دہشت گردی کے واقعات ،بڑھتے سیاسی درجہ حرارت پر تشویش ہے

mian zahid hussain business man fpcci chairman

گندم کی امدادی قیمت بڑھنے سے پیداوار میں اضافہ، آٹے کی قیمت کم ہو جائے گی

وائرس نے تعلیمی شعبہ کو زیادہ نقصان پہنچایا ، پچاس فیصد بچے تعلیم سے محروم ۔ میاں زاہد حسین

(28اکتوبر2020)

پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ ملک میں بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے واقعات اور سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ پر تشویش ہے ۔ سیاسی تصادم معیشت کو مزید کمزور کر دے گا ۔ حکومت کی جانب سے گندم کی امدادی قیمت میں دو سو روپے کا اضافہ خوش آئند ہے جس سے کاشتکاروں کو ریلیف ملے گا، پیداوار میں اضافہ ہو گا جبکہ مصنوعی قلت ختم ہونے سے آٹا سستا ہو جائے گا ۔ ملک میں فوڈ سیکورٹی کو یقینی بنانے کے لئے غیر معیاری بیج اور جعلی زرعی ادویات کا سدباب کیا جائے اور کھاد کی سستے نرخوں پر فراہمی یقینی بنائی جائے ۔ میاں زاہد حسین نے مقامی ہوٹل میں نیشنل بزنس گروپ کی لاچنگ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مہنگائی میں مسلسل اضافہ اور مصنوعی بحرانوں سے عوام کے ساتھ کاروباری برادری بھی پریشان ہے جبکہ ڈالر کی قدر میں غیر متوقع اور مسلسل تنزل سے ایکسپورٹرز پریشان ہیں ۔ انھوں نے کہا کہ کرونا وائرس کے نقصانات کو عوام اور معیشت کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے جبکہ اس نے سب سے بڑا نقصان تعلیمی شعبہ کو پہنچایا ہے جس کے اثرات کئی دہائیوں تک محسوس کئے جائیں گے ۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نیشنل بزنس گروپ کے رہنماؤں علاؤالدین مری، ثاقب فیاض مگوں ، چوہدری محمد حسین زاہد، کرنل توقیرالاسلام اور شاہد لغاری نے کہا کہ زرعی شعبہ پر توجہ دی جائے، پانی کی قلت دور کرنے کے لئے اقدامات کئے جائیں چینی اور گندم کی درآمد کی رفتار بڑھائی جائے تاکہ مارکیٹ میں قیمتیں کم ہو سکیں جبکہ اوورسیز پاکستانیوں کو مزید مراعات دی جائیں تاکہ وہ ملکی ترقی میں اپنا اہم کردار بڑھا سکیں ۔ انھوں نے کہا کہ وائرس کی وجہ سے زیادہ ترا سکول بند رہے ہیں جبکہ ا سکول مالکان کی جانب سے اعلیٰ عدالتوں کے احکامات کے باوجود فیسوں کے مطالبہ کی وجہ سے لاکھوں والدین اپنے بچوں کوا سکول نہیں بھیج رہے ہیں جس سے صورتحال مزید بگڑ رہی ہے ۔ اشیائے خورد و نوش کی طرح اس شعبہ پر بھی حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے جسکی وجہ سے تعلیمی مافیا کی من مانیاں عروج پر ہیں ۔ ورلڈ بینک کی ایک حالیہ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ پاکستان میں وباء سے قبل ہی 44 فیصد بچے تعلیم حاصل نہیں کر رہے تھے جس میں تقریباً دس لاکھ بچوں کا مزےداضافہ ہو گیا ہے یعنی ہمارے تقریباً نصف بچے ا سکول نہیں جا رہے ہیں جسکی وجہ سے وہ معاشرے کے کارآمد شہری نہیں بن سکیں گے اگر اس صورتحال کا فوری ازالہ نہیں کیا گیا تو اگلے بیس سال میں ملکی جی ڈی پی کے نقصانات 67 سے 155 ارب ڈالر تک بڑھ جائیں گے ۔ موجودہ صورتحال میں انٹرنیٹ کے زریعے تعلیم کا آپشن اختیار کیا گیا تھا مگر اس میں بھی ا سکولوں کی اکثریت کا فوکس تعلیم دینے سے زیادہ ڈرامے کر کے فیسیں بٹورنے کا تھا جس سے طلباء کو تو فائدہ نہیں پہنچا لےکن والدین کا نقصان ضرور ہوا ۔ حکومت تعلیمی نظام کو فوری مانیٹر کرے اور جو لوگ غربت کی وجہ سے بچوں کو ا سکول نہیں بھیج سکتے انکی فیسیں معاف کی جائیں یا انھیں نقد امداد دی جائے تو صورتحال کچھ بہتر ہو سکتی ہے ۔