خاندانی منصوبہ بندی ۔حکومت سندھ اور ورلڈ بینک کے درمیان 400 ملین ڈالر کے معاہدے کے فوائد عوام تک کیسے پہنچیں گے ؟

تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی رفتار پر قابو پانے کے لیے حکومت سنجیدہ اقدامات اٹھا رہی ہے اس کی کوششیں اور پالیسی قابل تعریف رہی ہے اسی لیے ورلڈ بینک نے سندھ حکومت کے ساتھ 400 ملین ڈالر کے سندھ ہیومن کیپٹل انویسٹمنٹ پروجیکٹ پر دستخط کئے ہیں یہ صوبائی حکومت کی کارکردگی اور اقدامات پر ورلڈ بینک کے بھرپور اعتماد کی عکاسی ہے اتنی بڑی رقم سندھ کی غربت ،پسماندگی اور صحت کے مسائل کو حل کرنے میں یقینی طور پر اہم کردار ادا کرے گی اس پروجیکٹ کی ایک بڑی رقم خاندانی منصوبہ بندی اور بہبود آبادی کے حوالے سے خرچ کی جائے گی اس معاہدے تک پہنچنے کے لئے صوبائی حکومت نے بہت محنت کی ۔وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ کی سربراہی میں ان کے وزراء کی ٹیم نے مختلف شعبوں کے حوالے سے ریسرچ مکمل کر کے جامعہ رپورٹ بینک کے سامنے رکھی۔وزیراعلی کی معاونت صوبائی وزرا ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو ،اسماعیل رہو سعید غنی ناصر شاہ سہیل انور سیال اور ان کے ساتھ ساتھ سینئر سرکاری افسران نے کی ۔
فیملی پلاننگ اور بہبود آبادی کے حوالے سے سندھ حکومت کے ٹیکنیکل ایڈوائزر ڈاکٹر طالب لاشاری کا کردار نمایاں رہا انہوں نے ایک جامع تحقیق اور سندھ کے معروضی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسی پریزنٹیشن تیار کی جسے ورلڈ بینک نے بے حد سراہا اور سندھ حکومت کے ساتھ اتنا بڑا معاہدہ ہوگیا ۔
یہ ایک ہی تاریخی معاہدہ ہے جس میں ورلڈ بینک چار سو ملین ڈالر کے منصوبے میں 85 فیصد رقم فراہم کرے گا اور صوبائی حکومت 15 فیصد فنڈز کا انتظام کرے گی اس منصوبے کو سندھ 1000 ڈیز پلس پروگرام کا نام دیا گیا ہے ۔


یہ ایک 400 ملین ڈالر کا جامع منصوبہ ہے جس میں ورلڈ بینک بجٹ کا 85 فیصد مالی اعانت فراہم کرے گا اور صوبائی حکومت 15 فیصد فنڈز شامل کرے گی۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ اس منصوبے کا نام ’’سندھ 1000 ڈیز پلس پروگرام ‘‘رکھا گیا ہے جس کا مقصد یونیورسل ہیلتھ کوریج کیلئے انٹیگریٹڈ ہیلتھ کیئر سروسز کی دیکھ بھال کومزید تقویت دینا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مربوط صحت ، ابتدائی بچوں کی تعلیم ، بالغ خواندگی ، خواتین کی معاشی بہتری کیلئے مہارت کی ترقی اور ایک سوشل رجسٹری کے ذریعے ہیومن کیپٹل کی تشکیل کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم ماحولیاتی اور معاشرتی اثرات کی تشخیص کر رہے ہیں۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ منتخب کردہ منصوبے کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ (پی پی پی) جیسے سوشل رجسٹری ، ہنرمند کی ترقی ، ایمبولینس ، مائیکرو فنانس ، ٹیلی ہیلتھ اور دیگر پر نافذ کیا جائے گا۔ وزیراعلیٰ سندھ نے منصوبے کی تفصیلات پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے کہا کہ 30 اضلاع میں سے 271 یونین کونسلز کا انتخاب کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ انتخاب صحرا ئی ، ڈیلٹا ، ریورائن ، جابلو ، نارا ، اچھڑو تھر اور اریڈ زون جیسے دور دراز علائقوں پر مبنی ہے اور اضلاعی محکمہ صحت کے دفاتر سے ڈیٹا اکٹھا کیا گیا ہے۔ مراد علی شاہ کے مطابق مجموعی 1093 سرکاری ڈسپنسریوں (GDs) میں سے معیار کے مطابق 293 کو دو عوامل کی بنیاد پر منتخب کیا گیا ، ایک جی ڈی بیسک ہیلتھ یونٹ (بی ایچ یو) جوکہ جی ڈی سے چار کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے دوسرا وہ جی ڈی جہاں لیڈی ہیلتھ ورکرز کی کوئی کوریج نہیں ہے۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اوسطاً ہر ایک جی ڈی ، بی ایچ یو سے نو کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ میں نے پروگرام شروع کرنے سے پہلے یہ بتایا کہ پانچ اضلاع تھرپارکر ، ٹھٹھہ ، سجاول ، جامشورو ، قمبر -شہدادکوٹ میں واقع 93 جی ڈی کو کور کیا جائے گا جبکہ باقی پروگرام ابتدائی پروگرام کے ایک سال کے بعد کور کیا جائے گا۔ اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ 18-2017میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق صحت کی دیکھ بھال نہ کرنے کی ایک بڑی وجہ صحت کی سہولت سے دوری تھی۔ اس معاملہ میں یہ رکاوٹ نوعمر ، بیوہ ، طلاق یافتہ ، دور دراز علاقوں ، غیر تعلیم یافتہ خواتین اور سب سے کم مالدارکوئنٹائل کے لحاظ سے زیادہ پائی جاتی ہے۔ اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ جو بچے کسی سہولت سے پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر رہتے ہیں وہ اموات کے خطرے میں 17 فیصد زیادہ ہیں۔ فاصلہ سب سے اہم عنصر ہے جو صحت کی خدمات کے استعمال کو متاثر کرتا ہے۔ اس پر وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ سندھ میں ایک فعال سہولیات (بی ایچ یو) اوسطاً ایک جی ڈیز سے نو کلومیٹر دور ہے جو اس کمیونٹی کے قریب ہے۔ وزیر صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو نے کہا کہ 293 ڈسپنسریز 9.744 ملین آبادی کو کور کریں گی ۔ جی ڈی کو 88 ایمبولینسوں کے ذریعے اضلاعی صحت کے نظام جیسے ڈی ایچ کیو ، ٹی ایچ کیو ، آر ایچ سی اور بی ایچ یو کے ساتھ مربوط کیا جائے گا ، یعنی پانچ ڈسپنسریز کے کلسٹر کیلئے ایک ایمبولینس ہوگی۔
کمپوننٹس:
اس منصوبے کے دو مراحل ہیں 203 ملین ڈالر کی ری پروڈکٹیو ، میٹرنل ، نوزائیدہ اور بچوں کی صحت پروگرام (RMNCH) اور 2 ملین کے میڈیکل ریکارڈ سسٹم کی تشکیل۔ بیس لائن سروے، منصوبے کے پہلے سال کے دوران کیا جائے گا۔ پہلے سال کے دوران 392 ڈسپنسریز کی تزئین و آرائش اور برانڈنگ جس میں سندھ پیپلز ہیلتھ سینٹرز (ایس پی ایچ سی) ہیں۔ جی ڈی پیز میں 1176 کمیونٹی مڈوائیفز ، 130 خواتین میڈیکل افسران جن میں سے ہر ایک پانچ جی ڈیز کے کلسٹر اور 392 فیملی ویلفیئر ورکرز (ایف ڈبلیوڈبلیوز) کو تعینات کیا جائے گا۔ ان کے علاوہ مقامی کمیونٹی کی 3690 کمیونٹی ہیلتھ ورکرز کو ڈسپنسریز کیلئے رکھا جائے گا۔ جی ڈی میں خواتین کی کمیونٹی ہال برائے ٹیلی ہیلتھ سہولت ، خواتین کو بااختیار بنانے اور مہارت کی ترقی بھی قائم کی جائے گی۔ سوشل رجسٹری اور میڈیکل ریکارڈ سسٹم کیلئے سماجی تحرک بھی کیا جائے گا۔ اسکریننگ ، خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق مشاورت ، غذائیت اور حفاظتی ٹیکوں کیلئے پہنچنے والی خدمات ہوں گی۔ منصوبے کے تحت ماں اور بچے کیلئے غذائیت کی خدمات ، خاندانی منصوبہ بندی کیلئے جی ڈی ، ڈلیوری سروسز ، اے این سی ، پی این سی ، پی پی ایف پی ، حفاظتی ٹیکوں کی خدمات ، مربوط صحت کے نظام کیلئے حوالہ جات ، سہولت میں میڈیکل ریکارڈ سسٹم کیلئے آئی ٹی یونٹ ، ضلعی اینڈ صوبائی سطح پر ماں اور بچے کی رجسٹریشن۔
ابتدائی بچوں کی تعلیم:
اس منصوبے کے تین حصوں میں ابتدائی بچوں کی تعلیم ، نو عمر لڑکیوں کیلئے سیکھنے اور مہارت کی ترقی شامل ہے۔ سکریٹری پی اینڈ ڈی شیریں ناریجو نے کہا کہ اس مرحلے پر 55.9 ملین ڈالر خرچ آئے گا۔مرحلے کے تحت اسکول کے بنیادی ڈھانچے اور ابتدائی بچوں کی تعلیم (ای سی ای) میں ایکویٹی ، رسائی ، اسکول کی تیاری اور برقراریت میں بہتری لانے کیلئے کمیونٹی کی ترقی اور اضافہ کیا جائے گا۔ اسکول کی تیاری کیلئے ماحول کو مستحکم بنانے یا ابتدائی تعلیم کیلئے ماں کے تعاون سے گروپ بنائے جائیں گے اور اساتذہ کی تربیت بھی شروع کی جائے گی۔
سماجی تحفظ:
معاشرتی تحفظ برائے خواتین اور لڑکیوں کی معاشی شمولیت اور بااختیاری پر مبنی اس منصوبے کے سوشل اکنامک مرحلے پر 126 ملین ڈالر لاگت آئے گی۔ اس اسکیم کے تحت سوشل رجسٹری کی ترقی کی جائے گی۔ وزیراعلیٰ سندھ نے سماجی تحفظ منصوبے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ خواتین اور لڑکیوں کی معاشی بااختیارگی معاشرتی ہیلتھ ورکرز کی حیثیت سے مالی خواندگی ، مہارت کی ترقی، مائیکرو فنانسنگ اور تربیت کے ذریعے کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ اسلامک ڈیویلپمنٹ بینک (آئی ڈی بی) نے سماجی تحفظ میں دلچسپی ظاہر کی ہے اور وہ اسے شراکت کے ایک حصے کے تحت پی سی -1 میں شامل کرے گا۔
ورکرز سپورٹ:
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ اس کے تحت کورونا وائرس اور دیگر قدرتی آفات کے دوران 9 3.9 ملین ڈالر ہیلتھ اینڈ پاپولیشن ورکرز اور کمیونٹیز کی مدد کی جائے گی۔ اس اسکیم کے تحت ٹیلی ہیلتھ خدمات کو قائم اور فروغ دیا جائے گا۔ صحت کی تعلیم ، حفظان صحت ، خاندانی منصوبہ بندی کیلئے کورونا صورتحال کے دوران اور اس کے بعد ایک نقطہ نظر کے طور پر خود کی دیکھ بھال کرنا شامل ہیں۔ کورونا / تباہی کے تناظر میں فرنٹ لائن ورکرز کو تربیت دی جائے گی۔ ورلڈ بینک کی ٹیم نے اجلاس میں ہر ایک کمپوننٹ پر بات چیت کی اور باقی دستاویزات اور منظوری کو حتمی شکل دینے پر اتفاق کیا تاکہ آئندہ مالی سال سے اس کا آغاز کیا جاسکے۔

اب اصل سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی رقم جب آئے گی تو اس کے استعمال کے لیے کیا صوبائی حکومت اور اس کے محکمے تیار ہیں ۔اس سلسلے میں جو امور چاہیے وہ ہو چکا ہے ۔جو اسٹاف اور افسران چاہیے کہ وہ ذہنی طور پر اس منصوبے کے بنیادی آئیڈیا کے مطابق اس کے ثمرات عوام تک پہنچانے کے لئے تیار ہیں ۔یقینی طور پر یہ ایک بڑا چیلنج ہوگا کیونکہ یہ منصوبہ صرف شہری لاکھوں کے لئے نہیں بلکہ سندھ کے دور دراز صحرائی پسماندہ دور افتادہ علاقوں کے لئے ہے وہاں تک ان سہولتوں کو پہنچانا اور اس آبادی کو اس کے ثمرات سے فیض یاب کرنا اصل مقصد ہے جنہوں نے ریسرچ کرکے یہ منصوبہ تیار کیا اور عالمی بینک کو اس پر فنڈنگ کے لیے راضی کیا انہوں نے بہت محنت کی ہے دن رات ایک کر کے تیاری کی ہے اس لیے ضروری ہے کہ اب ایک جامع منصوبہ بندی کے تحت اس پروگرام کو آگے بڑھانے کی تیاری کی جائے اور ورلڈ بینک نے صوبائی حکومت کی کارکردگی پر جس بھرپور اعتماد کا اظہار کیا ہے اس اعتماد کو ٹھیس نہ پہنچے اور بہترین مثبت نتائج سامنے لائے جائیں
—————–
Salik-Majeed
—————–Jeeveypakistan.com-report
————–
whatsapp…….92-300-9253034