ہارے ہوئے شخص کا خطاب

محاسبہ


ناصر جمال
————————-

فضا میں کس قدر اونچی اڑان رکھتے تھے
ہوا تھمی ہے تو کیسے گرے دھڑام سے لوگ
یہ احتیاط کا عالم ہے رامؔ دن میں بھی
کوئی پکارے تو ڈرتے ہیں اپنے نام سے لوگ
(رامؔ ریاض)
عمران خان کی تقریر عمران خان کی ہی تقریر تھی۔ وزیراعظم کی تو قطعاً نہیں تھی۔ وہی گھسی پٹی تقریر، وہی سطحی خیالات اور ناقابل برداشت ناصحانہ انداز۔ وہ وزیراعظم کم، کسی پرائمری سکول کے ’’مسلح ٹیچر‘‘ زیادہ لگتے ہیں۔ قوم کو پھر سے الف۔ ب۔ پڑھانے چلے ہیں۔ مجھ سمیت قوم ان کی این۔ آر۔ او، کرپشن والی تقریر سن، سن کر پک چکے ہیں۔ چلیں اگر اُن کے پاس کوئی عملی مثال ہوتی تو لوگ متاثر بھی ہوتے۔ وہ بھی تو اخلاقی گراوٹ کی انتہا پر کھڑے ہیں۔ ان کی حکومت آٹے، چینی، ادویات، سبسڈی، مفادات کی کشمکش، بدانتظامی، نااہلی، نالائقی سمیت وہ کونسا سنجیدہ الزام ہے، جس میں گردن، گردن، تک نہ دھنسی ہو۔ بیورو کریسی کام نہیں کررہی۔ کیا آپ بتانا پسند کریں گے کہ اعظم خان ، اسد حیاء لدین اور جواد رفیق ملک کو کیا آصف زرداری اور مریم نواز نے بیورو کریسی کا تھانیدار لگایا ہے۔ گیلانی پر آپ کو اعتراض ہے۔ عبدالقادر اور ابڑو کیا آب زم، زم، سے دُھلے ہوئے ہیں۔ یہ ثانیہ نشتر، عبدالحفیظ شیخ، کون ہیں۔ ان کی کیا خدمات ہیں۔ زُلفی بخاری،رزاق دائود، ندیم بابر، ظفر مرزا، شہزاد اکبر، عمر ایوب، جن ’’حماموں‘‘ سے غُسل کرکے نکلے ہیں۔ شہد کی جن نہروں میں ڈبکیاں لگاتے اور لگا رہے ہیں۔ سب کو پتا ہے۔ ویسے ڈھٹائی اور دیدہ دلیری کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔
وزیراعظم کی تقریر انتہائی مایوس کُن تقریرتھی۔ وہ پہلے وزیراعظم ہیں۔ جو الیکشن کمیشن پر باقاعدہ حملہ آور ہوئے ہیں۔ ایک روز قبل ایسا حملہ بلے باز سجنا نامی وزراء بھی کرچکے ہیں۔ عدلیہ پر ابھی ہلکا ہاتھ رکھا گیا ہے۔ سعید مہدی کے ’’سمجھدار دامادجی‘‘ چیف الیکشن کمشنر کیا’’ہم‘‘ نے لگایا ہے۔ شنید ہے کہ پارلیمنٹ میں ووٹنگ بوتھ میں سر پر کنوپی، چیف الیکشن کمشنر کے حُکم سے ہی لگی۔ بلبوں کے اندرلگے کیمرے اندھے ہوگئے۔ اس کے باوجود کچھ ’’پراسرار سویلین‘‘ افراد نے اس کی توڑ کے لئے ہنگامی نئے بلب بھجوائے۔ مگر شومئی قسمت، اپوزیشن نے اُسے ناکام بنادیا۔ بن بلائے مہمانوں کو جب کھنگالا گیا تو انھیں بات نہیں سوجھ رہی تھی۔ وہ نہ اسمبلی کے ملازم تھے اور نہ ہی الیکشن کمیشن کے، وہ رضا کار بعدازاں سی۔ ڈی۔ اے کے ملازمین قرار دے کر فرار کروائے گئے۔ جس پر اطلاع ہے کہ شیخ رشید کو بہت مایوسی ہوئی اور وہ اپنے ماتحت ادارے سے نالاں بھی دکھائی دیئے۔
الیکشن کمیشن میں پانچ میں سے چار ممبر بمعہ چیئرمین ، تبدیلی سرکار کا حُسن انتخاب ہیں۔ پھر یہ گلے شکوے کس سے کرتے پھر رہے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا ہے کہ اعتماد کا ووٹ اوپن ہے۔ جس نے چھوڑنا ہے۔ وہ انھیں سامنے چھوڑ جائے۔ اگر وزیر اعظم واقعی ریاست مدینہ پر یقین رکھتے ہیں تو انھیں چاہئے کہ ’’وہ چراغ بُجھا کر اپنے ساتھیوں کو کہیں کہ جس نے چھوڑ کر جانا ہے۔ وہ چلے جائیں۔ مگر اتنا حوصلہ اُن میں کہاں ہے۔ یہ حوصلہ تو فاطمہ ؓ کے لال، جناب امام عالی مقام حسینؓ کا ہی ہوسکتا ہے۔ اس کے لئے کریکٹر چاہئے ہوتا ہے۔ دِل اور حوصلہ بھی۔ انھیں اپنے ساتھیوں پر کامل یقین تھا۔ مگر پھر بھی انھیں آپشن دیا۔ انتخاب کا حق دیا۔ تاکہ کوئی یہ نا کہہ سکے کہ ہم تو مروت میں مارے گئے۔ بدقسمتی سے ، اس ضمن میں کپتان کا دامن خالی ہے۔ انھیں اپنے لوگوں پر، اُن کے لوگوں کو کپتان پر، اعتبار نہیں ہے۔ کپتان اتنا ہی سچا ہے تو، پھر وہ سچائی تسلیم کرے۔ ان کی پارٹی اور اُن کے اتحادی، ان سے ناراض ہیں۔ ان کی پالیسیوں ، کابینہ، انتظامیہ کے انتخاب پر مطمئن نہیں ہیں۔’’ پیرنی کے کلب‘‘ پر انھیں شدید تحفظات ہیں۔ غیر منتخب لوگوں کی طاقت اور اختیار انھیں کَھلتا ہے۔ انھیں اپنے حلقوں میں شدید عوامی دبائو اور غصے و نفرت کا سامنا ہے۔ گیلانی کے انتخاب کے روز کتنے ہی تبدیلی سرکار کے ممبران اسمبلی (خواتین و حضرات) یہ کہتے سنائی دیئے۔ ہمیں اڑھائی سال کے بعد، پہلی بار احساس ہوا ہے کہ ہماری بھی کوئی عزت و اہمیت ہے۔ ہماری بھی کوئی بات سُنی جاتی ہے۔ ہم تو اپوزیشن کے شکر گزار ہیں۔
اعتزاز احسن نے ، عمران خان اور مولانا طاہر القادری کے دھرنے کے وقت پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے سب سے پہلے خطاب کی شروعات ایک لطیفے سے کی تھی۔ وزیراعظم نواز شریف اور پوری (ن) لیگ کی حالت دیدنی تھی۔
ایک لڑکا تھا۔ جو اپنی ماں کا نافرمان تھا۔ ماں سے بدتمیزی، حالانکہ مار پیٹ بھی کرتا۔ ماں برداشت کرتی۔ اکلوتا بیٹا تھا۔ ایک روز ماں گھر آئی۔ پتا چلا کہ بیٹے کو پولیس لے گئی ہے۔ وہ مامتا کی ماری تھانے پہنچی۔ دیکھا کہ پولیس والوں نے اس کے بیٹے کو چارپائی سے باندھا ہوا ہے اور اس کی تشریف پر جیسے ہی چھتر مارتے ہیں تو وہ ہائے ماں پکارتا ہے۔ ماں نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا کہ ’’میں صدقے تھانیدارا تیرے تے۔ کم از کم انوں ماں تے یاد کرادتی اے‘‘ اعتزاز نے کہا کہ میں صدقے عمران اور طاہر القادری کے اس نے کم از کم میاں صاحب کو پارلیمنٹ تو یاد کروا دی ہے۔ اس وقت لیگی اور اتحادی عمران اور طاہر القادری کے صدقے واری تھے۔ جیسے آجکل حکومت اور اتحادی آصف زرداری اور پی۔ ڈی۔ ایم کے صدقے اور واری ہیں۔ جنہوں نے عمران خان کو پارلیمنٹ اور ممبران پارلیمنٹ یاد کروا دیئے ہیں۔
عمران خان کی تقریر ایک مکمل ہارے ہوئے، آدمی کی تقریرتھی۔ وہ ابھی تک اپنے گھسے، پٹے اس بیانیے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ جس پر وہ خود یقین نہیں رکھتے۔ کیا ان کی اعلیٰ اخلاقیات وہ ہیں۔ جو فیصل واڈا نے گذشتہ روز قائم کی ہیں۔ آخر ان کے لئے ممبران ہر جگہ پیسے لینے کیوں پہنچ جاتے ہیں۔ وہ قوم کو بیوقوف بنانا بند کریں کہ انھیں اقتدار کے جانے کی کوئی فکر نہیں ہے۔ اسی اقتدار کے لئے انہوں نے بے شمار کمپرومائز کیے ہیں۔ قوم کے پیسے بچانے کی بات کرتے ہیں۔ پھر اپنے ساتھیوں کو 4600سی سی گاڑیاں کس کھاتے میں دی ہوئی ہیں۔ وہ پھٹے ، پرانے کوٹ کہاں گئے۔، بنی گالہ اور جڑواں ٹاورز پلاٹ نمبر ایک کنونشن سینٹر کی ریگولرائزیشن کیا ہے۔ ویسے دو نمبری کی بھی حد ہوتی ہے۔
تحریک انصاف کے لوگ سپہ سالا ر سے ملاقات کے بعد ، ہر چیز کو کنٹرول میں رہنے کے دعوے کررہے ہیں۔ سنتے ہیں تو ہنسی آتی ہے۔ اس پر سپہ سالار اور سپائی چیف کو بھی سوچنا چاہئے کہ یہ تاثر کیوں پھیلایا جارہا ہے۔ جبکہ آئی۔ ایس۔ پی۔آر۔ سیاسی معاملات سے دوری کے پیغامات قوم کو دے چکا ہے۔ ایسے موقع پر غیر جانبداری ہی بہترین پالیسی ہے۔ وہ بھی ایسے موقع پر، جب حکومت عوامی سطح پر مقبولیت کھو چکی ہے۔ اس کے پاس ’’کارکردگی‘‘ کی باسکٹ میں پیش کرنے کو واحد چیز یہ بچی ہے کہ ’’این۔ آر۔ او ۔ نہیں دوں گا۔ کیا یہ سب آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی نہیں ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب پورا ملک بد انتظامی کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ معیشت برباد ہوچکی ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری عروج پر ہے۔ سیاسی استحکام نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ جنوبی پنجاب کا ’’لولی پاپ‘‘ بھی پٹ چکا ہے۔ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ، سیکرٹری، سب ختم کر دیئے گئے ہیں۔ ایسے میں کسی بھی فریق سے قربت نہیں بنتی۔جنرل وحید کاکڑ جیسے غیر جانبدار کردار کی قوم اور میڈیا توقع رکھتا ہے۔
ملک، ریاست او رعوام سب کی پہلی ترجیح ہونی چاہئے۔ اب جبکہ معاملات انتہائی برے طریقے سے پھنس چکے ہیں۔ ایسے میں زیادہ نقصان کی بجائے، کم سے کم نقصان کی جانب جانا ہوگا۔سیز فائر پر حریت کانفرنس کے تحفظات اور اس پر مودی کو پاکستان بلانے جیسے معاملات آگے چل کر اور پیچیدگیاں پیدا کریں گے۔
ایک، ایک، قدم پھونک، پھونک کر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ایسے حالات میں قوم سے نئے مینڈیٹ کا حصول، بہت اچھا قدم ہوگا۔
قوم کے اجتماعی شعور کو موقع دیں۔ قوم ہمیشہ ٹھیک ہوتی ہے۔ سب کو اپنی، اپنی مقبولیت کا پتا چل جائے گا۔ قوم کو سینگ پھنسانے والی نہیں، راستہ بنانے اور قوم کو آگے لیکر چلنے والی لیڈرشپ اور اداروں کی ضرورت ہے۔
کہاں یہ کوہ نما شہر! یہ فلک زادے
کہاں وہ شہد بھری بھری بستیاں، وہ آم سے لوگ
کچھ ایسے بُت بھی نہیں کہ ہم جو اب نہ دیں
اگر ہمیں بھی پکاریں کسی مقام سے لوگ
(رامؔ ریاض)