پاکستان کے اندرونی اور بیرونی قرضے ملک کے ٹوٹل جی ڈی پی سے زیادہ ہو گیا ہے

کراچی (رپورٹ میاں طارق جاوید ) پاکستان کے اندرونی اور بیرونی قرضے ملک کے ٹوٹل جی ڈی پی سے زیادہ ہو گیا ہے سابق اور موجودہ نااہل حکمرانوں نے ملک کو ” ڈیفالٹ ” تک پہنچا دیا ہے شوکت ترین نے دو ماہ قبل وزارت خزانہ کا چارج لیا اس وقت انھوں نے کہا تھا کہ جی ڈی پی 4فیصد سے نہ بڑی تو ملک ڈیفالٹ کی جانب چلا جائے گا اور ان کو کیسے پتہ چل گیا کہ پاکستان کی جی ڈی پی گروتھ 3.93 سے زیادہ ہو جائے گی شوکت ترین پاکستان اور پاکستانی عوام کے ساتھ سنگین مذاق کر رہے ہیں ان خیالات کا اظہار معروف ماہر معیشت محمد ہارون حسن فتہ نے ایک خصوصی انٹرویو میں کیا محمد ہارون حسن فتہ نے کہا کہ پاکستان کے اندرونی اور بیرونی قرضے ملک کے ٹوٹل جی ڈی پی سے زیادہ ہو گیا ہے سابق اور موجودہ نااہل حکمرانوں نے ملک کو ” ڈیفالٹ ” تک پہنچا دیا ہے شوکت ترین نے دو ماہ قبل وزارت خزانہ کا چارج لیا اس وقت انھوں نے کہا تھا کہ جی ڈی پی 4فیصد سے نہ بڑی تو ملک ڈیفالٹ کی جانب چلا جائے گا اور ان کو کیسے پتہ چل گیا کہ پاکستان کی جی ڈی پی گروتھ 3.93 سے زیادہ ہو جائے گی شوکت ترین پاکستان اور پاکستانی عوام کے ساتھ سنگین مذاق کر رہے ہیں ورلڈ بینک اور آئی ایم جو کہ ہمیں قرضے فراہم کرتے ہیں انھوں نے پاکستان کی جی ڈی پی کے بارے میں جو اعداد و شمار جاری کئے وہ ورلڈ بینک کے مطاب1.3 فیصد اور آئی ایم ایف کے مطابق1.5 فیصد ہے ان اداروں سے کیا اتنی بڑی غلطی ہو گئی ہے کہ پاکستانی وزیر خزانہ ان سے تین گنا زیادہ جی ڈی پی گروتھ بتا رہے ہیں کیا آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک سے اتنی بڑی غلطی ہو گئی ہے کہ آپ جی ڈی پی کے اعدادوشمار پر قرضے دینے والے کیسے غلطی کر سکتے ہیں وزیر خزانہ کا کا بیان اگر اتنا سچ ہے تو اسٹیٹ بینک کو ہدایات جاری کر دیں کہ جن بنیادوں پر وزیر خزانہ نے جی ڈی پی گروتھ کے بارے میں دعوی کیآ ہے گزشتہ 5 سالوں کے جی ڈی پی گروتھ کے اعدادوشمار میڈیا پر عوام کے سامنے پیش کریں جس سے قطعا” قاصر ہیں ایک سوال کے جواب میں محمد ہارون حسن فتہ نے نے کہ اگر پاکستان میں فصلوں کی ریکارڈ پیداوار ہوئی ہے تو وہ کہاں ہوئی ہے کیونکہ ملک میں آٹا اور چینی تو ریکارڈ مہنگی قیمت پر عوام خریدنے پر مجبور ہیں انھوں نے مزید کہا کہ ملک کی معاشی صورتحال جس میں اندرونی اور بیرونی قرضہء جات اور سود کی ادائیگی ایف بی آر کی ٹیکس وصول سے بڑھ چکی ہے جو کہ سیدھا سیدھا ڈیفالٹ ہے ایف بی آر کے ٹیکس وصولی کے اہداف 5500سے 5900 ارب روپے رکھے گئے ہیں جبکہ پاکستان میں ایف بی آر 4000 سے 4500تک بڑی مشکل سے وصولی ممکن ہو رہی ہے جبکہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک پاکستان سے 6000ارب ٹیکس وصول کے اہداف ڈیمانڈ کر رہا ہے اگر وزیر خزانہ کی جی ڈی پی گروتھ کے حوالے سے دعوے کو مان بھی لیا جائے تو دیہی مزدور کے گھروں میں بھوک کیوں ہے اور ان فصلوں کو کیا خلائی مخلوق نے کاٹا ہے موجود نااہل حکمرانوں نے چینی کے حوالے سے بھی ایسے ہی جھوٹے دعوے اور عوام سے دھوکہ دہی کرکے چینی ایکسپورٹ کرکے ملک سے چینی نایاب کر دی ہے جس کے بعد پاکستان کے عوام 40 روپے کلو بکنے والی چینی 110 روپے کلو دھکے کھا کر خریدنے پر مجبور ہو گئے ہیں جبکہ میں نے 9اکتوبر 2020 اور اس سے قبل پی ٹی وی نیشنل کے ایک شو میں بتا دیا تھا کہ نااہل حکمرانوں کی بدولت چینی دسمبر 2021 سے پہلے چینی کی قیمتیں کم نہیں ہوں گی موجودہ گورنر اسٹیٹ بینک کی جانب سے حالیہ بیان میٹ دعوی کیا تھا کیا تھا کی ہمارے ہاں جی ڈی پی گروتھ کی شرع 3 فیصد تک ممکن ہے شرع نمو 3.93کا اعلان وزارت خزانہ نے نہیں بلکہ دوسری دو وزارتوں کے دو وزیروں اسد عمر اور میاں حماد اظہر نے بیان دیا جن کا اب وزارت خزانہ سے کوئی بھی تعلق نہیں ہے جن کی گواہی بھی دو مشیروں نے دی ان کا بھی وزارت خزانہ سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے آج وزیر خزانہ ایک ٹی وی چینل کے شو میں کہا کہ معیشت مضبوط ہے کیا ہی اچھا ہوتا اگر وزیر خزانہ مذکورہ ٹاک شو میں عوام کے سامنے وہ اعداوشمار لے آ تے جو ان کے پاس ہیں جن کا پہلے انھوں نے کبھی ذکر تک نہیں کیا ۔ایک سوال کے جواب میں محمد ہارون حسن فتہ نے کہا ہے کہ شرع نمو میں اضافہ پاکستان کا مسلہ ہی نہیں اصل مسلہ اندرونی اور بیرونی قرضوں میں اضافے کو روکنا ہے اگر ایف بی آر ٹیکس کی وصولی آپ کی خواہش کے مطابق 6000ارب وصول بھی کر لیتا ہے تو ہمارے جاری اخراجات کا مزانیہ9000 ارب روپے ہے جس کا بجٹ خسارہ 3000ارب روپے ہوگا جبکہ گزشتہ 15 سالوں سابق اور موجودہ نااہل حکمرانوں 5 ہزار ارب تک بجٹ خسارہ پیش کیا اور بینکوں سے بھاری سود پر قرضے لیکر کام چلایا جس پر 2500 ارب روپے تک سود کی مد میں ادا کیئے جاتے رہیے ہیں جو ہماری معیشت کی تباہی کی ایک وجہ ہے اب اسٹیٹ بینک کی ذمے داری ہے کہ فورآ تمام اعداوشمار جاری کر ے تاکہ موجودہ وزیر خزانہ کے دعووں کی تصدیق ہو سکے نااہل حکمرانوں کے پاس کوئی واضح معاشی پالیسیاں نہیں ہیں جس کی وجہ سے سے ملک مزید تباہی کی طرف جا رہا ہے ہے