محبوب علی خان کی یادیں

تحریر: سہیل دانش
برادرم فرحت شیر خان کی پوسٹ سے آگاہی ہوئی کہ جناب محبوب علی خان ہم میں نہیں ہیں وہ دنیاوی جھمیلوں سے نجات پاکر خالقِ حتیقی کے حضور پیش ہوگئے اِس خبر سے ایک دم یادوں کا بھولا ہوا زمانہ فلم کی طرح چلنے لگا۔ اُن کے جانے پر مجھےنوائے وقت میں گزارے ہوئے سالہا سال کے خوبصورت دِن یاد آگئے۔ پھر وہ دوست جن کے ساتھ بیتے دنوں کی بے شمار باتیں اور یادیں آج بھی زندگی کا انمول سرمایہ محسوس ہوتی ہیں وہ زمانہ جن کے ساتھ تہذیبی سماجی اور صحافتی رشتے تھے۔ ابلاغ کی دنیا بہت مشکل ہے۔ عام زبان میں اخبار نکالنا ایک ایسی مشقت ہے جس کا دورانیہ دن رات پر محیط رہتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم خانصاحب کا بچپن لڑکپن اور جوانی کیسی گزری۔ میں نے اُنہیں پہلی بار بزرگی کے حصار میں دیکھا نیوز ایڈیٹر کی حیثیت سے وہ ڈیسک ایڈیٹنگ جیسی ذمہ داریوں سے نبرد آزما رہے۔ خبر کی سچائی جانے بغیر اُسے کبھی نہیں چھاپا اِس اعتبار سے اُنہوں نے قاری سے کبھی بے وفائی نہیں کی بلاشبہ وہ محتاط سہی لیکن زبردست پروفیشنل تھے۔ اُنہیں اپنے گھر سے محبت اور لگاؤ تھا۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ وہ دفتر سے زیادہ مانوس تھے۔ تو بے جا نہ ہوگا۔ سینئر جونیئرز سے گفتگو، استدلال اور نشست و برخاست کے دوران حوصلہ، سلیقہ اور وضعداری مثالی تھی۔ طبیعت میں کج بحثی، تکرار اور علم کی بنیاد پر دوسروں کو ڈھانے کی عادت نام کو نہ تھی۔ وہ بے قرار تو نہیں ایک انتہائی ذمہ دار نیوز ایڈیٹر دکھائی دئیے۔ کاپی کی تیاری میں براہِ راست دلچسپی اور آخری لمحات میں بھاری بھرکم اشتہار کی آمد سے خبروں کی ترتیب میں انتشار پر قابو پانا اِن کے فرائض میں شامل تھا۔ نوائے وقت میں جناب نیر علوی جیسے مرنجان مرنج ایڈیٹر سے واسطہ پڑا۔ وہ ذہین اور محتاط ایڈیٹر تھے اُن کی کسی ادا میں کوئی بھونچال نہیں تھا۔ وہ جنگ کے جناب یوسف صدیقی اور اخبار جہاں کے جناب نثار احمد زبیری کی طرح پرفیکشنسٹ نہیں تھے۔ لیکن جو خبر اُن تک جاتی اُس پر قلم ضرور لگاتے تھے۔ بہت ہی پیارے دوست الیاس شاکر کے ساتھ خبروں کے متنازعہ اور نوکیلے انداز پر اُن کی بحث ضرور ہوتی اور شاکر صاحب بھی ادارے ہوں یا شخصیات اپنی خبروں میں چھیڑخانی اور چٹکیاں لینے سے باز نہیں آتے تھے بعد میں شاکر صاحب نے اپنی قلمی جادوگری کے تمام کمالات قومی اخبار میں آزمائے اور اِس اخبار کو شہرت کی نئی بلندیوں تک پہنچایا۔ ہم یہاں بچھڑنے والے اپنے دوست یوسف خان کو کیسے بھول سکتے ہیں وہ باکمال اور بے قرار رپورٹر تھے۔ کونسی خبر فضا میں تیررہی ہے کونسی زمین تلے جھانک رہی ہے اور کونسی پردوں کے پیچھے چھپ رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں روشن آنکھیں دے رکھی تھیں اور زرخیز ذہن بھی۔ اپنے منفرد لہجے اور اسلوب مں کالم لکھتے جس میں واقعات کی عکاسی بھی ہوتی اور ادب کا چٹخارہ بھی۔ کالم نگاری کو نت نئے رنگ میں ڈھالنے میں یوسف خان اور برادرم الیاس شاکر ہمیشہ مدمقابل رہے۔ ظفر اقبال کیا شاندار انسان تھا۔ ہمہ وقت متحرک، محبتیں بانٹنے اور دُعائیں سمیٹنے کا فن کوئی اُن سے سیکھتا ہر دُکھ درد اور خوشی میں قدم بہ قدم چلنے والا دوست آنکھیں موندکر سب کو رُلاگیا۔ محفوظ علی خان اعلیٰ اخلاق کا مرقع تھے۔ قاری حسن جاوید اپنے اسٹائل کے منفرد انسان تھے۔ کیسے کیسے دلآویز ستارے تھے ایک کے بعد ایک بجھتے چلے گئے۔ درحقیقت صحافتی زندگی خطرات اور چیلنجوں سے عبارت ہوتی ہے۔ نوائے وقت کے گزرے دنوں میں خطرات سے بھی نبرد آزما ہونا پڑا۔ دھمکیاں، راکٹ لانچر کا حملہ بے قابو مشتعل ہجوم کا دفتر کو آگ لگانا، خاتون کا خود کش حملہ جس نے متعدد زندگیوں کے چراغ بجھادئیے لیکن اندازہ یہی ہوتا ہے کہ حالات خواہ کتنے ہی خوفناک کیوں نہ ہوں اگر آپ اِس پروفیشن میں ہیں تو تماتر خطرات کے باوجود دور اندیشی فراست اور معاملہ فہمی کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر ایک کا متبادل انسان مارکیٹ میں موجود ہے خود کو غیرمتبادل اور انمول سمجھنے والوں سے قبرستان بھرے پڑے ہیں لیکن یہ آپکے ہنر اور آپکی شخصیت کا جادو ہوتا ہے۔ یہ اُنکی محبت اور ارادت کا کمال ہوتا ہے کہ آپ یادوں میں زندہ رہتے ہیں نوائے وقت میں گزرے وقت کی بے شمار یادیں ہیں لیکن اِس عرصے میں جن محبت کرنے والے ساتھیوں کے ساتھ کام کیا اور وہ آج ہم میں موجود نہیں۔ اللہ رب العزت سے دُعا ہے کہ اِن سب کی مغفرت فرمائے۔(آمین)