ایسا تو ہونا ہی ہے!

سہیل دانش
============

اگر آپ مستقبل میں جھانکنا چاہتے ہیں تو ماضی کی تاریخ کو الٹ پلٹ کر دیکھ لیں انسانی نفسیات کا ادراک کر لیں۔ آپ کو زندگی میں بہت سی ایسی چیزیں نظر آئیں گی جو بڑی بے وفا ہوتی ہیں۔ میں نے زندگی میں خود ارب پتی لوگوں کو پیسے پیسے کا محتاج ہوتے دیکھا ہے ۔ خوبصورت گھر ہیں۔ مارکیٹیں ہیں سڑکیں ہیں پارک ہیں لیکن چالیس پچاس سال قبل یہاں گاﺅں ہوں گے میدان ہوں گے سناٹا ہو گا جن چودھریوں اور فیوڈلز کی یہ زمینیں تھیں وہ کہاں ہیں ان کا دبدبہ ان کی کی شان و شوکت کہاں ہے۔ پانچ دھائیوں میں زمین کی شکل ہی بدل گئی ہے۔ ذرا غور تو کیجیے کہ دولت مند غریب ہو گئے مالک ملازم بن گئے بڑے بڑے تیس مار خاں وقت کے سیاہ صفحوں میں جذب ہو گئے کہ دولت سے بڑھ کر بے وفا چیز کیا ہو ہو گی۔ اولاد دولت اور عہدے کی بے وفائی کی داستانیں بکھری پڑی ہیں۔ ان بے وفائیوں کے داغ اور آخر میں قبر کا اندھیرا۔ یہ ہے زندگی ! یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے ہم میں سے ہر کوئی واقف ہے لیکن اس کے باوجود یہ انسان کا کمال ہے یہ دیکھتا ہے لیکن اسے نظر نہیں آتا یہ سنتا ہے لیکن اسے سنائی نہیں دیتا۔ یہ سمجھتا ہے لیکن اسے سمجھایا نہیں جا سکتا۔ ہر روز لوگوں کو تباہ و برباد ہوتا‘مرتا ذلیل ہوتا دیکھتا ہے۔ لیکن ہر بار خود کو یقین دلاتا ہے۔ یہ میرے ساتھ نہیں ہو گا۔ کیونکہ میں دوسروں سے مختلف ہوں۔
میں اسی حقیقت کو پاکستان کے سیاسی منظر میں دیکھتا ہوں یہاں طاقتور ایک دوسرے کو الیکٹ اور سلیکٹ کر رہے ہیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ حکومت کوئی بھی ہو۔ اس ملک کا سربراہ آصف زرداری ہو نواز شریف ہو یا عمران خان ہوں۔ تبدیلی صرف اتنی آتی ہے کہ فریم کی تصویر بدل جاتی ہے۔
گزشتہ دنوںمجھے بہت عرصے بعد حیدر آباد جانے کا اتفاق ہوا یہ وہ شہر ہے جس کے حوالے سے میری زمانہ طالب علمی کی تلخ و شیریں یادیں ہیں یہاں کی شامیں یہاں کے لوگ یہاں کے تعلیمی ادارے‘یہاں کے بازار یہاں کی سڑکیں اور سب سے بڑھ کر محبت کرنے والے دوست ‘اب یہ شہر بدل گیا ہے اس کا رنگ و روپ پھیکا پڑ گیا ہے یہاں ایک سیمینار میں شرکت کا موقع ملا جس میں کالج اور یونیورسٹی کے طالب علموں کی بڑی تعداد کے علاوہ عام شہری بھی موجود تھے۔
سوال و جواب کے سیشن میں متعدد ایسے سوالات تھے۔ جن کا براہ راست تعلق ملکی اور سندھ کی سیاست سے تھا ۔نوجوانوں کا اضطراب اور غیر یقینی کی ذہینی کیفیت بتا رہی تھی کہ وہ وطن عزیز کی موجودہ صورتحال پر دل برداشتہ ہیں ان کے سوالات میں دکھ اور محرومی صاف جھلک رہی تھی۔ میں نے ان سے چند باتیں گوش گزار کیں جن کی تفصیل میں آئندہ کالم میں لکھوں گا۔مختصراً انہیں بتایا کہ کامیابی اور ناکامی‘ اچھائی اور برائی فقط اسٹیٹ آف مائند ہوتی ہے عرض کیا کہ کبھی آپ نے جیب کترے کو دیکھا ہے یہ بھی ایک شخص کی کامیابی اور ایک کی ناکامی ہوتی ہے۔ اسے ایک شخص برائی کہتا ہے اور دوسرے کے لئے وہ حصول رزق کا ذریعہ ہوتا ہے اصل ذمہ دار ضمیر ہوتا ہے اور یہ فساد ضمیر نے پھیلا رکھا ہے میں نے ان سے عرض کیا عمران کو سزا ہونی تھی اور یہ ہو گئی۔ لیکن اس سزا نے ثابت کر دیا ملک میں ہر الیکشن سے پہلے کسی نہ کسی وزیر اعظم کو سزا ضرور ہو گی۔ کوئی نہ کوئی نظام کے گھاٹ پر ضرور چڑھے گا۔2018ءمیں نواز شریف اپنی صاحبزادی کے ساتھ جیل میں تھے اور عمران اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر بیٹھے تھے یہ سلسلہ 1958ءمیں حسین شہید سہروردی سے شروع ہوا تھا اور اب تک جاری ہے۔2024ءمیں عمران خاں بشریٰ بی بی کے ساتھ جیل میں ہیں اور نواز شریف ون پیج کا لطف اٹھا رہے ہیں اب ایشو یہ ہے کہ 2024ءکے بعد 2028ءآئے گا۔ سوال یہ ہے کہ اس وقت جیل میں کون ہو گا۔ اس سوال کے جواب میں ملک کا مقدر چھپا ہے۔
مجھے یوں لگتا ہے کہ اس وقت نواز شریف‘ عمران خان اور آصف علی زرداری کے مابین فاصلے اور دوریاں گھٹ گئی ہوں گی جیسے آج کل آپ عمران اور مولانا فضل الرحمن کے مابین بڑھتے فاصلے گھٹتے دیکھ رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ 2028ءسے پہلے کوئی نہ کوئی ایسی میز سجے گی کہ یہ تمام فریق اس پر بیٹھ کر اپنے فاصلوں کو سمیٹ لیں گے ذہن پر زور دیں اور سوچیں کہ ان کو کون بٹھائے گا یا پھر ان سب کو اپنی غلطیوں کا ادراک ہو جائے گا یا پھر یہ سب ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنے پر مجبور ہوں گے۔ایک نوجوان نے سوال کیا کہ آپ صحافی ہر روز صبح و شام سیاست پر نت نئے بھاشن دیتے رہتے ہیں۔ اس طرف توجہ نہیں دیتے کہ سندھ میں اردو اسپیکنگ آبادی کے لئے سرکاری ملازمتوں میں ہر طرف No Vacancyکا بورڈ لگا ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سندھ میں ہر سطح پر سرکاری ملازمتوں میں اردو بولنے والا طبقہ کیوں سکڑتا جا رہا ہے۔ اس سے محرومی کی تپش ہر طرف محسوس کی جا رہی ہے اور کبھی ایک طرف سے دھواں اٹھنے لگتا ہے اور کبھی دوسری طرف سے ۔ سندھ میں سوچ کے یہ دھارے نئی طرز سیاست کو جنم دے رہے ہیں۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور سندھ میں بسنے والے اردو اسپیکنگ طبقے کی محرومی نے 1970ءکی دھائی میں نواب مظفر حسین اور پھر 80ءکی دہانی میں الطاف حسین کی صورت میں ابھرتی قیادت کو دیکھا تھا۔ ہر طرف سے پھیلنے اور اپنے وجود میں پورے پاکستان سے آنے والوں کو سمیٹنے اور سہارا دینے والے اس شہر میں لوگوں نے 80ءاور 90ءکی دہائی میں اندرونی سلامتی کی ڈیوٹی پر مامور باوردی فوجی اور رینجرز کے جوانوں کو چوراہوں پر چاق و چوبند دیکھتا لیکن ساتھ ساتھ شرپسند بھی ہر روپ میں سرگرم تھے جب نئی نئی کہانیاں جنم لیتی تھیں اور ہر طرف ہٹو بچو کی ہڑبونگ تھی لیکن اس سفر میں بہت سی تلخ اور کٹھن یادیں اور باتیں زبان زد و عام ہیں اس لئے ایک نئی قیادت کا ابھرنا‘ پذیرائی حاصل کرنا اور نیا اسلوب اختیار کرنا تاریخ کا سبق ہے۔یہ نئے اور مختلف چہرے ہوں گے اپنی ان باتوں کے پس منظر میں کیا حقائق اور لاجک پوشیدہ ہے۔ یہ پھر آئندہ تفصیل سے۔