خواتین قزاق عاشقوں کی کہانی جو مورخین نے نظر انداز کر دی

دو خواتین قزاق جو اپنے پیچھے ’لوٹی ہوئی دولت کے خزانے‘ اور ’بے وفا سابق عاشقوں‘ کی داستان چھوڑ گئیں کو اب نئے مجسموں کے ساتھ خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے۔
مایا اوپن ہائم دی انڈپینڈنٹ
————————–


دو خواتین قزاق جو اپنے پیچھے ’لوٹی ہوئی دولت کے خزانے‘ اور ’بے وفا سابق عاشقوں‘ کی داستان چھوڑ گئیں کو اب نئے مجسموں کے ساتھ خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے۔

این بونی اور میری ریڈ کے مجسمے کی نقاب کشائی مشرقی لندن کے علاقے ویپنگ کے ایگزیکیوشن ڈاک میں کی گئی جہاں چار صدیوں تک قزاقوں اور سمگلروں کو پھانسی دی جاتی رہی۔

بونی اور ریڈ کے مجسمے کو لندن میں بدھ کو ہونے والی نقاب کشائی کے بعد برغ آئی لینڈ لے جایا جائے گا جو کہ جنوبی ڈیون کے ساحل پر واقع ہے جہاں صدیوں تک قزاقوں کی آمد و رفت رہی۔

معروف تاریخ دان پروفیسر کیٹ ولیمز نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’تاریخ کی چھپی ہوئی آوازوں‘ کو سامنے لانا بہت اہم ہے جن میں خواتین اور ایل جی بی ٹی پلس لوگ شامل تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ تاریخی کتب میں اس جوڑے کے بارے میں بہت کم معلومات موجود ہیں باوجود اس کے کہ یہ دونوں 18ویں صدی کی مشہور ترین قزاق تھیں۔

پروفیسر کیٹ ولیمز کا مزید کہنا تھا: ’ان دونوں نے صنفی حدود کو توڑتے ہوئے اس وقت کے لوگوں کو حیران کر دیا۔ وہ مردانہ غلبے والے معاشرے میں نیا راستہ دکھانے والی شخصیات تھیں جنہوں نے اپنا راستہ خود بنایا تھا۔ وہ دونوں عاشق تھیں جو کبھی خواتین اور کبھی مردوں کے طور پر رہتی رہیں اور یہ سچ ہے کہ انہیں تاریخ سے بھلایا جا چکا ہے۔ وہ آزادی سے زندہ رہیں اور اپنے دل کی پیروی کی۔ دونوں قزاق تھیں لیکن ایک دوسرے سے محبت بھی کرتی تھیں، ایک ایسے معاشرے میں جہاں خواتین سے شادی کی توقع ہوتی تھی۔‘

انہوں نے کہا: ’ان کے بارے میں اس وقت میں لکھا گیا تھا لیکن ان کے اہمیت پانے کے خوف میں قزاقوں کی تاریخ میں ان کی کہانی کو نظر انداز کیا گیا اور میرے خیال میں ایسا اس لیے کیا گیا کہ اٹھارویں صدی کے اواخر اور انیسویں صدی میں مصنفین اس بات سے پریشان تھے کہ خواتین جو صرف ملازم اور بیوی کے طور پر اپنی جگہ سمجھنی چاہیے تھی کہیں اس کہانی سے یہ خیال نہ اخذ کر لیں کہ وہ مردوں کے برابر ہیں اور ایک دوسرے سے پیار کر سکتی ہیں۔‘

پروفیسر کیٹ ولیمز کا کہنا ہے کہ لیزبینزم (خواتین کی ہم جنس پرستی) وکٹورین دور میں اس وجہ سے غیر قانونی نہیں قرار دیا گیا تھا کیونکہ ملکہ وکٹوریہ ’اس خیال کو پسند نہیں کرتی تھیں‘ بلکہ ایسا اس لیے کیا گیا تھا کہ مرد وزرا سمجھتے تھے اس پر توجہ دینا ’خواتین کو ایسا کرنے کی کوشش کرنے کا حوصلہ‘ دے سکتا ہے اور پدرشاہی نظام کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’آج سیکشن 28 کے واپس لینے کی سالگرہ کے موقعے پر جس کے تحت سکولوں میں ہم جنس پرستی کے ’فروغ‘ دینے کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا اور ایک خوف اور تنہائی کا ماحول قائم کیا گیا تھا، میری اور این کا اپنے مجسمہ اور ڈراما پوڈ کاسٹ ہے۔ اصل زندگی کی پائریٹس آف دا کرییبین کو آخر کار پہچان مل رہی ہے۔‘

عام لوگ اگلے سال کے آغاز سے برطانوی آرٹسٹ امینڈا کوٹن کے تخلیق کردہ اس مجسمے کو دیکھ سکیں گے۔


(تصویر: گلورنگ کوئنہ/ کریٹو کامنز)

گو کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے سینکڑوں میل کے فاصلے پر پیدا ہوئی تھیں۔ بونی اور ریڈ دونوں اپنے بچپن میں ’غربت، ملکیت اور بے عزتی‘ سے بچنے کے لیے لڑکوں کا روپ دھار کر رہتی رہیں اور بالاخر سمندر میں انہوں نے آزادی حاصل کر لی۔ این اینڈی کے نام سے جانی جاتی تھیں اور ایک موقعے پر میری کا نام مارک تھا۔

آرٹسٹ امینڈا کوٹن جنہوں نے مجسمہ سازوں کی ایک ٹیم کے ساتھ کام کیا، ان کا کہنا ہے: ’اس مجسمے کا ڈیزائن بونی اور ریڈ کی شخصیات، آگ اور زمین کی علامتی شکل ہے۔ انفرادی طور پر وہ آزاد اور با اختیار خواتین تھیں لیکن این (آگ) اور میری (زمین) مل گئیں تو وہ ناقابل شکست ہو گئیں۔ این کا جذبہ میری کی لگن کو ایندھن دیتا تھا اور میری کا صبر این کی ہمت بندھاتا تھا۔ مشترکہ طور پر یہ دونوں ایک دھماکہ خیز آتش فشاں کی طرح تھیں۔‘

ان مجسموں کی تیاری کا آغاز ہیل کیٹس کی لانچ کے لیے کیا گیا تھا جو کہ ایک آڈیو اوریجنل پوڈ کاسٹ ہے جو ’تاریخ کے ترقی پسند قزاقوں کی عاشقی کے قصوں اور مشکل مہمات کو خراج تحسین‘ پیش کرتا ہے۔

بونی 1697 میں آئرلینڈ میں ایک وکیل اور گھریلو ملازمہ کی غیر قانوی اولاد کے طور پر پیدا ہوئی تھیں۔ ریڈ ان سے 12 سال قبل انگلینڈ میں پیدا ہوئی تھیں۔

اس مجسمے کی تحریک چلانے والی مہم کے ترجمان کا کہنا ہے: ’جتنی تیزی سے تلوار نکالی جاتی ہے اتنی تیزی سے وہ محبت میں مبتلا ہوئیں۔ این اور میری اپنے پیچھے کریبین کے سفر کے دوران لوٹی ہوئی دولت، قانون نافذ کرنے والے افراد کو چکمہ دینے اور بے وفا سابقہ عاشقوں کی داستان چھوڑ گئیں ہیں۔‘

© The Independent