پاکستان انجینئرنگ کونسل میں کرپشن ، بے ضابطگیوں اور ہراسگی کا انکشاف

💃🏻💃🏻ظفر صاحب دفتر سے برآمد ہوئے اور ایک خاتون کو اپنے ساتھ اگلی سیٹ پر بٹھا کر لے گئے، پڑوسیوں کے مطابق کسی نہ کسی خاتون کو روز ساتھ لے جانا ان کا معمول ہے،!💃🏻💃🏻

ستمبر 28, 2020 0

اسلام آباد : ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی انجینئرنگ کونسل میں اصل کام انجینئرز اور کمپنیوں کی انرولمنٹ رجسٹریشن اور تجدید چھٹی والے دن یعنی ہفتے اور کبھی کبھی تو اتوار کو بھی کی جاتی ہے، جب پبلک کے لئے دفتر سرکاری چھٹی کے طور پر بند ہوتا ہے لیکن ایجنٹس کے لئے کھلا ہوتا ہے کیونکہ صرف انہی ایجنٹس کا کام ہو رہا ہوتا ہے، جنہوں نے پیسے پہنچائے ہوتے ہیں ۔

ان کاموں کی منظوری جو غیر قانونی طور پر چھٹی والے دن کیا جاتا ہے کے لئے انجینئرنگ کونسل کے سندھ کے اراکین پر مشتمل کمیٹیاں بنائی گئی ہیں، ریکارڈ صرف منٹس کی شکل میں رکھا جاتا ہے لیکن کوئی یہ نہیں جان سکتا کہ یہ منٹس وہی ہین جو میٹنگ میں کہا گیا، یا اپنی مرضی کے منٹس لکھ دئے جاتے ہیں، میٹنگ کی ویڈیو ریکارڈنگ نہیں کی جاتی جو اس بات کوثابت کر سکے کہ یہ وہی فیصلہ ہے جو ممبران نے کیا ہے۔

دفتر میں بھی کیمرے جان بوجھ کر نہیں لگائے گئے تا کہ شفافیت کا پول نہ کھل جائے،چھٹی کے روز دی جانے والی ان منظوریوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے. لیکن یہ منظوریاں منہ مانگے داموں بکتی ہیں، ملازمین افسران اور کونسل کے اراکین کی اپنی، ان کے دوستوں رشتے داروں اور کاروباری شراکت داروں کی کمپنیوں کے لئے کوئی الگ طریقہ کار یا قواعد نہ ہونا ان سارے معاملات کو مزید مشکوک بناتا ہے ۔

دفتر کے کلیدی افسران کے رویے نے اس بات پر مہر تصدیق ثبت کر دی کہ یہاں ایک مافیا کی طرح کام ہو رہا ہے اور من پسند لوگون کو مرضی کے پیسے لے کر نوازا جا رہا ہے، کچھ ملازمین نے اس کا ذمہ دار ایجنٹ مافیا کو قرار دیا لیکن ایک ایجنٹ کے بقول وہ افسران اور اراکین کمیٹی کے بغیر کچھ نہیں سکتے، ہمارے موقف کو مزید تقویت اس بات سے ملی جب سوائے ایک مرد اسسٹنٹ رجسٹرار کے سب افسران نے ان معاملات پر اپنا موقف دینے سے یکسر انکار کر دیا۔

ڈپٹی رجسٹرار ظفر نے اپنے موبائل پر کال خود سننے کے بجائے ایک نائب قاصد سے سنوا کر اس سے جھوٹ بلوایا کہ ظفراپنا ذاتی موبائل دفتر چھوڑ کر گھر چلے گئے ہیں، جب کہ ظفر کی گاڑی دفتر کے باہر موجود تھی، وہی ظفرکچھ دیر بعد اپنے دفتر سے برآمد ہوئے اور ایک خاتون کو اپنے ساتھ اگلی سیٹ پر بٹھا کر لے گئے ۔

دفتر کے سامنے والے پڑوسیوں کے مطابق کسی نہ کسی خاتون کو روز ساتھ لے جانا ان کا معمول ہے، پڑوسی اس دفتر مین صبح سے شام تک ایجنٹوں کی موجودگی اور آمدورفت سے بھی تنگ تھے کہ اس وجہ سے ان کی خواتین اور بچوں کا گھر سے نکلنا محال ہے ۔

ایجنٹوں کا کہنا تھا کہ انکو بدنام کرنا سراسر زیادتی ہے کیونکہ وہ تو مشکل سے صرف کمیشن لے پاتے ہیں اور اصل مال تو ملازمین افسران اور کونسل کے اراکین کما رہے ہیں.ان کا کہنا تھا کہ اگر ان لوگوں کے اثاثے چیک کروا لیں سب پتہ چل جائے گا، اثاثہ جات کے معاملے پر ہمیں معلوم ہوا کہ یہ اسلام آباد والوں کی ذمہ داری ہے اور رجسٹرار کے اثاثوں میں ان کا کثیر ازدواج ہونا سب سے بڑا اثاثہ ہے اور انکی اصل توجہ کراچی میں اپنے کماؤ پوتوں کا تحفظ ہے ۔

اس لئے ہمارے خیال میں اثاثہ جات پر نظر ڈالنے کا کام شاید کوئی بیرونی ادارہ ہی کرے گا، ایک مرد اسسٹنٹ رجسٹرار نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ کونسل کے اراکین کی یہ سوچی سمجھی پالیسی ہے کہ ایجنٹ کو کھلی چھٹی دینے کے لئے صرف ان افسران کو کام مین شامل کیا جائے جو رکاوٹ نہ بنیں اور اس سارے کام کو ظفر صاحب اس طرح بخوبی نباہ رہے ہیں کہ سب لوگوں کو مختلف لڑائیوں میں الجھا کر ان کو الگ الگ بلیک میل کر کے اصل وارداتوں سے توجہ ہٹائی جاتی ہے۔

کونسل کے اراکین کا مطمع نظر صرف انکا مفاد ہے جو ایجنٹ کے مفاد سے جڑا ہے ۔ انجینئراور کمپنیوں سے مختلف فیسوں کے نام پر لاکھوں روپے بٹورنے کے باوجود دفتر میں ان لاکھوں روپے دینے والوں کے لئے کسی بھی قسم کی سہولیات نہیں ہیں ۔ کسی قسم کی رہنمائی کے لئے کوئی نوٹس بورڈ نہیں ہے، کراچی دفتر کی اپنی ویب سائٹ بھی نہیں ہے، صرف فون کے ذریعے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

اسکا مجھے تلخ ذاتی تجربہ ہوا کہ ایک صحافی کو بھی ڈپٹی رجسٹرار ظفر نے اپنا موبائل نمبر دفتر سے نہیں لینے دیا جو مجبوراً دیگر ذرائع سے لیا گیا اور اس کے بعد بھی انہوں نے بات کرنے سے انکار کر دیا،اس بات سے اندازا لگایا جا سکتا ہے وہ بجا طور ایجنٹ مافیا کے سہولت کار ہیں. کونسل کے کلائنٹ انجینئراور کمپنیوں کے لئے بنیادی معلومات مثلاً فیس وغیرہ بتانے کا ویب سائٹ کے علاوہ واحد ذریعہ ایجنٹ ہیں اور ویب سائٹ پر بھی مکمل معلومات دستیاب نہیں اور تازہ ترین قواعد و ضوابط روزانہ کی بنیاد پر تبدیل کر کے ایجنٹوں کو اور طاقتور بنایا جاتا ہے۔

دفتر مین موجود کچھ کلائنٹس کے مطابق کونسل کی ویب سائٹ اور پورٹل بھی درست فیس نہیں بتا سکتا.جو کہ اسلام آباد انتظامیہ کی نااہلی کی اعلیٰ مثال ہے. ایک ایجنٹ کے مطابق یہ جان بوجھ کر کیا جاتا ہے ورنہ سب کی کمائی بند ہو سکتی ہے۔

جس بنیادی مسئلے کی وجہ سے یہ بتائی گئی کہکچھ کمپنیوں کو کاغذات اور فیس جمع کروانے کے بعد مہینوں کچھ نہیں بتایا جاتا کہ ان کے کیس کے ساتھ کیا ہوا،جب تک کہ وہ ایجنٹ نہ کرلیں اور اس کے مقابلے مین کچھ کمپنیوں کے کیس فاسٹ ٹریک پر راتون رات مکمل اور منظور بھی ہو جاتے ہیں اور باقیوں پر اعتراضات لگائے جاتے ہیں جو بسا اوقات معمولی ہوتے ہیں۔

مزید پڑھیں: پنجاب اینٹی کرپشن یونٹ نے غلام سرور خان کو جعلی ڈگری کیس میں بچایا تھا

پنجاب اینٹی کرپشن یونٹ نے غلام سرور خان کو جعلی ڈگری کیس میں بچایا تھا

لیکن انکا وقت اور پیسے ضائع ہو جاتا ہے۔فیس لینے کے بعد کونسل کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسکو کیس نمبر دے کر اسکا اسٹیٹس ویب سائٹ پر دے لیکن ایسا کوئی نظام نہیں،کیس کا اسٹیٹس پتا کرنے کے لئے دفتری لینڈ لائن سے بھی کوئی مدد نہیں ملتی،صرف ایجنٹ ہی کچھ کرتے کراتے ہیں،دفتر فون کریں تو افسران ملازمین سے بات کرنے کا کہیں گے اور ملازمین کہیں گے کیس اوپر چلا گیا۔

اصل بات صرف ایجنٹ بتا سکتے ہیں۔ ایجنٹوں کا دفتر میں سرعام آنا معمول ہے،ایجنٹس کو دفتر میں اسپیشل پروٹوکول دیا جاتا ہے اور ایجنٹ بلا روک ٹوک دفتر میں دندناتے پھرتے ہیں دفتر کی انتظامیہ ایجنٹوں کے انتظار میں رہتی ہے کہ وہ کیسز کے پیسے لائیں تاکہ جن کیسز کا بھتہ مبینہ طور پر وصول ہو چکا ہے میٹنگ میں ان کو کلیئر کرایا جائے جن افراد نے اپنے کیسز کے پیسے نہیں دیے ہوتے ان کے کیسز کو رد کر دیا جاتا ہے جبکہ آفس میں رشوت کا بازار گرم ہے۔

تمام عملہ اس سے مستفید ہورہا ہے موقف لینے کے لئے جبکہ ڈپٹی رجسٹرار ظفر صاحب سے رابطہ کیا تو مزمل صاحب ڈپٹی ایگزیکٹو سے فون نمبر 021-9925016 پر بات ہوئی تو انہوں نے آئی بائیں شائیں سے کام لیااور بتایا کہ ظفر صاحب اس دفتر کے سب سے پرانے اور کلیدی افسر ہین ذمہ دار ہیں اور وہی کچھ بتا سکیں گے۔

اس کے بعد ایڈیشنل رجسٹرار نیاز صاحب سے 021-9925016فون نمبر پر بات ہوئی تو انہوں نے بھی ٹال مٹول سے کام لیا۔ ظفر علی ڈپٹی رجسٹرار صاحب کے نمبر 02199250220 پر کال کرنے پر انہوں نے کہا کہ ظفر صاحب نہیں ہیں میں تو نائب قاصد ہوں اور فون بند کر دیا،ظفر صاحب کا موبائل نمبر حاصل کرنے کی کوشش دفتر سے کامیاب نہیں ہو سکی اور ایک ایجنٹ سے انکا نمبر خرچہ دے کر لیا گیا۔

جب ان کے موبائل نمبر0300-9224600 پرکال کی تو فون ایک نائب قاصد سے اٹھوایا اور کہا کہ ظفر صاحب دفتر نہیں ہیں اپنا موبائل دفتر چھوڑ کر چلے گئے ہین. پھر موصوف نے موبائل فون بند کردیا یا شاید میرے نمبر کو بلاک کردیا. جبکہ وہ دفتر موجود تھے گاڑی باہر کھڑی تھی اور کچھ دیر بعد انکے جانے کے بھی شواہد موجود ہین. اس کا مقصد صرف واضح موقف دینے سے بچنا تھا۔

کراچی کے افسران اور انتظامیہ کو یہ خطرہ محسوس ہوا کہ چھٹی کے روز کی جانے والی سرکاری میٹنگ کے عین وقت اگر صحافی دفتر آگئے تو کیا ہوگا،ذرائع کے مطابق اس میٹنگ کی منسوخی سے جن لوگوں کے پیسے ڈوب گئے وہ سخت سیخ پا تھے اور امید ہے اس سٹوری کے چھپنے تک وہ اپنے پیسے واپس وصول کر چکے ہونگے۔جس کے لئے ایک جنگ جاری ہے۔

معلوم ہوا کہ کونسل کے علاقائی دفاتر میں سب سے بڑے انتظامی افسر ایڈیشنل رجسٹرار صاحب ہوتے ہیں،کونسل کے ریجنل دفتران لاہور پشاور اور کوئٹہ میں تو ایک بھی ایڈیشنل رجسٹرار نہیں لیکن کراچی مین دو ایڈیشنل رجسٹرار تعینات ہیں، عملے سے معلوم ہوا کہ ان مین سے ایک غیر فعال ہیں اور کچھ نہ کرنے کی مراعات اور تنخواہ ایمانداری سے وصول کرتے ہیں۔

ایک ایجنٹ کے مطابق ان کو سزا کے طور یہاں بھیجا گیا،لیکن ایک اور ایجنٹ نے بتایا کہ بقایا ریجنل دفاتر مین جونیر افسران کو ٹھیکہ دیا گیا ہے کہ کھل کر کھیلیں اور اسی لئے لاہور پشاور اور کوئٹہ سے ایڈیشنل رجسٹرارون کو ہٹا دیا گیا ہے۔ کراچی کے دفتری معاملات پر کراچی کے ایڈیشنل رجسٹرار جناب نیاز صاحب نے موقف دیا کہ انکو کچھ کہنے کی اجازت نہیں اور موقف کے لئے 1600 کلومیٹر دور اسلام آباد میں بیٹھے رجسٹرار بھٹی صاحب صاحب سے رابطہ کریں۔

جو کہ باعث حیرانگی ہے کہ اسلام آباد والوں کے پاس کونسا غیبی علم ہے کہ وہ کراچی کے حالات پر موقف دیں لیکن ایجنٹ حضرات نے رہنمائی کی اور بتایا کہ بھٹی صاحب کا تعلق سندھ سے ہے. اور کراچی میں بہت سے افسران عملہ اور ایجنٹوں کو اسلام آباد کی مکمل آشیر باد حاصل ہے۔رجسٹرار صاحب کے سندھی ہونے کا واضح ثبوت اس بات سے نظر آیا کہ سوائے دو جونیئر افسران کے اعلیٰ افسران نے موقف دینا تو کجا فون سننا بھی گوارا نہیں کیا۔

ایک مرد اسسٹنٹ رجسٹرار کے مطابق انتظامیہ بالخصوص ڈپٹی ظفر صاحب جان بوجھ کر خواتین کے لئے الگ سہولیات مہیا کرنے سے گریزاں ہیں تاکہ مردوں کے بیچ میں جب خواتین اپنے آپ کو ہراساں محسوس کریں تو ظفر صاحب ان کے مسیحا بن کر نہ صرف خواتین کی ہمدردیاں اور توجہ سمیٹیں بلکہ اسی بنیاد پر مرد ملازمین اور افسران کو بھی بلیک میل کریں کہ آپ کے خلاف خواتین سے شکایات ڈلوادونگا. اور بیچاری خواتین ملازمین کو بدنامی کے ڈر سے خوفزدہ کرکے ان کو بھی مکمل expliot کرنے مین ظفر صاحب مہارت رکھتے ہیں۔

. اور اپنا تعلق فوجیوں سے ملانے اور ڈرانے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں۔ایجنٹوں کے دفتر مین داخلے پر پابندی یا اجازت کے معاملے پر بھی ظفر صاحب نے موقف دینے سے انکار کردیا شاید ایجنٹوں کو بھی رجسٹرار اسلام آباد سے آکر جب تک نہیں روکتا کراچی کی انتظامیہ انکو نہیں روکے گی بلکہ ان سے بھرپور فائدہ اٹھائیگی۔

ایک بنیادی مسئلہ توجہ کا حامل ہے وہ انجینئر وں کا انتظامی امور بھی چلانا ہے،کراچی اور اسلام آباد میں وہی انجینئر افسران پروفیشنل کام میں بھی شامل ہیں اور انتظامیہ بھی ہیں اور اس وجہ سے پروفیشنل کام اور انتظامی امور دونون کا بیڑہ غرق ہے،اسکا واحد حل انتظامی امور کو انجینئر سے دور رکھنا اور پروفیشنل کام مین ٹیکنالوجی کے ذریعے انسانی مداخلت کو ختم کرنا تاکہ آن لائن سارا کام ہو۔تاکہ نہ دفتر مین ایجنٹ آئیں نہ رشوت ہو۔

لیکن ڈپٹی رجسٹرار ظفر صاحب جیسے لوگ جو مافیا کی شکل میں کام کرتے ہیں ایسا کبھی نہیں ہونے دینگے۔ ایک اور معاملہ جو انتہائی اہم ہے وہ کراچی مین چند ماہ قبل ہونے والی انکوائری جس کے نتیجے میں سوائے چند ٹرانسفر کے کچھ بھی نہیں ہو سکااور معاملات ویسے ہی جاری ہیں جیسے کونسل کے ممبران اور ایجنٹ مافیا چاہتے ہیں۔

راقم الحروف نے اس سے پہلے جعلی لائسنس اور رجسٹریشن پر بھی ایک اسٹوری کی تھی امید ہے فواد چوہدری اورچیئرمین نہ صرف اس سٹوری میں دیئے گئے معاملات کا نوٹس لیں گے بلکہ پچھلی اسٹوری کی روشنی میں کئے گئے اقدامات اور کراچی مین ہونے والی آخری انکوائری پر اور رجسٹرار کی شدید انتظامی نااہلی کا بھی تدارک کرینیں گے۔

تاکہ انجینئر اور کنسٹرکشن کا شعبہ پاکستان انجینئرنگ کونسل سے صحیح معنوں مین استفادہ حاصل کرسکیں اور کونسل کو صرف ایک فیس اکٹھا کرنے والا ادارہ نہ سمجھا جائے۔خدشہ ہے کہ اس بار بھی اصل ذمہ داروں کا کچھ نہیں ہو سکے گا اور کچھ لوگوں کی پوسٹنگ ٹرانسفر اور شاید کسی سے استعفیٰ دلواکر سارے معاملے پر مٹی ڈالنے کی کوشش کی جائیگی۔
—————-
alert.com.pk—–report