مسافر پروازوں پر پابندی، برطانیہ میں مقیم پاکستانی پریشانی کا شکار

بشیر چوہدری -اردو نیوز، اسلام آباد
————————————————-

پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی کی جانب سے برطانیہ سے آنے والی پروازوں پر عارضی پابندی کے باعث وہاں پر مقیم بیشتر پاکستانیوں کا شیڈول متاثر ہوا ہے۔
پاکستانی خاندان جو دسمبر جنوری کی چھٹیوں میں پاکستان آکر اپنے خاندانی معاملات نمٹاتے تھے وہ اچانک پیدا ہونے والی اس صورتحال کے باعث شدید پریشانی میں مبتلا ہیں۔
برطانیہ میں کورونا کی نئی شکل سامنے آنے کے بعد جب ساری دنیا نے پروازوں پر عارضی پابندی عائد کرنا شروع کی تو محمد شریف کا دل بیٹھنے لگا۔ انہیں دھڑکا سا لگا کہ کہیں پاکستان کی جانب سے بھی پروازوں پر پابندی عائد نہ کر دی جائے۔ اب جب ایسا ہو چکا ہے تو محمد شریف کی خوشی اداسی میں بدل گئی ہے۔

صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات کے رہائشی محمد شریف کا اکلوتا بیٹا برطانیہ میں مقیم ہے۔ وہ ہر سال پاکستان آتے اور اپنے والد کے ساتھ رہتے تھے۔ اب کی بار محمد شریف نے سوچا کہ بیٹا شادی کی عمر کو پہنچ چکا ہے اس لیے اس کی شادی کے منصوبے بننے لگے۔
رشتہ تلاش کیا گیا اور اتفاق سے رشتہ بھی انگلینڈ میں مل گیا اور یوں دونوں خاندانوں نے نئے سال کے آغاز پر پاکستان میں شادی کا پروگرام بنایا۔
شادی کے انتظامات شروع ہو گئے۔ پاکستان واپس آنے کے لیے ٹکٹ اور شادی کے لیے ہال بھی بک ہو گئے۔ محمد شریف اپنی زندگی کی سب سے بڑی خوشی جس کا وہ طویل عرصے سے منتظر تھے کی تیاریوں میں دل و جان سے جت گئے۔


اردو نیوز سے گفتگو میں محمد شریف خاصے رنجیدہ دکھائی دیے۔ کہنے لگے کہ ‘ہال بک ہے، شادی کے کارڈ چھپ چکے ہیں۔ شادی کی شاپنگ بھی موسم کی مناسبت سے کی جا چکی ہے۔ 27 دسمبر کو دونوں خاندانوں نے پاکستان پہنچنا تھا۔ اب اگر پروازیں 29 دسمبر کے بعد کھل بھی جائیں تو بھی سات دن قرنطینہ میں گزارنے سے شادی کی طے شدہ تاریخ 5 جنوری تو گزر جائے گی۔‘
’بیٹے کی خوشی دیکھنے کا وقت آیا تو یہ وبا سر کو آ گئی۔ شکر کیا تھا کہ خاندان میں سبھی کورونا سے محفوظ رہے لیکن اس کے باوجود زندگی وبال بنا دی ہے۔ ساری تیاریاں اور جوش و خروش دھرے کا دھرا رہ گیا ہے۔ سمجھ نہیں آ رہی کیا کرنا ہے۔‘
محمد شریف کا کہنا تھا کہ اگر شادی میں تاخیر کریں تو کافی ساری شاپنگ جو سردیوں کی مناسبت سے کی گئی ہے وہ بھی ضائع ہو جائے گی۔
’خاندان کے افراد نے اپنے کام کاج سے چھٹیاں لی تھیں وہ بھی گزر جائیں گی۔ سوچ رہے ہیں کہ کم از کم شادی ہال کی بکنگ تو منسوخ کرا دیں۔‘
محمد شریف کے علاوہ غمی خوشی کے موقع پر پاکستان آنے والے کئی افراد کو بھی دھچکا لگا ہے۔
پاکستانی نژاد برطانوی محمد اکمل نے بھی اپنی خالہ کے انتقال کا افسوس کرنے پاکستان آنے کا ارادہ کیا ہوا تھا۔ اپنی والدہ اور خالہ زاد بہن بھائیوں کے غم میں شریک ہونے کے لیے انہیں بمشکل 26 دسمبر کی ٹکٹ ملی تھی۔

اردو نیوز سے گفتگو میں محمد اکمل نے کہا کہ ’خالہ کے جنازے میں شرکت نہیں کرسکا جس کا افسوس ہے۔ اب سوچا تھا کہ والدہ کی بہن فوت ہوئی ہیں تو وہ غمزدہ ہوں گی ان کے ساتھ کچھ وقت گزاروں گا تو ان کا من ہلکا ہو جائے گا۔ خالہ زاد بہن بھائیوں کی دلجوئی بھی ہو جائے گی لیکن اب یہ ممکن نہیں رہا۔‘
’پہلے ہی کرسمس اور نیو ایئر کی چھٹیوں کے باعث تاخیر سے ٹکٹ ملی تھی، اب اگر بعد میں پاکستان چلا بھی جاؤں تو کوئی فائدہ نہیں۔ تب تک تو ویسے ہی سب معمول پر آ چکے ہوں گے۔‘
لندن میں رہائش پذیر محمد ایاز بھی ایسی ہی مشکل کا شکار ہیں۔ پیر کی شام تک وہ تیاریوں میں مصروف تھے کہ 24 دسمبر کو ان کی پاکستان روانگی ہے۔
اردو نیوز سے گفتگو میں محمد ایاز نے بتایا کہ ان کے پاکستان آنے کا مقصد اس مرتبہ نیو ایئر اپنے بچپن کے دوستوں کے ساتھ منانا تھا۔
’ہر سال لندن یا پھر یورپ کے کسی اور شہر جا کر نیو ائیر مناتا ہوں۔ اب کی بار سوچا کہ کورونا کی وجہ سے کچھ خاص تقریبات نہیں ہوں گی تو پاکستان جاتا ہوں اور اپنے بچپن کے دوستوں کے ساتھ کچھ وقت گزارتا ہوں۔‘

محمد ایاز نے اس موقع کے لیے تحفے تحائف بھی خریدے جو انہوں نے اپنے دوستوں کو دینا تھے۔
’میں نے تو ان کے لیے گھڑیاں بھی خریدیں اور کچھ دیگر تحائف بھی۔ اچھی خاصی رقم خرچ کی کہ میرے دوست خوش ہوں گے۔ اب چھٹی بھی ضائع ہو جائے گی کیونکہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے برطانیہ کے اندر بھی کہیں آ جا نہیں سکتے اور دوستوں سے ملاقات کی حسرت بھی دل ہی میں رہ جائے گی۔‘
یاد رہے کہ یورپی یونین کی ہدایات کے تحت پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائن برطانیہ کے لیے پروزاوں پر پابندی ہے تاہم پی آئی اے متبادل جہازوں کے ذریعے پروازیں چلا رہی ہے۔
برٹش ایئر ویز، برٹش ورجن ایئر ویز، ایمریٹس، ترک، قطر اور اتحاد ائیر ویز کی معمول کی پروازیں کورونا کی پہلی لہر کے بعد باضابطہ طور پر بحال ہو چکی تھیں، جنھیں ایک بار پھر پابندی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے

https://www.urdunews.com/node/526676