[[ کمشنر سکھر نے قومی شاہراہ سمیت موٹروے کےدونوں اطراف 1500 میٹرز تک گنے کی کاشت پر دفعہ 144 نافذ کر دی۔

[[ کمشنر سکھر نے قومی شاہراہ سمیت موٹروے کےدونوں اطراف 1500 میٹرز تک گنے کی کاشت پر دفعہ 144 نافذ کر دی۔

کسانوں پر گھوٹکی، میرپور ماتھیلو، کموں شہید، سندھ پنجاب بارڈر کی قومی شاہراہ سمیت موٹروے کے دونوں اطراف کے علاقوں میں گنے کی کاشت پر پابندی لگادی گئی ہے۔

پابندی کا اطلاق، آج سے 22 جون 2024ء تک رہے گا۔ ]]

کمشنر سکھر صاحب نے جن علاقوں کی نشان دہی کی ہے، یہ علاقہ سینکڑوں کلو میٹرز پر پھیلا ہوا ہے۔ اگر ڈیڑھ کلو میٹر کو ان اضلاع کی لمبائی سے ضرب دیتے ہیں تو یہ زمین لاکھوں مربع ایکڑ بنتی ہے، جو کہ بے حد زرخیز بھی ہے۔

حکومت سندھ کی بے بسی کی منہ چڑاتی کہانی اور بزدلی کی انتہائی بھونڈی مثال، وقت کا تاریخ دان جب بھی لکھے گا ” اسے سنہری حرف میں ہی لکھے گا۔ ”

میری سرسبز و شاداب سندھ دھرتی کی کوکھ کو بنجر بنانے کے لئے، اس سے کمتر، بیہودہ، شرمناک اور بیغیرتی کا اور کانسا فیصلہ ہو سکتا ہے۔ میری سندھ دھرتی میں پیدا ہونے والی اور اس وقت معصوم/نوعمر نسل، آج کے حکومتی حکم کی کہانی کل کلاں جب سنے گی تو کیا سوچے گی کہ میرے دیس کو لٹیروں، رہزنوں اور دادا گیروں کے حوالے کر دیا گیا تھا۔

نئی نسل ضرور پوچھے گی کہ مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے امن و عامہ (لاء انفورسمنٹ) کو برقرار رکھنے والے ادارے (پولیس، نیم فوجی ادارے، رینجرز اور افواج) جن کی تعداد لاکھوں میں ہے، وہ اس وقت کیا کر رہی تھی، یا کیا خدمات انجام دے رہے تھے۔

حکومت سندھ کے اس فیصلے کو سندھ دھرتی کی غیور عوام مسترد کرتی ہے اور مطالبہ کرتی ہے کہ حکومت کی رٹ کو بحال کیا جائے اور کچے کے ڈاکوؤں کا فی الفور خاتمہ کیا جائے، چاہے اس کے لئے بہت بڑی قیمت ہی کیوں نہ ادا کرنی پڑے۔

کچے کے ڈاکوؤں کے خاتمے کے لئے، ان کی پشت پناہی کرنے والے پکے کے رسہ گیروں، پتھاری داروں، وڈیروں، اراکین صوبائی و قومی اسمبلی اور بیوروکریٹس کی کالی بھیڑوں کو گرفتار کر کے قرار واقع سزا دی جائے۔

یاد رہے کہ سندھ سے ڈاکو راج ختم کرنے کے لئے، اس سے پہلے بھی یعنی ماضی میں بہت بڑے بڑے آپریشن کئے جا چکے ہیں اور ملکی فضائیہ کی خدمات بھی حاصل کی جاتی رہی ہیں۔
===================

ایرانی صدر کا دورہِ پاکستان اور اس کی پس پردہ محرکات:
+++++++++++++++++++++++++++++++++++++

ایرانی صدر کے دورے کی محرکات کو اجاگر کرنے کے لئے دورے کے پس منظر کو پیش کر رہا ہوں. !!

1965ء میں جب ہندوستان کے ساتھ جنگ کا ماحول بن رہا تھا، حالات انتہائی کشیدہ تھے اور دوسری طرف ایران بھی جس کا ہمیشہ سے جھکاؤ پاکستان کے مقابلے میں ہندوستان کی طرف رہا ہے وہ بھی پاکستان کا شدید مخالف تھا۔ اس خوفناک صورتحال میں ایک طرف ہندوستان سے ہماری جنگ لگ جائے اور پیچھے سے ایران کہیں ہماری پیٹھ میں چھرا نہ گھونپ دے، ایوب خان، صدر پاکستان نے اس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کو ایران بھیجا (جو ایرانیوں کے داماد بھی تھے)، بھٹو سے ایوب خان نے کہا کہ جاؤ اور شاہ ایران جس طرح بھی راضی ہوتا ہے اسے راضی کرو اور پاکستان کے خلاف ایران کے حملے سے بچنے کی تدبیر کرو۔

بھٹو صاحب ایران گئے اور انہوں نے شاہ ایران سے کہا کہ آپ کیا چاہتے ہیں تو اس پر شاہ ایران نے دو باتیں کیں:-

(1) پہلی بات سیندک کے حوالے سے سیندک کا وہ علاقہ جہاں پر کاپر کے اور قیمتی معدنیات کے ذخائر ہیں اس کا وہ بڑا حصہ جہاں پر زیادہ ذخائر ہیں ایران نے اس پہ نشان لگا کے کہا کہ یہ آپ ہمیں دیں سیندک کا علاقہ شروع سے متنازعہ چل رہا تھا تو بھٹو صاحب نے شاہ ایران کی یہ بات مان لی. اور
(2) دوسری شرط شاہ ایران نے بھٹو صاحب کے ساتھ یہ رکھی کہ پاکستان ایران کے ساتھ اپنی سرحد کے قریب سے بلوچستان کے اندر سے تیل نہیں نکال سکتا اور ایران پاکستان کی سرحد کے قریب سے اپنے بلوچستان سے جو ایران کے اندر کا ہے وہاں سے تیل نکالے گا. بھٹو صاحب نے یہ شرط بھی مان لی اور 30 سال تک کا یہ معاہدہ طے پایا کہ 30 سال تک پاکستان اپنے بلوچستان سے تیل نہیں نکالے گا۔

ایران پاکستان کی سرحد کے قریب سے تیل نہیں نکال سکے گا اور تیل کا معاملہ اس طرح ہوتا ہے کہ جب ایک جگہ سے نکالا جائے تو بہہ کر دور دور سے تیل وہاں آ جاتا ہے تو ہوا یہ کہ ایران نے تیل نکالنا شروع کر دیا۔ پاکستان کا تیل بہہ کر زمین کے اندر اندر ایران کی طرف جاتا ہے اور ایران وہی تیل نکالتا ہے اور سستا تیل ہے ایران کا، جس کے بارے میں ہمارے ہاں بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ ایران سے پاکستان سستا تیل کیوں نہیں خریدتا اور یہ وہی تیل ہے جس کی سمگلنگ ایران پاکستان کی طرف کرتا ہے، جس کی ویڈیوز اور تصویریں ہم سوشل میڈیا پر اکثر دیکھتے رہتے ہیں۔

متذکرہ معاہدہ 30 سال تک کا تھا، پھر اگلے 30 سالوں میں کبھی کوئی ایرانی سربراہ حکومت پاکستان نہیں آیا۔ 1965ء سے 30 سال کے بعد 1995ء میں اس وقت کے ایرانی صدر ہاشمی رفسنجانی پاکستان تشریف لائے اور اس وقت کی پاکستان کی وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو سے (جو ایرانیوں کی نواسی تھیں) اس معاہدے کی مزید 30 سال کے لیے توثیق کروا لی گئی تو اب پھر اس معاہدے کے 30 سال پورے ہونے جا رہے ہیں جو کہ 2025ء میں تو اصولی طور پر تو ایران کے صدر کو 2025ء میں پاکستان آنا تھا لیکن وہ ایک سال قبل ہی آ گئے کیونکہ آج کل پھر بے نظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری کرسی صدارت پر براجمان ہیں اور پاکستان کی ایک بڑی شخصیت وزیر داخلہ بھی ایران نواز ہیں تو ان حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ پاکستان تشریف لائے ہیں اور اسی معاہدے کو مزید آگے بڑھانے کی کوشش کی جائے گی۔

میری پاکستان کے محب وطن لوگوں سے گذارش ہے کہ اب مزید اس معاہدے کی توثیق نہیں ہونی چاہیے، اس کو اگے نہیں بڑھانا چاہیے۔ اب ہم اپنا تیل نکال سکیں کیونکہ ہماری ضرورت ہے۔ ہم باہر سے مہنگا تیل خریدتے ہیں جب کہ ہمارا تیل ایران مفت میں نکالے جا رہا ہے اور الٹا ہمیں ہی وہ سمگل کر کے فروخت کرتا ہے۔ اس پر پاکستان کے مقتدر حلقوں اور محب وطن لوگوں کو خصوصی توجہ دینی چاہیے۔
===============
Eng M PERVEZ ARAIN
=======================