‎عبدالحمید چھاپرا کی یاد میں۔ ۲

‎تحریر۔ عارف الحق عارف

‎چھاپرا نے طلبہ اور صحافیوں کی سیاست میں اہم کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ملکی سیاست میں بھی حصہ لیا۔ پیپلز پارٹی کے پہلے دور حکومت میں انہوں ائرماشل (ریٹائرڈ) اصغر خان کی سیاسی جماعت تحریک استقلال میں شمولیت اختیار کی اور1977 کے عام انتخابات میں حزب مخالف کی نو جماعتوں کے مشترکہ نمائندے کی حثیت سے حصہ بھی لیا اور وہ کراچی میں دلی کے کھانوں کے مشہور علاقے برنس روڈ سے سندھ اسمبلی کی نشست کے امیدوار تھے لیکن یہ انتخابات پیپلز پارٹی کی انتخابات میں شدید دھاندلی کے خلاف حزب اختلاف کی ملک گیر تحریک کی نذر ہو گئےاور ملک میں جنرل ضیاالحق کا مارشل لا لگ گیا۔جو گیارہ سال تک جاری رہا۔ اس وقت کی انتخابی مہم کے دوران نشتر پارک اور فریسکو چوک کے تاریخی جلسوں کی یادیں اور ان میں چھاپرا کی جوشیلی تقریریں آج بھی سیاسی کارکنوں اور کراچی کے عوام کا ایک معتبر سیاسی حوالہ ہیں۔ پاکستان قومی اتحاد کی ملک گیر احتجاجی تحریک کے دوران وہ اتحاد کے دوسرے رہنماؤں ت ساتھ قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرتے رہے۔

‎جنگ میں کچھ کام کرنے کے بعد چھاپرا نے جنگ کو خدا حافظ کہ دیا اور جنگ گروپ ہی کے شام کے ایک انگریزی اخبار ڈیلی نیوز میں کام شروع کر دیا-اس طرح وہ جنگ گروپ ہی کا حصہ رہے۔ اس کی وجہ جہاں ان کے اس کے ایڈیٹر واجد شمس الحسن سے ذہنی ہم آہنگی اور گہری دوستی تھی،وہیں ان کی اردو صحافت سے انگریزی صحافت کی طرف جانے کی سوچ کا بھی دخل تھا اس میں بھی کافی حد تک کامیاب رہے وہ انگریزی کے اس اخبار میں اہم خبروں کے ساتھ مضامین اور شہر کی روز مرہ کی سر گرمیوں کی ڈائری بھی لکھنے لگے۔اس تبدیلی کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوا کہ اب ان کو اپنی سیاست اور ٹریڈ یونین سرگرمیوں کے لیے زیادہ وقت ملنے لگا،انہوں نے اس طرح اپنے وقت کو زیادہ سے زیادہ صحافیوں کی جدوجہد کے لیے خوب استعمال کیا۔ اس عرصے میں بھی ہمارے باہمی تعلقات پہلے دن کی طرح دوستانہ اور بھائیوں کی طرح رہے لیکن ہمارا یہ تعلق اس وقت مزید پختہ ہوگیا جب ہم دونوں کے مکان گلشن اقبال کی صحافی سوسائٹی میں تعمیر ہو گئے اور ہم ایک دوسرے کے پڑوسی بن گئے۔ اس طرح ہمیں ایک دوسرے کو قریب سے سمجھنے اورپرکھنے کا زیادہ موقع ملا

‎اس موقع پر ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ چھاپرا سے وابستہ چند ایسی اچھی یادوں کا ذکر بھی کریں جس کی وجہ سے ہمارے دل میں چھاپرا بھائی کے لیے احترام میں مزیداضافہ ہوا۔ جب ہمیں ان کی زندگی کی بعض خوبیوں کا پہلی بار علم ہوا تو احساس ہوا کہ بظاہر سوشلسٹ نظریات رکھنے والا یہ شخص اپنے دین اسلام کے لئے کس قدر والہانہ لگاؤ اور اپنے خاندان اور رشتہ داروں سے کتنی ہمدردی رکھتا ہے اس نے اپنے بہن بھائیوں کے لئے بڑی بڑی قربانیاں دیں۔ان کا ہر طرح کا خیال رکھا اور اعلی تعلیم دلائی اور ان کو مالی لحاظ سے اپنے پاؤں پر کھڑا کیا اور خود کفیل بنا دیا۔ ان کے اس رخ روشن کو ہم ذرا تفصیل سےبیان کرتے ہیں۔
‎چھاپرا کے حلقہ احباب کے دوستوں کو شائد یہ علم نا ہو کہ چھاپرا کے والدین کا بچپن ہی میں انتقال ہو گیا تھا اوروہ اپنے آٹھ بہن بھائیوں ( چھ بھائی اور دو بہنوں ) میں سب سے بڑے تھے۔مالی حالات بھی کچھ اچھے نہیں تھے اس طرح بہت ہی کم عمری میں ان سب چھوٹے بہن بھائیوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کی ذمہ داری کا بوجھ ان کے کندھوں پر آن پڑا تھا۔اس بھاری ذمہ داری کو انہوں نے ہر قسم کی محنت مزدوری کے کام کر کے پورا کیا۔ سارے بہن بھائیوں کو بھی تعلیم دلائی اور خود بھی یونیورسٹی سے معاشیات میں ماسٹرز تک تعلیم مکمل کی۔اس طرح انہوں نے اپنے بہن بھائیوں کو ماں اور باپ بن کر پالا پوسا،اعلی تعلیم دلائی اور انہیں مختلف کاروبار کرائے۔ اللہ تعالی نے ان سب کو بہت نوازا۔ یہ بات ہمارے ذاتی علم میں ہے کہ ایک وقت ایسا آیا کہ ان کے ہر ایک بھائی نے جو اب بڑے بڑے تاجر بن چکے تھے اور ان کے پاس روپے پیسے کی ریل پیل تھی، کوشش کی کہ بڑے بھائی کو اپنے اپنے کاروبار میں شراکت دار بنائے اوراس خدمت کا انہیں بدلہ دے جو اس نے ان کی تعلیم و تربیت اور پرورش میں کی تھی لیکن چھاپرا بھائی نے ان میں سے کسی کی پیشکش کو قبول نہیں کیا اور کہا کہ انہیں اللہ نے بہت نوازا ہوا ہے اور اس طرح کسی قسم کے مالی یا تجارتی تعاون اور شراکت کی پیشکش کو شکریہ کے ساتھ صاف منع کردیا۔

‎اپنے بہن بھائیوں سے ان کو بڑی محبت تھی اس کا اندازہ اس سے لگا لیں کہ کوئی تیس سال قبل ان کے سب سے چھوٹے بھائی کے گردے اچانک ناکارہ ہو گئے اس خبر سے پورے خاندان مین کہرام مچ گیا ایس آئی یو ٹی میں ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کو دکھایا گیا جنہوں نے ٹرانس پلانٹیشن کا مشورہ دیا اور کہا صرف بھائی بہن ہی میں سے کوئی گردے کا عطیہ کر سکتا ہے۔ یہ بہت بڑی قربانی کا مرحلہ تھا چھوٹے بھائی کی جان کو خطرہ تھا ہر ایک گردہ دینے کو تیار تھا لیکن اس موقع پر ایک بار پھر چھاپرا سب سے آگے تھے ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کے سامنے ٹرانسپلانٹ کیلیے اپنا گردہ دینے کی پیشکش کی اور اپنا گردہ عطیہ کر دیا اور گردے کی پیوند کاری کر دی گئی۔اللہ کو کچھ اور منظور تھا وہ بھائی چند سال بعد اللہ کو پیارا ہوگیا۔ لیکن اس کےلئے چھاپرا کی قربانی پورے خاندان میں یادگار بن گئی۔ چھاپرا اس کے بعد انتقال تک ایک ہی گردے پر زندہ رہے۔

‎ آخری بات کا تعلق صحافی سوسائٹی گلشن اقبال کی جامع مسجد بلال کی تعمیر سے ہے۔ اس سوسائٹی میں ہم نے ۱۹۸۰ کے عشرے میں مسجد بلال کی تعمیر کا ارادہ کیا تو مسجد کمیٹی کے جنرل سیکریٹری کی حثیت سے ہمیں علم تھا کہ ہمارے پاس صرف 55 ہزار روپے موجود ہیں جب کہ مسجد کی تعمیر کے لئے لاکھوں روپے کی ضرورت تھی۔ ہم نے محض اللہ کے بھروسے پر مسجد کی تعمیر کا کام شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔
‎ہم نے مسجد کا سنگ بنیاد رکھنے کے موقع پر ایک بڑی تقریب کا اہتمام کیا جس کے لیے مفتی اعظم پاکستان مولانا رفیع عثمانی، مولانا مفتی ظفر نعمانی،مولانا ظفر احمد انصاری اور مولانا عبد الرحمن سلفی سمیت تمام مکاتب فکر کے دوسرے علما کرام اور ممتاز تاجروں کو مدعو کیا گیا تھا۔ ایک طرح سے یہ مسجد کی تعمیر کیلیے فنڈ ریزنگ کی تقریب تھی۔ جس کے اہتمام اور اخراجات ہماری درخواست پر ہمارے دوست اور اس وقت کے کیٹرنگ کنگ حنیف راجپوت مرحوم نے برداشت کیے ۔ہم نے اس تقریب میں شرکت کےلئے شہر کی تاجر برادری اور دوسرے مخیر حضرات کو مدعو کیا تھا جب ہم نے تاجروں اور محفل کے شرکا سے مسجد کی تعمیر کیلیے مالی تعاون کی اپیل کی تو چھاپرا بھائی نے سب سے پہلے غیر متوقع طور پر دو لاکھ پچاس ہزار روپے کے عطیہ کا اعلان کر کے سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ہم میں سے ہر شخص حیران تھا کہ ایشیا سرخ ہے ایشیا سرخ ہے کا نعرہ لگانے والے چھاپرا کا یہ بلکل نیا رخ تھا جس نے نا صرف ہمیں بلکہ محفل کے بہت سے شرکا کو بھی بڑا متاثر کیا۔اس کے بعد بھی وہ اس مسجد کی تعمیر میں مالی تعاون کرتے رہے۔ یہ مسجد 1990 میں اڑھائی کروڑ کی لاگت سے مکمل ہوئی تھی۔ یہ گلشن اقبال کی چند بڑی اور خوبصورت مساجد میں سے ایک ہے جس کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے ہم اب بھی اعزازی سربراہ ہیں۔
—————————-