بائیڈن کی ممکنہ کامیابی سے بھارت خوف زدہ کیوں؟

امریکا میں 59ویں صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹک اُمیدوار جوبائیڈن کی ممکنہ کامیابی سے بھارت خوف زدہ نظر آرہا ہے کیونکہ جوبائیڈن نے ہمیشہ سے کشمیریوں کے موقف کی تائید کرتے ہوئے بھارت سے مظلوم کشمیریوں کو آزادی اظہار رائے اور خود مختاری دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق جوبائیڈن نے مودی سرکار کی جانب سے گزشتہ برس کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے وفاق کے تحت دو حصوں میں تقسیم کرنے کے عمل کی بھی مخالفت کرتے ہوئے پرانی حیثیت بحال کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

صدر ٹرمپ پر برتری رکھنے والے جوبائیڈن کی جیت کے امکانات روشن ہیں جس کے مقبوضہ کشمیر اور پاکستان پر مثبت اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

جوبائڈن دو مرتبہ 2008 اور 2011 میں پاکستان کا دورہ کرچکے ہیں۔ جوبائیڈن کو سابق صدر آصف علی زرداری کے دور حکومت میں 2008 میں ہلال پاکستان کے ایوارڈ سے نوازا گیا تھا، یہ اعزاز سینیٹر جوبائیڈن اور رچرڈ لوگر کو پاکستان کے لیے 1.5 بلین ڈالر کی امداد منظور کرانے کے لیے کی جانے والی کوشش کے اعتراف میں دیا گیا تھا۔

اس کے بعد جوبائڈن نے آخری مرتبہ نائب صدر کی حیثیت سے 12 جنوری 2011 میں پاکستان کا دورہ کیا تھا۔

ایک اچھے منتظم اور غیر جانب دارانہ رائے رکھنے کی شہرت رکھنے والے جوبائیڈن کے نائب صدارت کے دور اور بطور سینیٹر بھی پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات رہے ہیں

اپنی انتخابی مہم کے دوران جوبائیڈن نے مسلمانوں کے ساتھ حسن سلوک اور تارکین وطن شہریوں کو بہتر سہولیات کی فراہمی اور صدر ٹرمپ کی تارکین وطن مخالف پالیسیوں پر نظر ثانی کا بھی وعدہ کیا تھا۔

ڈیموکریٹ اُمیدوار جوبائیڈن انسانی حقوق کی سر بلندی کے لیے کام کے حوالے سے بھی شہرت رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام اور چین میں یغور مسلمانوں پر جبر کے خلاف آواز اُٹھاتے آئے ہیں۔

جوبائیڈن امریکا کے منجھے ہوئے سیاست دان ہیں جو 1970ء میں کونسلر منتخب ہونے کے بعد سے مسلسل پارلیمانی سیاست کا بھی حصہ رہے ہیں اور 1973ء سے امریکی رکن بالا کے رکن منتخب ہوتے آئے ہیں۔
ڈیمو کریٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے 77 سالہ جوبائیڈن اوباما دور حکومت میں نائب صدر کے فرائض بھی نبھاتے رہے ہیں اور رواں صدارتی الیکشن میں ڈیموکریٹس کے اُمیدوار ہیں۔

Courtesy jang news