ایرانی صدر کا دورہ پاکستان حوصلہ افزاء ہے، ہمیں ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات اور تجارت کو بڑھانا چاہیے: رانا کامران شاہد (چیئر مین پراپرٹی ڈیلرز ایسوسی ایشن/ چیئر مین راجپوت ایسوسی ا یشن منڈی بہاء الدین)

ایرانی صدر کا دورہ پاکستان حوصلہ افزاء ہے، ہمیں ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات اور تجارت کو بڑھانا چاہیے:
رانا کامران شاہد (چیئر مین پراپرٹی ڈیلرز ایسوسی ایشن/ چیئر مین راجپوت ایسوسی ا یشن منڈی بہاء الدین)
گذشتہ دنوں ہمسایہ اسلامی ملک ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے پاکستان کا سرکاری دورہ کیا جس میں اُن کی ملاقات صدر مملکت آصف علی زرداری اور وزیر اعظم میاں شہباز شریف کے ساتھ ساتھ اہم شخصیات سے بھی ملاقاتیں کیں اور کئی تجارتی معاہدے بھی کئے۔اِس دورے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے رانا کامران شاہد (چیئر مین پراپرٹی ڈیلرز ایسوسی ایشن/ چیئر مین راجپوت ایسوسی ا یشن منڈی بہاء الدین)نے کہا کہ یہ دورہ بڑا حوصلہ افزاء ہے خاص طور پر کچھ عرصہ سے ایران کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں کشیدگی آتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی اُن غلط فہمیوں کو دور کرنے کے حوالے سے بھی ایرانی صدر کا پاکستان آنا بہت اہم ہے۔ اُن کے ہمراہ تجارتی وفد بھی آیا ہے جس کے ساتھ بہت سے معاہدے ہوئے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کو اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرنے چاہئیں تاکہ خطے میں امن و سکون کا ماحول قائم رہے اور معاشی لحاظ سے تمام چھوٹے بڑے ممالک ترقی کریں۔ ہمیں ایک دوسرے کی ٹیکنالوجی سے بھی فائدہ اُٹھانا چاہیے اور دوطرفہ تجارت کو فروغ دینا چاہیے۔ ایران کے ساتھ گیس پائب لائن کا معاہدہ عرصے سے تعطل کا شکار ہے اگر وہا ں سے ہمیں سستی گیس مل جاتی ہے اور سستا تیل ملتا ہے تو ہمارے ہاں توانائی کا مسئلہ کافی حد تک کم ہو جائے گا۔
رانا کامران شاہد نے کہا کہ چین کے ساتھ ہمارے تعلقات ہمیشہ مثالی رہے ہیں۔ ہمیں افغانستان کے ساتھ بھی برادرانہ تعلقات قائم کرنے چاہئیں اور اگر بھارت کشمیر پر مثبت مذاکرات کیلئے تیار ہوتا ہے اور اِس دیرینہ مسئلے کے حل کی کوئی راہ نکالتا ہے تو بھارت سے بھی تجارت اور دیگر معاملات پر بات کرنی چاہیے۔ ستر سال سے ہم نے جنگ کا ماحول بنا کر کچھ حاصل نہیں کیا۔ دونوں طرف سے جانیں گئی ہیں لیکن مسئلہ وہاں کا وہاں کھڑا ہے۔ تمام مسائل کا حل آخر کار مذاکرات میں ہی نکلتا ہے اِس لئے ہمیں وہی راستہ اختیار کرنا چاہیے اور بجائے دفاعی ضروریات پر رقم خرچ کرنے کے دونوں ممالک کو عوام کی حالت بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ دونوں جانب کی عوام آپس میں ملنا چاہتی ہے، اِدھر والوں کی اُدھر یادیں ہیں اور اُدھر والوں کی اِدھر ہیں۔ یہاں سے لوگ ہجرت کر کے وہاں گئے ہیں اور وہاں سے لوگ یہاں آئے ہیں۔ یہ سب اپنے علاقوں کو دیکھنا چاہتے ہیں وہاں کے لوگوں سے ملنا چاہتے ہیں۔ اِن کو ایسا موقع ضرور دینا چاہیے کہ وہ اپنے آباؤاجداد کے جائے پیدائش کو دیکھیں اور اُن کے رہن سہن کے متعلق جانیں۔