پٹرول بحران کی تحقیقاتی رپورٹ میں تہلکہ خیز انکشاف جانوروں کے ڈاکٹر شفیع آفریدی کو ڈی جی آئل تعینات کیا گیا،

پٹرول بحران کی تحقیقاتی رپورٹ میں تہلکہ خیز انکشاف، جانوروں کے ڈاکٹر شفیع آفریدی کو ڈی جی آئل تعینات کیا گیا، تعیناتی ن لیگ کے دور میں ہوئی۔ تفصیلات کے مطابق کچھ ماہ قبل قیمتوں میں کمی کیے جانے کے بعد ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی قلت کی وجہ جاننےکیلئے کروائی گئی تحقیقات کی تفصیلی رپورٹ منظر عام پر آگئی ہے، رپورٹ میں اہم انکشافات سامنے آئے ہیں۔


رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ ڈی جی آئل ایک ایسے شخص کو تعینات کیے گیا جس کے پاس آئل سیکٹر میں کوئی تجربہ نہیں۔ شفیع آفریدی نامی شخص ایک ویٹرنری ڈاکٹر ہے جسے وزارت میں ن لیگ کے دور میں ڈی جی آئل لگایا گیا۔ تحقیقاتی اداروں نے پٹرولیم ڈویژن سے سوال کیا کہ شفیع آفریدی کی خلاف ضابطہ تقرری کیوں کی گئی۔
تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ وزارت کے حکام کو اس تعیناتی کا علم ہی نہیں تھا۔

رپورٹ کے مطابق پٹرولیم ڈویژن کے ذیلی اداروں کے درمیان رابطوں کا فقدان بھی پٹرول بحران کی وجوہات میں شامل ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو پیش کردہ پٹرول بحران کی تحقیقاتی رپورٹ میں ایف آئی اے نے بحران کا ذمہ دار پٹرولیم ڈویژن کے ذیلی اداروں کو ٹھہرایا ہے۔ رپورٹ میں پٹرول بحران کے دوران کمپنیوں کے پاس وافر ذخیرہ موجود ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
نجی آئل مارکیٹنگ کمپنیاں پٹرولیم بحران کا باعث بنیں۔پٹرول پمپس کو جان بوجھ کر پٹرولیم کی سپلائی روکی گئی۔کمپنیوں کے پاس ذخیرہ ہونے کے باوجود مصنوعی بحران پیدا کیا گیا۔بحران کے دوران حکومتی اداروں نے کمپنی کے ذخیرے کی جانج پڑتال نہیں کی۔تحقیقاتی رپورٹ میں بحران کے ذمہ داروں کے خلاف سخت کاروائی کی سفارش کی گئی ہے۔ایف آئی اے کے وزارت پڑولیم سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات بھی رپورٹ کا حصہ ہیں۔
دوسری جانب وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب و داخلہ بیرسٹر شہزاد اکبر نے بیان میں کہا کہ وفاقی حکومت کے حکم پر قائم کردہ پٹرولیم کمیشن کی رپورٹ وزیراعظم عمران خان کو موصول ہوگئی ہے۔شہزاد اکبر نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کے حکم کے مطابق رپورٹ کل وفاقی کابینہ کو پیش کی جائے گی اور وزیراعظم کی ہدایت کے مطابق کیبنٹ کی منظوری کے بعد پبلک کی جائے گی، احتساب اور شفافیت صرف تحریک انصاف کا خاصہ ہے۔رواں سال جون جولائی میں ملک میں پٹرول کی مصنوعی قلت پیدا ہوگئی تھی۔ وفاقی حکومت نے پٹرول کی ذخیرہ اندوزی میں ملوث کمپنیوں کا پتا لگانے کے لیے انکوائری کمیشن بنایا تھا۔

https://www.urdupoint.com/daily/livenews/2020-12-14/news-2675299.html