ماہ رنگ بلوچ کی کراچی پریس کلب امد


تحریر:سعید جان بلوچ۔ آنکھوں میں دلوں کوتسخیر کرنے کی صلاحیت اور دشمنوں کو للکارنے والی قوت لیے معمولی رنگ صورت چھوٹے قد مگر بلند حوصلہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی آرگنائزر بلوچستان میں گمشدہ افراد اور بلوچ نسل کشی کے خلاف اپنی ہمت جرات اور بہادری کے ساتھ مقابلہ کر کے دنیا بھر کی توجہ حاصل کرنے والی ماہ رنگ بلوچ13 جون کی دوپہر کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرنے پہنچی تھی پریس کانفرنس میں انہوں نے اپنی تنظیم بلوچ یکجہتی کمیٹی کے انتظامی ڈھانچے کا اعلان کیا اور اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے میڈیا کے نمائندوں کے سامنے بلوچستان کے بلوچ عوام کا مقدمہ بھرپور انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی پریس کانفرنس کے اختتام پر وہ کراچی پریس کلب کے صدر سعید سربازی کی دعوت پر کراچی پریس کلب کے بورڈ روم میں تشریف لائیں جہاں ملکی اور غیر ملکی میڈیا کے ساتھ بات چیت کی.
ماہ رنگ بلوچ کا کہنا تھا کہ ہم اپنے لیے کچھ نہیں مانگتے ہیں ہمیں صرف اپنی سرزمین پر سانس لینے کی اجازت دی جائے ہمارے وسائل پر ہمارا حق تسلیم کیا جائے ان کا کہنا تھامئی 2020میں تربت میں ایک بلوچ خاتون مالک ناز بلوچ کو اس کے گھر کے اندر گھس کر قتل کیا گیا اس کا قصور کیاتھا اس کا جواب نہیں دیاگیا۔نومبر 2023کو تربت میں ایک جعلی مقابلے میں حیات بلوچ کوشہید کردیا جاتا ہے جب اس کے قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو نہ مقدمہ درج ہوتا ہے اور نہ قاتل گرفتار ہوتے ہیں تو پھر ہم نے اس قتل کے خلاف کوئٹہ سے اسلام آباد تک لانگ مارچ اس لیے کیا تھا کہ ہم وفاق سے یہ کہنے آئے تھے کہ ہمارا خون اتنا سستا ہے اورآپ نے ہمارے 500لوگوں کو اغوا کر کے اپنے پاس رکھا ہوا ہے ہمیں صرف یہ بتایا جائے کہ وہ زندہ ہیں یا ان کو مار دیا گیا ہے ہمیں روزانہ بلوچ افراد کی لاشوں کا تحفہ دیا جاتا ہے یہ کب بند ہوگا لیکن اسلام اباد اور اس کے قریبی شہر راولپنڈی میں موجود بے حس حکمرانوں اور مققدد قوتوں نے ہمیں جواب دینے کے بجائے واپس بھیج کر یہ پیغام دیا کہ وفاق کے پاس ہماری آواز سننے کے لیے وقت نہیں ہے اس لیے ہم اپنی اواز کو میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا بھر میں موجود جمہوریت پسند اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے سامنے پیش کیا انہوں نے ہماری آواز کو نہ صرف سنا بلکہ دنیا کی عالمی فورم پر اس کو پہنچایا بھی انہوں نے کہا کہ ناروے میں موجود پاکستانی سفارت خانے سے بھیجے گئے افراد نے میری تقریروں کے دوران بد نظمی پیدا کرنے کی کوشش کی ہمیں وہاں بھی دھمکی دی گئی جس کے بارے میں ہم نے ناروے کی حکومت کو اگاہ بھی کیا.

وہ بلوچستان کے مختلف اضلاع میں ہونے والے جبر و تشدد کے خلاف شکوہ شکایت کرنے کے بجائے اپنی قوم کے جائز حقوق اور سرزمین سے محبت کے بارے میں بتا رہی تھی وہ کہہ رہی تھی کہ ہم نے مزاحمت کو اپنا کلچر بنا دیا ہے اور یہ سب کچھ ہم نے اپنے بزرگوں سے سیکھا ہے. سندھ اور خیبر پختون خواہ کی مظلوم قوموں کے ساتھ ہونے والے ظلم و زیادتی اور جبری گمشدگی کے خلاف مل کر جدوجہد کرنے پر زور دیا انہوں نے کہا کہ دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک میں جمہوریت ہونے کے باوجود وہاں پر جمہوریت کو مزید مضبوط کیا جا رہا ہے جبکہ ہمارے جمہوریت کے نام پر جمہوریت اور جمہوری اداروں کو کمزور کیا جا رہا ہے انہوں نے کہا کہ وہ پارلیمانی سیاست کو اچھا عمل سمجھتی ہیں لیکن پہلے پارلیمنٹ میں عوام کے حقیقی نمائندوں کو لاناپڑے گا موجودہ پارلیمنٹ میں جو نمائندے بیٹھے ہیں وہ خود اعتراف کر رہے ہیں کہ وہ کس طرح جیت کر آئے ہیں. انہوں نے بلوچستان میں میڈیا کی جانب سے حقائق پر مبنی رپورٹنگ نہ ہونے پر صحافیوں سے گلہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم میڈیا کو نہیں کہتے کہ ہم جو کہہ رہے ہیں
اس کو کوریج دیں بلکہ وہ صرف حقائق کو دیکھ کر تحقیقاتی رپورٹنگ کرتے ہوئے صرف سچ بیان کریں بلوچستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اب تک میڈیا کو رسائی نہیں دی جا رہی ہے صرف وہ بیان سامنے آ رہا ہے جو ہمیں مارنے والے دے رہے ہیں
اس دوران بلوچ یکجہتی کمیٹی کے سر گرم رہنما ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے بلوچستان کے علاقے نوکنڈی دلبدین اورمشکے اووران میں ہونے والے واقعات بیان کر رہی تھی تو ان کی اواز سے تکلیف اور درد کو محسوس کیا جا سکتا تھا وہ بتا رہی تھی کہ کس طرح حیات بلوچ کو اس کی بوڑھی ماں کے یہ سامنے قتل کیا گیا وہ رو رو کر فریاد کر رہی تھی کہ بس کرو اور گولیاں مت مارو لیکن بد بخت اہلکار اس کے سینے پر گولیاں چلاتے رہے بلوچستان کے نوجوانوں کو پنجاب کے تعلیمی اداروں سے اغوا کیا جاتا ہے ہم نہیں چاہتے کہ پنجاب سے کوئی بلوچ اغوا ہو اور اس کے بدلے بلوچستان سے پنجابی اغوا ہو یہ سب کچھ ریاستی ادارے نفرت پیدا کرنے کے لیے کر رہے ہیں تاکہ بلوچوں کو بدنام کیا جا سکے.
ماہ رنگ بلوچ کی کراچی پریس کلب امد کی خبر نشر ہونے کے بعد کراچی کے مختلف علاقوں سے بلوچ خواتین اور نوجوانوں کی بڑی تعداد ان سے ملاقات کرنے پہنچ گئی تھی.
ماہ رنگ بلوچ کی پریس کانفرنس اور میڈیا سے بات چیت کے دوران ایک بات کھل کر سامنے اگئی ہے بلوچستان کی مزاحمتی تحریک میں ان کے بزرگوں نے جدوجہد کی جو راہ متعین کی ہے اس کو جدید خطوط پراستوار کرنے کے ساتھ ساتھ وہ ماضی کی غلطیوں کو دہرانا نہیں چاہتی وہ دیگر مظلوم عوام کے ساتھ مل کر بلوچستان کی عوام کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا چاہتی ہیں وہ میڈیا اور انسانی حقوق کے اداروں کو بلوچستان میں ہونے والے ریاستی جبرو تشدد اور بلوچ نسل کشی کے بارے میں وہ حقائق بیان کرنے کے لیے متحرک رپورٹنگ کے لیے کوشاں ہیں کراچی پریس کلب میں ان کی امد کے موقع پر بلوچ یکجہتی کمیٹی کے لالہ وہاب بلوچ، واجہ صبغت اللہ شاہ جی ودیگر موجود تھے