کتاب سے دوستی

تحریر ۔۔شہزاد بھٹہ
============

کتاب انسان کی سب سے بہترین دوست ھے اور جو کتاب سے دوستی لگاتے ھیں وھی بہترین لوگ ھوتے ھیں
ایک زمانے تھا کہ کتاب سے لوگ دلی لگاؤ رکھتے اور گھروں میں لائبریری کو ایک اھم مقام حاصل تھا علم دوست افراد کی یہ پہلی کوشش ھوتی تھیں کہ اچھی کتاب جہاں سے ملے حاصل کر لی جائے اور اس کو اپنی ذاتی لائبریری کا حصہ بنایا جائے بلکہ لوگوں کی کوشش ھوتی تھی کہ اپنا فالتو وقت کسی لائبریری میں گزرا جائے کسی بھی اچھی کتاب کا مطالعہ بندے کے ذہن کو کھولنے کا سبب بنتا ھے اس سے وسیع تجربات حاصل ھوتے ھیں اور تاریخ سے واقفیت پیدا ھوتی ھے کتاب تنہائی کا بہترین ساتھی ھے
جن لوگوں کو کتاب کے مطالعہ کا شوق ھے ان کی یہی خواہش ھوتی ھے کہ اپنا زیادہ سے زیادہ فالتو وقت مطالعہ کرنے میں صرف کریں چاھے وہ کسی ٹرین یا بس میں سفر کر رھے ھوں یا کسی بس سٹاپ پر سواری کا انتظار
کتاب ہماری تنہائی کی ساتھی ہے، روشنی کی کرن بن کر ڈھارس بندھاتی ہے،انسان اور کتاب کا رشتہ انتہائی قدیم ہے جتنا انسانی تہذیب و تمدن کا سفر
ایک اچھی کتاب کا مطالعہ انسان کو مہذب بناتا ہے ، بندے کی شخصیت میں نکھار اور وقار عطا کرتا ہے۔ کتاب سے دوستی انسان کو شعور کی نئی منزلوں سے روشناس کرواتی ہے ۔ کتب بینی کے شائقین تسکین قلب کے لئے کتب خانوں کارخ کرتے ہیں ۔ایک وقت تھا کہ ھر گلی محلے میں چھوٹی چھوٹی لائبریری ھوتی تھی جہاں سے تقریباً ھر موضوع پر کتابیں نہایت مناسب قیمت پر کرائے پر ملتی جاتی تھیں سکول کالجز یونیورسٹیز میں لائبریری ایک لازمی جزو ھوتی تھی اور طلبہ کا سب سے زیادہ رش آور وقت لائبریری میں کتاب بینی میں ھی گزرتا تھا لائبریری یا کتب خانے ایک ایسا جگہ ھوتے ھیں جہاں پر کتابیں صرف پڑھنے کے لئے مہیا کی جاتی ھیں کتب خانے میں کتابوں کی خرید و فروخت نہیں ھوتی بلکہ کچھ عرصہ کے دی جاتی ھیں لوگ ایک دوسرے کو سالگرہ یا کسی اور خوشی کے موقع پر ایک اچھی کتاب تحفہ دینے میں خوشی اور فخر محسوس کرتے جو بھی نئی مارکیٹ یا بازار بناتے ان میں کتابوں کی دوکانیں لازمی تھیں

کتاب اپنے وسیع تر مفہوم میں ہر وہ تحریر جو کسی شکل میں محفوظ کی گئی ہو کتاب کہلاتی ہے۔ گویا مٹی کی تختیاں، پیپرس کے رول اور ہڈیاں جن پر تحریر محفوظ ہے کتاب ہے؛ یہ چمڑے یا جھلی پر بھی ہو سکتی ہے اور کاغذ پر بھی۔ کتاب لکھے اور چھاپے گئے کاغذوں کے مجموعہ کو کہتے ہیں، جن کی جلد بندی کی گئی ہواور انھیں محفوظ کرنے کے لیے جلد موجود ہو۔
موجودہ دور میں ٹیکنالوجی اور سائنس کی ترقی کی بدولت کتاب صرف کاغذ پر چھپی تحریر ہی نہیں رھی بلکہ کمپیوٹر انٹرنیٹ پر بھی موجود ھیں ، کتابوں کے شوقین یا کتابیں زیادہ پڑھنے والے کو عموماً، کتابوں کا شیدائی یا کتابوں کا کیڑا کہاجاتا ہے۔
پھر وقت نے کروٹ لی اور سب کچھ بدل گیا کتاب کہیں گم ھو گئی لائبریریاں کم ھوتی چلی گئیں بلکہ ایک بیکار جگہ بن گئی۔ فضولیات نے کتاب کی جگہ لے لی اوپر سے سوشل میڈیا نے سماج کو بدل کر رکھ دیا تہذیب اور تمدن رکھ رکھاؤ کہیں دور چلا گیا مطالعہ کی عادت بھی ختم ھو گئی
اس لئے ضروری ہے کہ ہر محلے میں عوامی کتب خانے قائم کئے جائیں جہاں تمام موضوعات پر کتب موجود ہوں۔ نوجوانوں میں مطالعہ کا شوق پیدا کیا جائے اس سلسلے میں سکول کالج اور استاد کو اپنے کردار ادا کرنے کی اشد ضرورت ھے بلکہ والدین بھی کتب بینی کو دوبارہ سے فروغ دینے میں مثبت رول ادا کر سکتے ہیں اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو اس نام نہاد جدید دور میں ہماری آنے والی نسلوں پرعلم کے دریچے ہمیشہ کے لئے بند ہوجائیں گے اور جس معاشرے میں علم کے دریچے بند ہوجائیں وہاں صرف جہالت ، اندھیرا اور پسماندگی چھاجاتی ہے۔