ایکشن کمیٹی کا ایکشن، آزاد کشمیر کے سیاسی مجاوروں کی دوڑیں لگ گئی

سچ تو یہ ہے،

بشیر سدوزئی،
==============

مہنگائی اور مفاد پرست سیاسی اشرافیہ خاص طور پر پاکستانی سیاسی فرنچائز کے ستائے آزاد کشمیر کے عوام جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی اپیل پر یکجا ہو کر مظفرآباد کیا پہنچے کہ سیاسی اشرافیہ کی دوڑیں لگ گئی، ایک پارٹی دوسری پر سبقت لینے کی کوشش میں شہر شہر سرگرداں ہیں لیکن اب کے بار پارٹی جم نہیں رہی، ایک مجاور نے کیا خوب تبصرہ کیا کہ آزاد کشمیر کے عوام کے جذبات کا بلبلہ ابھی ایکشن کمیٹی کی خیالی کشتی میں ہی پیر رہا ہے، جوں ہی انتخابات نزدیک آئیں گے موسمی پنچھی اپنے، اپنے دڑبوں میں پلٹ جائیں گے۔ برحال یہ تو صرف قیاص و خیال ہے یا پیشن گوئی۔ شیخ رشید احمد پیشن گوئیاں کرتے کرتے سیاسی امر ہو گئے۔ اس پیشن گوئی کا کیا بنے گا وقت ہی بتائےگا۔ سیاسی اشرافیہ نے آنیاں جانیاں شروع کر رکھی ہیں، بلاول بھائی کی فرنچائز تو بندر کی طرح صرف ٹینیوں پر اچھل کود سے ہی تھک ہار گئی، البتہ کارکنوں کو جنت میں پاکستان کے ساتھ رہنے کا سوال پوچھا جانے کا خوف دلانے والے محترم نیریاں شریف عرس مبارک میں پہنچ گئے اور خوب نعرے بازی کی۔ ابھی تک یہ اطلاع نہیں ملی کہ اس طرفہ تماشہ میں پیر صاحب محترم نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا یا وہ گدی پر بیٹھے تماشا ہی دیکھتے رہے۔ کہا جاتا ہے کہ عرس صوفیاء کی مجلس ہوتی ہے جہاں حضرت حسن بصری، رابعہ بصری، شیخ عبدالقادر جیلانی جلال الدین رومی، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علامہ اقبال سمیت لاکھوں کروڑوں صوفیاء کرام کی روح بسیرا کرتی ہیں۔ اس روز نیریاں شریف کے عرص میں آئی صوفیاء کرام کی اروح نا جانے کیا تبرک لے کر پلٹی ہوں گی، جب سیاست کے جغادری دھوکہ بازی کی نعرہ بازی سے تراڑ کیل کی پہاڑیوں کو شرما رہے تھے۔ پیر صاحب کو ان مہمان اروح کا ذرا بھر بھی خیال نہ آیا جن کی نسبت سے ان کا ڈیرہ چل رہا ہے ۔ مریدین میں سے کچھ کے تو دل ضرور ٹوٹے ہوں گے۔ “جس کا کام ہے اسی کو سانجھے ” اس سے بہتر تھا پیر صاحب،
“سانجھا کوئی بیچ میں پیڑ لگاتے۔۔
جس کا دونوں گھر میں سایہ جاتا” سردار عتیق احمد خان ان آنیاں جانیاں پر جو محنت کر رہے ہیں اس کو کچھ فائدہ ہو گا، کوئی یقین دہانی کروائی گئی ہے کوئی اطلاع نہیں، لیکن حالات تو ایسے لگ رہے ہیں کہ وقت گزر چکا اور زمین کا چکر مکمل ہونے میں وقت لگتا ہے۔ اسی دوڑم دوڑ میں وزیر اعظم چوہدری انوار الحق بھی میدان عمل میں نکل پڑھے۔ عوامی رابطہ مہم کے نام پر ہر ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اور کسی جگہ تحصیل ہیڈ کوارٹر میں بھی پہنچیں گے۔ عوام کے ساتھ قریبی رابطہ رکھنا حکمرانوں کے لیے لازمی اور ضروری ہوتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ وزیراعظم نے اسی وقت کا انتخاب کیوں کیا، کیا وہ وفاداری کا یقین دلانے نکلے ہیں یا فرنچائزکےمقابلےمیں اپنا چورن بیچنے۔ مقاصد جو بھی ہیں اس سے کچھ فرق نہیں پڑھے گا۔ اب لوگ سب سمجھتے ہیں کہ کون کتنے پانی میں ہے۔ افسوس کن امر یہ ہے کہ آزاد کشمیر میں خطرناک کلچر پروان چڑھ رہا ہے کہ صرف لعن طعن اور طعن تشنیع ہی کرتے رہو کسی کے اچھے کام کی تعریف نہیں کرنی، مجھے تو انوار الحق اس دن سے اچھے لگ رہے ہیں جس دن سینیٹ آف پاکستان کی کمیٹی کو انہوں نے کشمیر اور کشمیریوں کے مسائل پر بریفنگ میں کہا تھا کہ آپ لوگوں نے حالات وہاں تک پہنچا دئے کہ پاکستان کے ساتھ محبت کرنے والی کشمیر کی یہ آخری نسل ہے۔ چوہدری انوار الحق سے اس لیے بھی محبت ہے کہ وہ چوہدری صحبت علی صاحب کے فرزند ہیں جن کی سیاسی تربیت لبریشن لیگ میں کے ایچ خورشید صاحب کے ساتھ ہوئی اور وہ اثرات اس اجلاس میں انوار الحق پر نمایاں تھے ۔ ان کا دور حکومت اتنا خراب بھی نہیں جتنا چور مچائے شور کے مصداق آزاد کشمیر میں شور و غوغا ہو رہا ہے، مالی ضابطگی انتظامی اخراجات میں کمی، بیوروکریسی کی سمت کا تعین سمیت گورنس پہلی حکومتوں کے مقابلے خراب تو نہیں۔ آزاد کشمیر میں ملازمتیں فروخت اور ممبران اسمبلی پنشن لیتے ہیں وہ سب اچھے کیسے ہو گئے اور انوار الحق کی حکومت خراب جو اس سب کو خراب کہتی ہے ۔ اگر فرنچائز کے نمائندے نے ہی وزیراعظم رہنا ہے تو انوار الحق کیا برا ہے۔ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی لانگ مارچ اپنی جگہ لیکن بغیر کسی بڑے حادثے کے بغیر اس کا منتقی انجام صرف جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی کامیاب حکمت عملی ہی نہیں کچھ حکومتی عوامل بھی شامل تھے۔ انوار الحق حکومت کو اس کا کریڈٹ جانا چاہیے۔ عوامی لانگ مارچ کے دوران آزاد کشمیر پولیس کے ہاتھوں کوئی ایک شہری بھی زخمی نہیں ہوا۔ کیا یہ پولیس کا اپنا فیصلہ تھا؟ مظاہرین کے ساتھ پولیس کا رویہ ہمدردانہ تھا، کیا یہ پولیس کا اپنا فیصلہ تھا۔ وفاقی حکومت کو صحیح اور مثبت بریفنگ کا کریڈٹ انوار الحق کو نہیں جاتا تو کس کو جائےگا؟ ۔ کچھ لوگ تو ساری زندگی پاکستانی قیادت کو غلط بریفنگ ہی دیتے رہے وہ قابل گرفت نہیں؟۔ آزاد کشمیر کے بہادر شہریوں نے پولیس کے جوانوں پر ایسا تشدد کیا کہ ایسا مقبوضہ کشمیر اور فلسطین کے عوام بھی نہیں کرتے۔ آزاد کشمیر کی پولیس کشمیری جوانوں پر مشتمل ہے نہ کہ اسرائیل سے بھرتی کر کے لائے گئے۔ ریاستی پولیس فورس پر مظاہرین میں سے ہی لوگوں نے تشدد اور پہاڑوں سے لڑکایا جیسے وہ گوشت پوست کے نہیں لوہے کے ہیں۔ پولیس نے مظاہرین کو آگے بڑھنے سے روکا ہو گا جو ان کی ذمہ داری ہے لیکن ہمارے رویوں میں سختی نہیں نرمی ہونا چاہیے، جو مطالبات مظاہرین کے تھے وہی پولیس اور ریاستی ملازمین کے بھی تھے۔ لہذا احتجاج کا حق قانون کے ذریعے متعین کردہ حدود میں استعمال ہونا چاہئے۔ کچھ عناصر نے جان بوجھ کر عوامی تحریک کو ہائی جیک اور آزاد کشمیر سے پرامن خطہ کا درجہ چھیننے کی کوشش کی اور ایکشن کمیٹی نے ابھی تک علانیہ ان کی سرگرمیوں، تقریروں اور نعروں سے اعلان لاتعلقی نہیں کیا۔ بلکہ وہ خود اس کا کریڈٹ لے رہے ہیں۔ پوری تحریک میں بعض افراد پاکستان اور پاکستانی فوج پر آزاد کشمیر کی بیوروکریسی پر لعن طعن کرتے رہے لیکن آسیہ اندرابی سمیت تہاڑ جیل میں بند 33 خواتین سمیت اسیران آزادی کا ذکر تک نہیں ہوا اور نہ ہی بھارتی تشدد کی مذمت کی گئی اور نہیں ہی مقبوضہ جموں و کشمیر پر بھارتی قبضہ کا کوئی ذکر ہوا۔ یہ تو غلط بات ہے کہ کسی شہری کو بلا ثبوت کسی غیر کا ایجنٹ کہا جائے لیکن اس طرح کے طرز عمل سے آزاد جموں و کشمیر کے عوام کو پاکستانی عوام سے الگ تھلگ کرنے کی کوشش کہا جا سکتا ہے جو جدوجہد آزادی کے خیر خواہ نہیں کر سکتے۔ ہم پاکستانی عوام کی حمایت کے بغیر بھارت کے ساتھ نہیں لڑ سکتے۔ اس طرح کی افواہ بھی ہے کہ کچھ لوگوں کے پاس اسلحہ بھی تھا لیکن ہمارے پاس اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے ذمہ داران کے لیے یہ سوال چھوڑ کر آگئیں بڑھتے ہیں کہ کیاعوامی حقوق کےنام پر یہ سب کچھ اور اس سے بھی زیادہ جائز ہے اور ان ساری سرگرمیوں کے ساتھ آپ عوام کو کتنا عرصہ اپنے ساتھ جوڑ سکتے ہیں۔ ہاں ذمہ داران یہ کہہ کر بری الذمہ ہو سکتے ہیں کہ یہ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی پالیسی نہیں تھی یا اس کے ذمہ داران نے کسی سے ایسا کرنے کا نہیں کہا، تو شوکت نواز میر کی اس ویڈیو کا کیا کیا جائے جس میں وہ آزاد کشمیر کے افسران کے لیے جی بھر کر غلیظ جملے ادا کر رہے ہیں ان کو چور اچکا اور نہ معلوم کیا کیا کہا جا رہا ہے، آزاد کشمیر کے نامور شاعر احمد فرہاد کے ساتھ جو ہوا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا افسوس کن اور قابل مذمت ہے لیکن!
“آپ ہی اپنے ذرا جور و ستم کو دیکھیں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی”
جو کوئی عوام میں زیادہ مقبول اور زیادہ ذمہ دار ہے اس کی ذمہ داری اور فرض شناسی بھی زیادہ ہے۔ محترم احمد فرہاد نے مقبولیت کی خواہش میں یا کسی کے بغض میں افواہوں پر مبنی جس عجلت میں ویڈیو جاری کی کہ رینجرز کی فائرنگ سے 13 افراد ہلاک ہو گئے بڑی خوف ناک تھی۔ ایک بڑا آدمی اپنی گفتگو میں یہی کہہ دیتا کہ مبینہ طور اطلاعات کے مطابق یا مظفرآباد میں افواہیں گردش کر رہی ہیں لیکن ابھی تک اس کی تصدیق نہیں ہوئی بچت کا کوئی پہلو نکل جاتا۔ انہوں نے تو خبر ہی دے دی۔ اس ویڈیو سے سوسائٹی میں کتنے بڑے نقصان کا اندیشہ تھا۔ زیادتی پر تو سب سیخ پا ہیں لیکن اس کا جواب کوئی نہیں دے رہا نہ ابھی تک ہمارے ہیرو نے اس فحاش غلطی پر قوم سے معافی مانگی۔ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی ابھی بھی متحرک ہے، اگر وہ سمجھتے ہیں کہ عوام ان کے ساتھ جڑے ہوں تو سیاسی سنجیدگی، سوج بوج اور سچ اور حق بات کو معزز طریقہ سے پیش کریں عوام تک وہی بات پہنچائیں جو سچ ہو آزاد کشمیر کی پولیس، بیوروکریسی اور ججز اس ریجن میں بہترین ریکارڈ کے حامل ہیں ممکن ہے کچھ تھوڑے لوگ خراب بھی ہوں لیکن چند لوگوں کی خرابی پر سب کو لعن طعن نہیں کی جا سکتی اور نہ کوئی معزز معاشرہ اس کی اجازت دیتا ہے۔ ایک پرامن معاشرے کو توڑو نہیں بلکہ اس کو مزید بہتر بناو