افغانستان۔ مستقبل کے خواب(3)

سہیل دانش
—————-
20سال تک ننگے پاؤں اور خالی پیٹ زمینی اورفضائی حملوں کو اپنے سینوں پر جھیلنے والے۔ اور ان کے کٹے ہوئے اعضاء دشمن کی سفاکی کی کہانی سنار ہے ہیں۔ کابل ائیر پورٹ کے احاطے میں خود کش حملوں کے بعد قیامت صغریٰ کے منظر نے افغانستان میں امن کے قیام کے حوالے سے کئی حساس سوال کھڑے کر دئیے ہیں۔ اس کی ذمہ داری داعش نامی تنظیم نے قبول کر لی ہے۔


اس تنظیم کی ساخت اس کے پھیلنے اور سکڑنے اور اثر و نفود اور مستقبل میں اس کے کردار۔ یہ ایک لمبی داستان ہے۔ ایسے موڑ بھی آئے۔ جب امریکیوں نے ابھی اس تنظیم کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا۔ اور آج صدر بائیڈن اعلان کر رہے ہیں کہ داعش کو اپنی اس کاروائی کی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ ظاہر ہے افغانستان میں استحکام اور انار کی کے امکانی خطرے کو ختم کرنے کے لئے طالبان داعش کو کسی قیمت پر برداشت نہیں کریں گے۔ گزرے دنوں کے واقعات بتا تے ہیں طالبان کے ساتھ تعلقات میں تبدیلی کا حقیقی سبب عراق اور شام میں ابوبکر بغدادی کی اعلان کردہ خلافت تھی۔ جب امریکہ نے افغانستان پر اپنا تسلط جما لیا بغدادی کی خلافت سے افغانستان کے کئی امریکی دشمن عناصر بھی خود نمائی کے طلب گار ہوئے۔ داعش میں ”خراساں“سے متعلق ایک شاخ بھی قائم ہو گئی۔ یاد رہے کہ خراساں کا علاقہ موجودہ افغانستان اور ایران کے کئی علاقوں کی تاریخی شناخت رہا ہے۔ وسطی ایشیا سے بھاگ کر افغانستان میں پناہ لینے والے کئی انتہا پسند بھی اس شاخ سے وابستہ ہو گئے ملا عمر کی موت کو طالبان نے دو سال چھپائے رکھا۔ لیکن بعد میں اس کی تصدیق ہو گئی۔ داعش کی خراساں کے رہنماؤں نے اپنے حامیوں کو قائل کرنا شروع کر دیا۔ کہ اب جب کہ قندھار سے ابھرنے والے امیر المؤمنین کا انتقال ہو گیا ہے تو ابوبکر بغدادی کو مسلم امہ کا امیر المؤمنین تسلیم کر لیا جائے۔
طالبان اور ایران اس سوچ کی سرکوبی کے لئے یکجا ہو گئے ملا عمر کے بعد طالبان کا امیر ملا منصور اختر اسی وجہ سے بارہا ایران آتا جاتا رہا۔ آخر ی باروہ جب وہاں سے لوٹ رہا تھا تو اوباما دور میں ڈرون حملے میں پاکستان کی سر زمین پر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کابل کا مغربی حصہ کئی دھائیوں سے ہزارہ قوم کے لئے وقف ہو چکا ہے۔ کابل میں داخل ہوتے ہی طالبان ہزارہ برادری کے پاس گئے اور انہیں یقین دلایا کہ عاشورہ محرم کی رسومات میں کوئی مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ طالبان اور ہزارہ قوم کے مابین یہ ہم آہنگی اسرائیل کو پسند نہیں آئی۔ اگر ہم عالمی سیاسی منظر نامے پر نظر ڈالیں تو یہ بات واضح ہو تی ہے کہ مذاہب کے مابین یقینا تعصبات بھرے تناؤ دنیا بھر میں کئی صدیوں سے موجود ہیں۔ تاریخ میں اس کی وجہ سے تخت یا تختہ والی جنگیں بھی ہوئی ہیں۔ اسرائیلی سمجھتے ہیں کہ ایران کے ایٹمی تیاری کو مذاکرات کے ذریعے روکا نہیں جا سکتا۔ بلکہ ایران اسرائیلیوں کی آنکھو ں میں کٹھک رہا ہے۔ اسرائیلی میڈیا کہہ رہا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی فتح پاکستان کو نہیں بلکہ ایران کو توانا بنائے گی۔ اسرائیلی سمجھتے ہیں کہ علاقے میں ایران کا اثر و رسوخ بڑھتا جارہا ہے۔ ان کے خیال میں صدام حکومت کے خاتمے کے بعد ایران عراق میں حکومتی فیصلہ سازی کے عمل میں حتمی اثر ورسوخ کی حامل قوت بن چکا ہے۔ اس لئے ایران سمجھتا ہے کہ اسرائیل داعش کے کسی دھڑے کو افغانستان اور ایران میں بد امنی پیدا کرنے کے لئے استعمال کر سکتا ہے۔ داعش کی سرگرمیوں اور اس کو مجتمع کرنے کی کوششوں کے حوالے سے پھر تفصیل سے بیان کروں گا۔ لیکن افغانستان کی موجودہ صورتحال میں سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ کی تربیت یافتہ 3لاکھ کی افغان فوج طالبان کے خلاف ریت کی دیوار ثابت ہوئی اور طالبان نے جس سرعت سے افغانستان پر قبضہ کیا ایسا تو شاید سکند ر اعظم بھی نہیں کر پایا تھا۔پھر یہ بھی کہ فاتح لوگ شکست کھانے والوں کے ساتھ ا ن کے ہزاروں میل دور ملک میں جانا چاہتے ہیں انہیں جہاز میں سامان کی طرح لاد دیا جائے لیکن وہ فاتحین طالبان کے ملک میں رہنا نہیں چاہتے باہر نکل جانے کی خواہش لے کر بے تاب افغانیوں کو دیکھ کر اندازہ نہیں ہو رہا ہے کہ ہارا کون ہے اور جیت کس کے حصے میں آئی ہے۔ ایسا لگتا ہے اگر امریکہ تمام پابندیاں ہٹا کر اپنے جہاز بھیجدے تو دریائے آموسے لے کر طور خم تک شاید ہی کوئی بچے جو بحرالکاہل کے دوسری طرف ریاستہائے متحدہ امریکہ جانے کے لئے جہاز میں سورانہ ہو فاتحین کی اتنی بڑی شکست یا شکست کھا کر نکلنے والوں کی ایسی مثال تو شاید ہی ملے۔ کون جیتا۔ کون ہارا۔ یہ فیصلہ تو جب ہو گا تب ہو گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس وقت افغانستان راکھ کا ایک ڈھیر ہے جس سے ایک قوم اور اس سے آگے بڑھ کر ایک ملک دریافت ہونا ہے۔ کیا ہیبت خان، اخونزادہ کی سرکردگی میں طالبان کوئی ایسا معجزہ دکھا کر دنیا کو حیران کر سکتے ہیں۔ جیسے کئی دھائیوں پہلے ماوزے تنگ اور چوائن لائی نے کر دکھایا تھا۔
جی ہاں وہی چین جسے دنیا ستر اسی برس پہلے تک ”افیونی ریاست“کہتی تھی۔ چین میں بھی سمندر پار تجارت اور ماہی گیری پر پابندی تھی اس کے شہنشاہوں نے بھی سائنسی ترقی کا راستہ روکنے کے لئے 1736ء میں ملک بھر کی بھٹیاں بجھا دی تھیں۔ انقلاب کے بعد کی صورتحال بھی کچھ حوصلہ افزا نہیں تھی۔ لیکن آج یہی چین دنیا کی جدید ترین اقوام کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہے۔ نہ جانے مجھے کیوں ایسا لگتا ہے کہ آنے والے چند برسوں میں اس قوم کو ایسا نجات دہندہ ضرور ملے گا جو اسے ان اقوم کی قطار میں ضرورلا کھڑا کرے گا جنہیں درمیانے درجے کی ترقی اور خوشحالی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ جب خدا قوموں کا مقدر بدلتا ہے تو وہ بکریاں چرانے والے گڈریوں تک کو پیغمبر بنا کر بستیوں میں اتار دیتا ہے۔ (جاری ہے)