ کی ناراضگی ہی آئی ایم ایف سے قرضے کے اجراء میں تاخیر کا سبب بنی ہوئی ہے
آپ نے افغانستان میں طالبان کے بر سر اقتدار آتے ہی شعور سے آری بیانات دئیے اور آپ کے حامی سیاسی مبصر اور صحافی کہتے ہیں کہ امریکہ افغانستان سے جنازہ اٹھا کر نکلا ہے

اب اس خوش فہمی یا غلط فہمی پر آدمی مسکرائے یا عقل پر ماتم کرے
افغانستان پر 20 سال تک قبضہ برقرار رکھنے والا امریکہ اگر طالبان کے خوف سے افغانستان چھوڑنے پر مجبور ہوا ہے تو یہ ہی کہنا پڑے گا آپ نے امریکہ کو بھی نواز شریف سمجھ لیا ہے کہ جو جیل میں رہنے کے خوف سے ملک چھوڑ گئے
جس امریکہ کو آپ ٹف ٹائم دینے کی کوشش کر کے پاکستانی عوام میں سورما اور نڈر لیڈر بننے کے حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں تو یقین کیجئے امریکہ کو آپ کی ردی برابر بھی پروا نہیں ہے کیونکہ اسے پتہ ہے کہ آپ کے ماسٹرز کون ہیں اور وہ آپ کو نظر انداز کرکے سارے معاملات ماسٹرز سے طے کرلیتا ہے جبکہ امریکیوں سے رابطہ رکھنے والا بظاہر آپ کی کابینہ کا آدمی ہے لیکن وہ بھی پاکستان کے ماسٹرز کی خواہش پر تعینات ہوا ہے
آج آپ انسانی ہمدردی کے نام پر افغانستان کیلئے امریکہ سے امداد کے متمنی ہیں لیکن حقیقت کچھ اور ہے آپ کیاآپ کے ماسٹرز بھی افغان مہاجرین کے نام پر امداد بٹورنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں
درحقیقت یہ یورپ اور امریکہ کو دباؤ میں لانے کے ہتھکنڈے ہیں
پاکستان کی جانب سے افغانستان میں افغانیوں کو افغان پاسپورٹ کے اجراء میں افغانی عملہ کی مدد کیلے نادرا کی ٹیم بھیجے جانے کا اقدام بھی معنی خیز ہے جہاں پاسپورٹ کے حصول کیلئے سب سے آگے طالبان نظر آتے ہیں اور یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ افغان پاسپور ٹ پر متعد ممالک مہاجرین کو قبول کرنے سمیت ان کو متعدد سہولیات فراہم کرتے ہیں
امریکہ اور یورپ کو فکر ہے کہ ان جاری ہونے والے پاسپورٹ پر مہاجرین کے روپ میں طالبان اور القاعدہ کے لوگ بھی ان کی سرزمین میں داخل ہوسکتے ہیں اسی خطرہ کی وجہ سے یورپ نے افغانیوں کی مالی امداد شروع کردی ہے جبکہ جرمنی سمیت اقوام متحدہ نے بھی ہر ممکن تعاون کی یقین دھانی کرادی ہے
حالات اور پالیسیوں پر گہری نظر رکھنے والے امریکی حلقے تو یہ بھی انکشاف کرتے ہیں کہ افغان مہاجرین کو قبول کرنا یا پناہ دینا بھی منافع بخش اقدام ہے کیونکہ پناہ دینے والے ملک کو عالمی ڈونرز سے فی پناہ گزیر 10 ہزار امریکی ڈالرز ملتے ہیں
یعنی اب افغان مہاجرین کو پناہ دینے کی طرف پیش قدمی ہوسکتی ہے یعنی سابق آمر جنرل ضیاء الحق کے دور کا اعادہ بھی ہوسکتا ہے اور کپتان کو جونیجو بھی بنایا جاسکتا ہے جس کے اشارے ملنا شروع ہوگئے ہیں
کپتان کیلئے صورتحال موافق نظر نہیں آتی ہے کییونکہ ایک حساس ادارے کے سربراہ کی تقرری کی فیصلے کو چیلنج کرکے کپتان نے ان قوتوں کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے جو انہیں مبینہ طور پر نہ صرف اقتدار میں لے کر آئیں تھیں بلکہ عدالتی معاملات سے لے کر ملکی میڈیا اور اپوزیشن کو کنٹرول کرنے تک کپتان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی تھیں
اب یہ ہی قوتیں سوچ رہی ہیں کہ انہیں سارے انڈے ایک ہی ٹوکری میں نہیں ڈالنے چاہیے تھے لیکن اطلاعات یہ ہی ہیں کہ ان قوتوں کے شہباز شریف اور پاکستان پیپلز پارٹی سے رابطے ہوئے ہیں جس کا مطلب ہے کہ یہ قوتیں متبادل قیادت کے آپشن پر بھی کام کر رہی ہیں
آصف علی زرداری صاحب کے بیانات اور اچانک سرگرم ہونے سمیت مریم نواز کے لہجے میں تبدیلی بھی اس بات کا کھلا اشارہ ہے کہ کچھ نہ کچھ پک ضرور رہا ہے اور اگر دیگھ چڑھ گئی ہے تو یہ آئندہ سال مارچ میں پک کر تیار ہوسکتی ہے جب اپوزیشن کی احتجاجی مارچ کے ساتھ حکومت کی بھی مارچ شروع ہوسکتی ہے
پی ٹی آئی کو اندرونی بغاوت کا بھی سامنا ہے اور اس کی صفوں میں موجود با اثر قوتوں کے گماشتوں سمیت متعدد بے پیندے کے لوٹے بھی
وفاداریاں صرف اشارے پر تبدیل کرسکتے ہیں
دوسری طرف ملک میں مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے اور لوگ بے روزگاری کی دلدل میں پھنس کر خود کشیوں کا شکار ہورہے ہیں
یعنی کچھ بھی اچھا یا ٹھیک نہیں ہے نہ تو کپتان کو اقتدار میں لانے والے مطمئن ہیں نہ ہی کپتان کو کبھی اقتدار میں دیکھنے کے متمنی ووٹرز خوش ہیں اس صورتحال میں کپتان کی اقتدار ملنے کی خوشی کسی بھی وقت کافور ہوسکتی ہے اور آئندہ 5 سال مزید اقتدار میں رہنے کی امید بھی دم توڑ سکتی ہے جبکہ عین ممکن ہے کہ آنے والا سال الیکشن کا سال ہو۔